پنجاب کی سیاسی تقسیم


پنجاب کی سیاسی تقسیم کیوں ضروری ہے؟ کیا واقعی پنجاب کو سیاسی طور پر تقسیم ہونا چاہیے یا پنجاب کی یہ سیاسی تقسیم کیوں مقصود ہے؟

اس سوال کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو پھر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ کسے ہو گا اور نقصان کسے؟

قارئین کرام اگر گزرے پچاس سالوں کا ہی جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ستر کی دہائی میں پنجاب سیاسی طور ہر ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسی کی دہائی میں میاں نواز شریف کسی حد تک پنجاب میں قدم جما چکے تھے اور وہ پنجاب خصوصاً شمالی و وسطی پنجاب کے روایتی مسلم لیگی ووٹرز کو اپنے گرد اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ میاں نواز شریف نے پنجاب کی سیاست پہ اسی طرح کاری ضرب لگائی جیسے کبھی ذوالفقار علی بھٹو نے لگائی تھی۔ خصوصاً وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد میاں نواز شریف بخوبی یہ سمجھ چکے تھے کہ اگر سیاست میں مزید آگے جانا ہے تو پنجاب کی سیاست پہ ہاتھ مضبوطی سے رکھنا ہو گا۔

نواز شریف کا یہ سیاسی سفر شاید اسی تیزی سے جاری رہتا جیسا کہ وہ سوچ رہے تھے لیکن 1988 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ایک بڑی اسٹیک ہولڈر بن کر سامنے آئی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے ساتھ ہی پنجاب میں ایک بار پھر پرانے جیالے بے نظیر کے انتخابی نشان تیر میں بھٹو کی تلوار دیکھ رہے تھے لیکن بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کو پنجاب میں وہ پذیرائی نا مل سکی جو ان کے والد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تھی۔ لیکن اس کے برعکس ہر آئے روز میاں نواز شریف کی مقبولیت دن بہ دن پنجاب کے طول و عرض میں زور پکڑ رہی تھی۔

نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر پاکستان کی سیاست کے محور و مرکز رہے۔ ہر حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی ان دو شخصیات کے گرد ہی گھومتی تھیں اور انہوں نے پاکستانی سیاست کو مقامی ذات برادری کے تعصب سے نکال کر پسند نا پسند کی سیاست میں بدلا۔ یعنی میرا ووٹ پیپلز پارٹی کو اس لیے ہے کہ مجھے بے نظیر پسند ہیں یا اگر میں اپنا ووٹ مسلم لیگ کو دے رہا ہوں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مجھے نواز شریف پسند ہے۔

جب پنجاب میں اکثریتی ووٹ میاں نواز شریف کو پسندیدہ سیاستدان سمجھ کر دیا جانے لگا تو اس وقت ان نادیدہ قوتوں کے کان کھڑے ہوئے کہ اگر نواز شریف یا کوئی اور سیاستداں لوگوں میں اپنی مقبولیت کی بنا پر ہردلعزیز ہو جائے تو کل کو ہمارے لیے بڑی مصیبت کھڑی کر سکتا ہے۔ لیکن ان قوتوں کو یہ خیال شاید ذرا دیر سے آیا کیونکہ اس وقت تک پنجاب میں میاں نواز شریف اپنی سیاسی حیثیت منوا چکے تھے۔

ماضی قریب میں ہی دیکھیے مشرف کی آمریت کے سوا نیزے پہ آئے سورج کے بعد بھی پنجاب مکمل طور پر نواز شریف پہ اعتماد کا اظہار کرتا ہے اور اسی دور میں میاں شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ یہ وزیر اعلی شہباز شریف کی ”پنجاب سپیڈ“ تھی یا نواز شریف کا ”ہوم گراؤنڈ“ پہ توجہ مرکوز رکھنا آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن مسلم لیگ نون نے پنجاب کو سیاسی طور پر ہاتھ میں ہی رکھا۔

بے نظیر کی رحلت کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں سکڑنا شروع ہو گئی اور دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد تو پی پی پنجاب کے لیے بالکل اجنبی بن گئی۔ اب پنجاب میں ایک نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف بھی تھی۔ دو ہزار گیارہ میں اس جماعت کے لاہور جلسہ میں لانچ ہوتے ہی میڈیا پہ ایک منظم انداز میں تحریک انصاف کو مسلم لیگ نون کی حریف جماعت کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا گیا۔ شروع شروع میں اس جماعت کی اٹھان درست معلوم ہوتی تھی نوجوان سیاست میں ایک نئے چہرے اور تبدیلی کے نئے نعرے سے متاثر ہو کر تحریک انصاف کو سپورٹ دینا شروع ہو گئے۔

تحریک انصاف کی قیادت نے بڑی چالاکی سے نوجوان طبقے کے جذبات کو بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے تبدیلی کے نام پہ ایکسپلائیٹ کیا اور آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کی یہی سب سے بڑی غلطی بن گئی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی غلطی کی وجہ سے دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں پنجاب ایک بار پھر مسلم لیگ نون کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ کیونکہ شہباز شریف نے تحریک انصاف کی اسی غلطی کو مکمل پلاننگ کے ساتھ نوجوان طبقے کو اپنی حکومت اور پارٹی کے ساتھ انگیج کیا۔ تحریک انصاف کے لیے پنجاب سے حمایت نا ملنا ایک انتہا درجے کی مایوسی تھی حالانکہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ یہ جماعت وفاق میں بھی قابل قبول حد تک سیٹیں جیت چکی تھی۔

پنجاب کی سیاسی حیثیت کو تقسیم کرنے والی قوتیں بھی مسلسل کمر بستہ تھیں کہ پنجاب کے ووٹ کو کسی نا کسی طریقے سے نواز شریف سے دور کیا جائے۔ 2018 کے الیکشن میں مکمل قوت اور پلاننگ کے تحت نواز شریف کو سیاست سے دور کر کے میدان صاف کرنے کے بعد اب بڑے بڑے سیاسی برج جنہیں سیاسی زبان میں الیکٹیبلز بھی کہا جاتا ہے انہیں جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل کیا گیا۔ بظاہر پنجاب کی سیاسی طاقت توڑ دی گئی، جو پنجاب سیاسی طور پر مضبوط تھا اب اسے تحریک انصاف اور اس کے الیکٹیبلز اور دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی سوچ میں تقسیم کر دیا گیا۔

اب جب دو ہزار اٹھارہ کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا اس کے بعد ہر آنے والا دن موجودہ حکومت کے لیے سخت سے سخت ترین بنتا جا رہا ہے اور پنجاب کے کم و بیش تمام ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون ہی پہلے نمبر پر آ رہی ہے تو کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ پنجاب نے کسی بھی ہائبرڈ نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے؟

اب مذہبی جذبات کو ہوا دے کر پنجاب کو سیاسی طور پر تقسیم کرنے کی کیا ایک اور کوشش کی جا رہی ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پنجاب کے سیاسی فہم کو مذہبی منافرت کے ذریعے تقسیم کیا جا سکتا؟ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو جواب نفی میں ملے گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں اول یہ تجربہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں کیا جا چکا، دوئم پنجاب کی اکثریتی آبادی سنی بریلوی ہے جو کہ انتہائی امن و محبت کا پرچار کرنے والی۔ سنی مکتب فکر کا عام آدمی دنگے فساد کی طرف نہیں جاتا۔ تحریک لبیک کے حالیہ مظاہروں میں اگر کوئی یہ دیکھ رہا ہے کہ ان کی مدد سے آنے والے الیکشن میں پنجاب میں سیاسی طور پر کوئی غدر مچایا جائے تو وہ اب شاید ممکن نہیں رہا۔ چونکہ اس ایشو کو حکومت کی جانب سے ایک غلط انداز میں ہینڈل کیا گیا اور ساتھ ہی وزراء کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کی گئی۔

اگر پنجاب سے باہر نظر ڈالی جائے تو بلوچستان سیاسی طور پر تقسیم نظر آتا ہے اس کا نقصان کس کو ہے؟ ظاہری سی بات ہے وہاں کے عوام کو۔ سندھ میں اردو اسپیکنگ کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مضبوط کیا گیا اس کا فائدہ کسے اور نقصان کسے ہوا؟ سندھی اور اردو بولنے والوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا، نقصان کسے ہوا؟ اب اسی طرح کبھی جنوبی پنجاب محاذ ایسے نوسر باز، کبھی ق لیگ جیسے ہتھکنڈے اور کبھی الیکٹیبلز کے جتھوں کی صورت پنجاب پہ بار بار ضرب لگائی جا رہی ہے۔

اب آخری مذہب والا پتہ بھی پھینکا گیا جو کہ وہ بھی بری طرح پٹ چکا ہے۔ ایسی تمام چالبازیاں پنجاب کے سیاسی فہم کو تقسیم نہیں کر سکتیں۔ خدارا اس مسئلے کو پنجاب کی عوام کے سپرد ہی کیجیئے وہ بہتر فکری سوچ رکھتے ہیں۔ اس بات کا ماضی گواہ ہے کہ پنجاب بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس سیاسی سوچ کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments