روزینہ کے لئے یہ ماحول ناقابل برداشت تھا۔ لیکن اس حا لت مجبوری اور بے بسی میں وہ کیا کر سکتی تھی۔ یہ فلاحی سینٹر کسی قید خانہ سے کم نہیں تھا۔ لیکن ایک عورت اور وہ بھی بے گھر ہوتے ہوئے لیکن یہاں اسے کسی حد تک تحفظ تھا۔ ورنہ شہر تو تن تنہا عورت کے لئے ہوس پرست درندوں کا جنگل تھا۔

شاید اکا دکا کہیں کوئی شریف، مدد گار مل جائے لیکن اکثریت سے نیکی کی امید ندارد تھی۔ تھوڑی دیر کے لئے جب اس کے حواس معمول پہ آتے اسے اپنا بیٹا اور گھر بہت یاد آتے تھے۔ اس کے دل سے دعا نکلتی کہ رب العزت اسے اس قید سے نکال کر اس کے گھر پہنچا دے۔

روزینہ کا شوہر جمیل ایک نمازی پرہیز گار اور دعا بندگی میں مشغول رہنے والا آدمی تھا۔ اسے پوری امید تھی اور ایمان تھا کہ اس کی دعائیں رب العالمین کے حضور سنی گئی ہیں اور اس کی لاپتہ بیوی روزینہ ضرور بر ضرور بازیاب ہو جائے گی۔ شہروز، روزینہ کا بیٹا اس ساری صورت حال سے بہت مایوس اور پریشان تھا۔ وہ کالج میں فرسٹ ائر کا طالب علم تھا۔ کمسنی میں اس کی قوت برداشت کم تھی، طبیعت میں جلد بازی بلکہ اگر گوگل طبعیت کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔

جس مسئلہ کا حل ڈھونڈنا ہو گوگل پر سرچ کروا لیا اور یا پھر یو ٹیوب سے سب مسائل کا حل مل جانا اس کے نزدیک آسان تھا۔ شہروز نے ضد کر کے موٹر سائیکل لی تھی، لیکن اپنی ماں کی اس طور گمشدگی کے بعد اس کا کسی چیز کو دل نہ کرتا تھا۔ جمیل اپنے بیٹے کی اس حالت سے پریشان تھا لیکن بے بس تھا اور کوئی عملی قدم اٹھانا اس کے لئے ایسے ہی تھا جیسے کسی بے منزل سفر پر چل نکلنا۔ روزینہ کے بغیر گھر میں بے رونقی اور ماتمی ماحول تھا۔

ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ شہروز کی ماں روزینہ آیا کہ زندہ بھی ہے یہ نہیں؟ باپ اور بیٹا کے ذہن میں یقیناً کئی بھیانک اور پریشان کن خدشات اور شبہات ہجوم کیے رہتے تھے۔ دو اڑھائی کروڑ کی آبادی میں کئی لوگ حادثات کا شکار ہو جاتے تھے۔ کئی بے موت مارے جاتے۔ لیکن ایک مثبت اور پر امید سوچ کے باعث وہ ان تمام برگشتہ خیالوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیتے۔ بس ایک موہوم سی امید تھی کہ روزینہ ایک دفعہ ضرور اپنے گھر واپس آئے گی۔

جمیل نے اپنے بیٹے سے کہا، ”شہروز کچھ ہمدرد دوست اور عزیزوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آپ کی ماماں کو شہر کے مزاروں، فلاحی اداروں، قبرستانوں، ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں بھی تلاش کیا جائے۔“ شہروز نے بے دلی سے اثبات میں جواب دیا، ”جی پاپا۔“ ”لیکن اکیلے نہیں جانا اپنے تین چار دوستوں کو ساتھ لے لینا۔ اور آج کا دن اسی کام میں لگاؤ۔ شاید اللہ تعالیٰ تمہیں تیری ماماں سے ایسے ہی ملا دے۔ نہ جانے وہ کن حالات میں ہوگی،“ جمیل نے کہا۔

اس نے یہ جملے انتہائی بے دلی اور مردہ آواز میں اپنے بیٹے سے کہے، جیسے کسی طوفان میں گھری کشتی کا ناخدا اپنے بچاؤ کی تمام کوششوں کے بعد ہمت ہا ر بیٹھا ہو۔ لیکن اس تمام صورت حال میں کبھی جمیل اپنے بیٹے کو تسلی اور حوصلہ دیتا تو کبھی اس کا بیٹا شہروز اپنے باپ کو اس کٹھن وقت میں ہمت دیتا۔ شہروز نے کہا، ”پاپا! میرا دل کہتا ہے ماماں کو کچھ نہیں ہوا۔ وہ جہاں ہے خیریت سے ہے اور اس مشکل میں سے نکلنے کے لئے ہماری مدد کی منتظر ہے۔

“ ہر باشعور انسان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ غیب کا علم رب العزت ہی کو ہے اور انسان کو اس علم سے بے خبر رکھا گیا ہے ۔ جمیل اور اس کے خاندان پر یہ آزمائش کا ایک کڑا وقت تھا۔ اس بات کو سمجھتے ہوئے اور اپنے خالق پر یقین کامل ہوتے ہوئے جمیل کو پورا یقین تھا کہ روزینہ زندہ ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو اس طور تسلی دیتا تھا، ”بیٹا میرا دل نہیں مانتا، کہ تمہاری ماماں ہمیں کسی مردہ خانے یا لاوارث لاشوں میں ملے گی۔“ اس کی یہی باتیں شہروز کو پر امید بناتی تھیں اور اس کے لئے تسلی کا باعث تھیں۔

دونوں باپ بیٹے نے روزینہ کی بازیابی کے لئے اپنے اپنے سرکل میں واٹس ایپ گروپس پر روزینہ کی حالیہ تصویر بھی شیئر کر رکھی تھی تاکہ تلاش گمشدہ کی ان تمام سرگرمیوں میں مدد مل سکے۔ لیکن ابھی تک کہیں سے کوئی پر امید خبر نہیں ملی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے قدرت نے کچھ دیر کے لئے روزینہ کو اس کی فیملی کی نظروں سے روپوش کر دیا تھا۔ اور کہیں سے کوئی خیر خبر نہیں مل رہی تھی۔ تلاش کرنے والوں کی آنکھیں جیسے بند کردی گئی تھیں، اور سمجھ بوجھ جیسے جواب دے چکی تھی۔ پولیس کو بھی مطلع کیا جا چکا تھا لیکن ابھی تک ہر طرف سے کوئی خیر کی خبر نہ تھی۔

ایک دن اور خاندان پر آئی پریشانی میں ڈھل جانے کو تھا۔ کہیں سے کوئی مثبت اشاریہ نہیں تھا۔ جمیل نے اپنے بیٹے سے کہا، ”چلو یہ تو ہم نے اچھا کیا اور یہ ضروری بھی تھا کہ ہم نے روزینہ کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں کروا چکے ہیں۔“ شہروز کی آنکھوں میں اداسی اور مایوسی کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔ لیکن جہاں نوجوان طبقہ کو غیر ذمہ دار اور لا ابالی طبعیت کا مالک مانا جاتا ہے، وہیں کسی بھی معاملے میں لگن اور شوق اس جواں دل اور جواں امنگ طبقہ دن رات ایک کر سکتا ہے۔

اور اس کا بعین ثبوت تھا کہ شہروز اور اس کے دوستوں نے سارا دن شہر کے تقریباً تمام بڑے مزارات اور نادار بے آسرا لوگوں کے لئے شہر کے فلاحی دستر خوان روزینہ کی تلاش میں چھان مارے تھے۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا تھا۔ جمیل نے اس ساری تگ و دو اور کوشش کے لئے اپنے بیٹے کو دعا دی اور الہٰی مدد اور حمایت کے لئے خواہش کی۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا، ”خبر ملنے پر مقامی ہسپتال میں آج چند دوستوں کے ہمراہ میں نے پانچ بے آسرا عورتوں کو مل کر آیا ہوں۔ یہ خواتین ذہنی بیماری کے باعث ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں داخل کی گئیں تھیں۔ لیکن ان میں تمہاری ماماں نہیں تھی۔“

روزینہ کی گمشدگی کا سانحہ جیسے جیسے طول پکڑ رہا تھا، جمیل اور اس کا بیٹا تو پریشان حال تھے ہی۔ لیکن کچھ لوگ بازیابی کے لئے کی جانے والی تمام تر کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جمیل کی نیت پر شک کر رہے تھے، کہ دراصل وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی اب واپس آئے۔ ان باتوں سے جمیل اور بھی دل شکستہ تھا لیکن اسے اپنے رب کی ذات پر یقین تھا جو نیتوں اور ارادوں کو جانچتا ہے، خیالوں کو پرکھتا ہے۔ ”۔ اگر تو مصیبت کے دن بے دل ہو جائے تو تیری طاقت بہت کم ہے۔“

جمیل کے ایک قریبی عزیز نے اسے یہ آفر دی کی ہماری بیٹی ڈیڑھ سال کی ہے، اسے آپ گود لے لیں۔ اور بہن روزینہ کی پینشن اس کے نام ہو جائے گی اور اس کے اٹھارہ سال کی عمر تک آپ کو پینشن ملتی رہے گی۔ ”۔ وہ ہشیاروں کو ان ہی کی چالاکیوں میں پھنساتا ہے اور ٹیڑھے لوگوں کی مشورت جلد جاتی رہتی ہے۔“ جمیل کے رشتہ دار بھی سمجھتے تھے کہ شاید اب اس کی بیوی اس دنیا میں نہیں رہی۔ جمیل نے اس آفر کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ اسے اپنے خداوند خدا سے پوری امید ہے کہ اس کی بیوی ضرور اسے مل جائے گی۔

اسی دن شام میں جمیل کے پڑوسی اس کے پاس آئے۔ رسمی سلام و دعا کے بعد روزینہ کی گمشدگی کو لے کر انہوں نے بتایا کہ ملتان شہر میں ان کے جاننے والے ایک مرشد پیر صاحب کے بارے میں بتایا جو اپنے موکلوں سے سماجی مسائل کا حل نکالتا تھا۔ انہوں نے جمیل سے کہا کہ آپ اجازت دیں تو ہم اپنے مرشد پیر صاحب سے درخواست کریں کہ وہ بہن روزینہ کی تلاش میں اپنے مؤکلوں سے مدد لیں۔ لیکن جمیل کو ان جادوگروں اور پڑھائی کرنے والوں پر یقین نہیں تھا۔

اسے صرف ذات خداوندی سے امید تھی جو کہ سب سے اعلیٰ اور ارفع ہستی ہے۔ اس نے مرشد پیر صاحب والی آفر سے منع کر دیا۔ انسان ہوتے ہوئے اگرچہ انسانی نفسیات تو ایسی ہیں کہ ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ والی بات، لیکن جمیل اس سارے عرصہ میں خود کو ایک امتحان اور آزمائش میں تصور کرتا تھا۔ ”۔ وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کردے گا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ لہٰذا وہ اس کڑے وقت میں خود کو ثابت قدم رکھنے اور صبر و اطمینان کے لئے دعا گو رہتا۔

موبائل فون ٹیکنالوجی نے جہاں یوتھ کا ستیاناس کر دیا تھا وہیں اس کے مثبت پہلوؤں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کوئی بھی خوشی، غمی یا فوری اطلاع یا پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کم سے کم وقت میں پہنچانا اگر ممکن ہو سکا تھا تو موبائل سیل فون اور اس کی سماجی ایپس کی وجہ سے۔ شہروز کی فیملی کے لئے یہ جدید سیل فون ٹیکنالوجی ہی ایک بڑی کرامات کرنے والی تھی۔

آج صبح پھر وہی گھر کی سوگوار فضاء تھی۔ جمیل فجر میں اپنے نماز ریاضت سے فارغ ہو کر دعا میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس نے اپنی شخصی دعا میں اپنے پروردگار سے حتمی مطالبہ کیا کہ آج اسے اس کی گمشدہ بیوی کے بارے میں خیر کی خبر دے۔ کیونکہ اسے اس چیز کا خدشہ تھا کہ اس کا بیٹا ذات خداوندی سے برگشتہ ہوتا جا رہا تھا۔ ”۔ تو نہیں جانتا کہ ایک ہی دن میں کیا ہو گا۔“ کیونکہ وہ نوجوانی میں جذبات میں اس چیز کا اظہار کرتا تھا کہ خداوند کائنات تو ہماری دعا ہی نہیں سنتا۔ اس طرح کی بچگانہ سوچوں کا اندازہ جمیل کو ہو رہا تھا۔

فلیٹ کی سیڑھیوں پہ جمیل کو ایک پرانی پڑوسن مل گئی جو کہ ان کی بلڈنگ چھوڑ چکی تھی لیکن وہ کبھی کبھار اس بلڈنگ میں آتی رہتی تھی۔ اس خاتون نے جمیل سے پوچھا ”کہ کیا بہن روزینہ واپس گھر آ گئی؟“ اس نے مختصراً تمام پریشان صورت حال سے اس خاتون کو آگاہ کیا۔ پڑوسن نے حیرت سے کہا۔ ”ہم تو سمجھے تھے کہ روزینہ گھر آ چکی ہوگی۔“ جمیل کو اس خاتون کی باتیں عجیب لگ رہی تھیں، کیونکہ جس طرح وہ اس ساری صورت حال کو معمولی لے رہی تھی حقیقت اس سے یکسر مختلف تھی۔

جمیل کی پرانے پڑوسیوں کے مطابق جو ابھی اس بلڈنگ میں نہیں رہتے تھے، انہوں نے ہفتہ دس دن قبل مقامی پولیس اسٹیشن کے جاری کردہ واٹس ایپ کلپ کا ذکر کیا۔ کیونکہ روزینہ اپنی ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ کے بعد ہی ڈیمنشیا کا شکار ہو گئی تھی۔ اور یاداشت انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں اور مقامات کو پہنچانے کے قابل نہیں تھی، کبھی کبھار جب تھوڑا بہت اس کی یاداشت کام کرتی تھی۔ لہٰذا اپنی گمشدگی والے دن وہ اپنے گھر کا راستہ بھول چکی تھی۔

اور ان حالات میں مقامی پولیس اسے اپنی وین میں اپنے اسٹیشن لے گئے۔ اور اس کی واپسی کے لئے اور ورثاء کی آگاہی کے لئے اس کا واٹس کلپ بھی وائرل کیا تھا۔ جو جمیل کے پرانے پڑوسیوں تک پہنچا تھا۔ اور وہ روزینہ کو پہچان کر اسے بالکل ٹھیک خبر دے رہے تھے۔ جبکہ مقامی پولیس نے معمول کی دفتری کارروائی کے بعد روزینہ کو ایک فلاحی ادارے میں بھیج دیا تھا۔

جمیل کی خوشی کی انتہاء نہیں تھی لیکن پھر بھی چند خدشات اس کے دل میں پنپ رہے تھے۔ لیکن اس کی اپنے پرانے جاننے والوں سے اتفاقی ملاقات اور روزینہ کی گمشدگی کی گتھی کا سلجھنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ اسے اپنی فجر کے وقت کی گئی دعا کے الفاظ بالکل یاد تھے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھ کر ہاتھ باندھ کر اپنے رب کا شکر پہ شکر ادا کر رہا تھا۔ جمیل نے وہ واٹس ایپ کلپ حاصل کیا اور تسلی کی کہ وہ روزینہ ہی تھی، جو اس دن گھر سے اکیلی ہی نکلی لیکن پھر واپس نہ آئی تھی۔

جمیل اپنے دوست کے ساتھ مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف گامزن تھا۔ اور اس نے انہیں واٹس ایپ کلپ دیکھا کر اپنی بیوی کے بارے میں پوچھا اور اطلاع گمشدگی کا سرکاری ثبوت بھی دکھایا۔ روزینہ کی بازیابی کی ساری کڑیاں ملتی جا رہی تھیں اور راستے کشادہ ہوتے جا رہے تھے۔ ڈیوٹی پہ تعینات پولیس اہل کار اس بات پہ حیران تھا کہ یہ سیل فون کلپ بھی اسی نے بنایا تھا اور پھر بعد ازاں گمشدگی کی رپورٹ بھی اسی نے لکھی تھی۔ لیکن اس کی آنکھوں اور یادداشت پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہ بروقت ورثاء کو روزینہ کے بارے میں خبر نہ کر سکا۔ جمیل کو پولیس اہل کار سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا۔ اسے اپنا خاندان پھر مکمل ہونے کی خوشی تھی۔ پولیس نے روزینہ کی سپرد داری کے لئے فلاحی ادارے کو فون بھی کر دیا تھا اور خط بھی لکھ دیا تھا۔

فلاحی ادارے کی طرف گامزن جمیل، بیٹا شہروز اور اس کا دوست جلد وہاں پہنچنے کے لئے بے تاب تھے۔ جمیل کا ذہن الہٰی فہم اور حکمت کے لئے شکر گزار تھا اور ذات خداوندی کی عظمت اور بزرگی کو مبارک کہہ رہا تھا۔ جس طور ان مشکل اور اذیت ناک حالات میں وہ اور اس کا بیٹا گزرے تھے، وہ اس وقت کو یاد بھی نہ کرنا چاہتا تھا۔ جمیل زندگی کے اس تلخ باب سے ایک شاندار تجربہ ہوا تھا کہ آزمائشوں کی کھائیوں میں ڈال کو انسان کو سکھانے اور اپنے اور قریب لانے سے زیادہ اللہ و تبارک تعالیٰ کے پاس ان آزمائشوں سے نکلنے کے لئے آپ کے تصور سے زیادہ بڑھ کر وسائل ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے پروردگار کا شکر گزار تھا جس کی حمایت اور مدد کے باعث وہ ان حالات میں ثابت قدم رہا تھا۔