احساس کے نشتر


کسی کا احساس ہونا بھی ایک احساس ہے۔ گورنمنٹ آف پاکستان نے غریبوں کے احساس کے لئے احساس پروگرام شروع کیا ہے۔ بہت خوش آئند بات ہے۔ غریب خاندانوں کی مدد کی جائے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ کی زیر نگرانی یہ پروگرام چل رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر اس پروگرام کا کسی غریب کو سربراہ لگایا جاتا تو بہتر تھا۔

اس کا ممبر شپ طریقہ کار اتنا آسان ہے کہ ہر غریب کے پاس اپنا موبائل فون اور اپنے نام کی فون سم کا ہونا لازمی ہے۔ دو کروڑ خاندان اس سکیم سے مستفید ہونگے۔ ماشاءاللہ اس کی رجسٹریشن بہت آسان ہے اس کے لئے ایک ویب سائٹ اور ایپ ڈیویلپ کی گئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے ماہانہ ایک ہزار کی رعایت کے لئے سمارٹ فون اور ٹیلی فون سم رکھی جا سکے۔

اگر ممکن ہو تو ڈاکٹر صاحبہ کا بیان کردہ طریقہ کار آپ ان کی زبانی سن سکتے ہیں۔ پھر آپ کو بھی سمجھ آ جائے گا کہ نشتر ان کے نام کا حصہ کیوں ہے۔

میں پچھلے 33 سال سے شعبہ کمپیوٹر سے وابستہ ہوں اور 27 سال سے موبائل فون کا استعمال کنندہ ہوں۔ مجھے اس ایپ کا طریقہ کار سن کر مشکل لگا۔ کون لوگ ہیں جو حکومت وقت کو ایسے مشورے دیتے ہیں۔ ان کے پاس دو کروڑ خاندانوں کا ڈیٹا پہلے سے موجود ہے یہ ان کو ممبر شپ کارڈ جاری کرتے اور دکاندار اپنی ایپ سے شناختی کارڈ نمبر اور ممبر شپ نمبر ڈال کر تصدیق کرتا اور یہ سہولت مہیا کر دیتا۔ لیکن پھر کسی کو احساس کیسے ہوتا کہ وہ غریب ہے۔ اس پروگرام کا نام بالکل درست ہے احساس پروگرام۔ کہ ہر سفید پوش اور غریب کو احساس دلایا جائے کہ وہ غریب ہے۔

مہربانی فرما کر یہ غریبوں پر نشتر برسانے بند کیے جائیں اور نشتر کی بجائے کسی غریب پرور کو اس پروگرام کا انچارج لگایا جائے۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ فری دستر خوانوں پر کھانا کھاتے ہیں پر کسی پر بھی کسی کی پہچان نہیں پوچھی جاتی۔ آج وہ شناختی کارڈ دیکھنا شروع کر دیں سارے دستر خوان خالی ہوجائیں گے۔ ہمارے نبی کریمﷺ فرماتے ہیں۔ کہ جب کسی کی مدد کرو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ پر یہ کون سی ریاست مدینہ ہے جس میں غریب کے پاس سمارٹ فون ہو گا تو وہ غریب سمجھا جائے گا۔ پھر اس کو ویب سائٹ چلانا آتی ہو۔ اردو پڑھنا آتی ہو۔ اس کے بعد وہ ممبر بنے۔ ہر دکاندار کو بھی وہ ایپ چلانا آتی ہو۔ کیا کبھی آپ نے گاؤں کے دکاندار دیکھے ہیں۔ اس پر تین چیزیں خرید سکتے ہیں آٹا، دالیں اور کوکنگ آئل۔ اب اس حساب کتاب کی تصدیق ہوگی تو سامان ملے گا۔

ابھی گورنمنٹ نے چینی 90 روپے کی دینا شروع کی ہے۔ اس کے لئے بھی رجسٹریشن ضروری ہے۔ 88 روپے کلو چینی دکاندار کو ملے گی۔ وہ اس کو مزدور سے رکشہ یا سوزوکی پر لوڈ کرائے گا پھر اس کا کرایہ ادا کرے گا۔ شاپنگ بیگ میں ڈال کر بیچے گا۔ اس کو کیا فائدہ ہے کہ وہ اس نیٹ ورک میں آئے۔ مجھے وہ دور یاد ہے جب ڈپو سے چینی ملا کرتی تھی۔ لوگ لائنوں میں لگ کر چینی لیتے تھے۔ اب وہ سب لوگ سارا دن یوٹیلٹی سٹور پر لائن میں لگ کر یہی سہولت حاصل کرتے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم جو مغرب کو سب سے بہتر جانتے ہیں بتانا پسند کریں گے یہ طریقہ کار کس ملک میں دیکھا یا سنا ہے۔ یا ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ بتانا پسند کریں گی کیا وہ کبھی گھر کی خریداری کرنے یوٹیلٹی سٹور پر گئیں ہیں۔ سٹور کا افتتاح کرنا اور چھاپہ مارنا ایک علیحدہ فریضہ ہے اور خریداری کرنا ایک اور کام ہے۔ برائے مہربانی عوام میں آئیے ان کے مسائل دیکھئے، جانچیے اور ان کو عوامی سطح پر حل کیجئے۔ احساس کسی پروگرام کا نام نہیں ہے۔

یہ احساس کرنے کا فعل ہے۔ مہربانی فرما کر احساس کیجئے۔ پروگرام نہ بنائے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ کا یہ فیصلہ بہت شاندار ہے کہ اس ویب سائٹ اور ایپ کو چلانے کا طریقہ بھی وہ خود ہی بیان کر رہی ہیں۔ حالانکہ یہ کام کوئی بھی کر سکتا تھا حتی کہ وزیراعظم صاحب بھی۔ کیونکہ ان کے آس پاس لوگ سوشل میڈیا کے استعمال کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب اور ان کی قابل صد احترام ٹیم کو عوام کے پاس آنا چاہیئے تاکہ ان کے مسائل کا ان کو احساس ہو نہ کہ سنی سنائی باتوں پر احساس پروگرام ترتیب دیا جا سکے۔ آپ کا پروگرام بہت اچھا ہے پر طریقہ کار غلط ہے۔ احساس کیجئے۔ اللہ تعالٰی آپ کا احساس کریں گے انشاءاللہ

ایک ظالم بادشاہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو کبھی زندگی میں رحم آیا تو انھوں نے فرمایا صرف ایک دفعہ جب ایک ماں نہر کنارے کپڑے دھو رہی تھی اور اس کا بچہ نہر میں گر گیا وہ مدد کے لئے چیخ و پکار کر رہی تھی مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس کی مدد کرنی چاہیئے۔ میں نے فوراً اپنا نیزہ اس ڈوبتے بچے کی چھاتی پر مارا اور بچہ نکال کر اس کی ماں کے حوالے کر دیا۔ اس کے علاوہ کبھی یہ احساس مجھ میں نہیں جاگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments