مصنوعی ڈیری مصنوعات کی ایجاد! زمانے کے انداز بدلے گئے


آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

اقبال نے تو نہ جانے کس دھن میں یہ شعر کہا تھا لیکن سائنس کے ذریعے بہت سی جانی پہچانی اشیا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے تبدیل ہو رہی ہیں۔ مثلاً ٹیلی ویژن، موبائل فون، شمسی پلیٹوں اور ڈی سی بجلی سے چلنے والے آلات اور اب اس فہرست میں ڈیری مصنوعات کا تازہ اضافہ شامل ہے۔

دودھ سے الرجی رکھنے والوں کے لیے سویابین سے بنا ہوا دودھ کافی عرصے سے بازار میں دستیاب ہے۔ اب ایک نیا ادارہ اس جدت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

کیلی فورنیا کا ایک ادارہ ”پرفیکٹ ڈے“ پھپھوندی کے ذریعے ایسی ڈیری پروٹین بنا رہا ہے جو گائے کے دودھ جیسی ہی ڈیری پروٹین ہوتی ہیں۔ یہ کہنا ہے اس ادارے کے شریک سربراہ ریان پانڈیا کا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈیری پروٹین دہی اور پنیر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

”ہم دراصل اس امر میں دلچسپی لے رہے تھے کہ آخر جانوروں سے حاصل کردہ دودھ میں ایسا کیا ہے جو اسے پودوں سے حاصل کردہ دودھ سے زیادہ مزیدار بناتا ہے۔“ پانڈیا نے بتایا۔ ان کے ادارے پرفیکٹ ڈے نے گائے کے دودھ کے پروٹین نکال کر انہیں ایک قسم کی پھپھوندی سے متعارف کروایا۔ جب یہ پھپھوندی خمیر کے ساتھ ٹینکوں میں اگائی جاتی ہے تو یہ وہی پروٹین پیدا کرتی ہے جو کہ اصلی گائے کے دودھ میں ہوتا ہے۔ جسے بعد میں چھان کر خشک کر کے ایک سفوف میں بدل لیا جاتا ہے ۔

جس سے پنیر اور آئس کریم بنائی جاتی ہے۔ اس طریقے سے بنایا گیا پنیر اور دیگر مصنوعات ابھی سے امریکہ اور ہانگ کانگ میں دستیاب ہیں۔ ”یہ ایسے لوگوں کے لیے ہیں جو ڈیری مصنوعات استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ جانوروں، پودوں کی فلاح اور ان اشیاء کے پیداء کرنے میں ہونے والی آلودگی سے بھی بچنا چاہتے ہیں۔“ پانڈیا نے کہا

اگرچہ اس طریقے سے حاصل کیے گئے ڈیری پروٹین میں کوئی لیکٹوز یا ہارمونز نہیں ہوتے لیکن یہ اب بھی ان افراد کے لیے ٹھیک نہیں ہے جنھیں ڈیری مصنوعات سے الرجی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ اسے حاصل کرنے میں کسی طرح سے جانور ملوث نہیں ہوتے، اس لیے پانڈیا اسے ایسے افراد کے لیے مناسب سمجھتے ہیں جو جانوروں سے حاصل کردہ کسی چیز کو کھانا پسند نہیں کرتے۔ یہ ماحولیات کے لیے بھی فائدہ مند طریقہ ہے۔ اس ڈیری پروٹین کو حاصل کرنے کے عمل میں گایوں کو نکال دینے سے ماحولیاتی آلودگی یا مضر صحت گیسوں کا اخراج روایتی ڈیری مصنوعات کے مقابلے میں ستانوے ( 97 ) فیصد تک کم ہو جاتا ہے ۔

سنہ 2020 ء میں پرفیکٹ ڈے نے ”دی ارجنٹ کمپنی“ کے ساتھ مل کر ”بریو روبوٹ آئسکریم“ بنانی شروع کی اور امریکا بھر میں کوئی پانچ ہزار دکانوں پر یہ آئس کریم عوام کے لیے پیش کی۔ جبکہ ہانگ کانگ میں ”آئس ایج آئس کریم“ نامی ادارے کے اشتراک سے اپنی ڈیری مصنوعات سے بنی ہوئی آئس کریم پیش کی جس کا ذائقہ عام دودھ سے بنی آئس کریم جیسا ہی ہو تا ہے۔ اور پودوں کے ذریعے حاصل کردہ آئس کریم کی طرح ان میں کوکونٹ، یا کیلے کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا۔

پرفیکٹ ڈے وہ واحد ادارہ نہیں جو سائنس کے ذریعے غیر روایتی طریقے سے ڈیری مصنوعات بنانے کی کوشش کر رہا ہو۔ کیلی فورنیا میں قائم ایک ادارہ ”نیو کلچر“ بھی خمیر کے ذریعے پنیر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ”ٹرٹل ٹری لیبز“ نامی ادارہ مختلف اقسام کے دودھ، خلیات کے ذریعے حاصل کرنے پر تحقیق کر رہا ہے جن میں انسانی دودھ بھی شامل ہے۔ اس طریقے سے ماں کے دودھ کی کمی سے غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کو صحیح معنوں میں اس دودھ کا صحت مند متبادل مل سکے گا۔

غیر منافع بخش ادارہ ”گڈ فوڈ انسٹیٹیوٹ“ جو کہ اس طرح کی غیر روایتی ڈیری مصنوعات کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر کام کر رہا ہے، کے اعداد و شمار کے مطابق خمیر سے بنائی گئی مصنوعات کے شعبے میں سن 2020 ء میں 590 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی جن میں سے 300 ملین ڈالرز کی پرفیکٹ ڈے میں سرمایہ کاری ہوئی۔ سنہ 2020 ء میں امریکا میں فروخت ہونے والی ڈیری مصنوعات میں سے پندرہ فیصد پودوں سے حاصل کردہ غیر روایتی دودھ کی مصنوعات پر مبنی تھیں۔

اور گڈ فوڈ انسٹیٹیوٹ کے مارٹی گوسکر کے مطابق توقع یہی ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح کی غیر روایتی اشیاء بنانے والوں کو دو اہم مسائل کا سامنا ہے۔ ایک تو اپنی مصنوعات کی متعلقہ حکومتی ادارے سے عوام کو بیچنے کی سند حاصل کرنا اور دوسرا ان کی روایتی مصنوعات کے مقابلے میں مہنگی قیمت ہونا ہے۔ پرفیکٹ ڈے کی تیار کردہ آئس کریم کی قیمت اتنی ہوتی ہے جتنی اعلٰی درجے کی روایتی آئس کریم بنانے والے اداروں جیسے کہ بین اینڈ جیریز کی آئس کریم کی قیمت ہوتی ہے۔

زمانے کے انداز بدلے گئے نیا ساز ہے راگ بدلے گئے

کے مصداق مختلف دیگر ممالک بھی اس طرح کے ”ہائی ٹیک“ کھانے بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ سنگا پور جہاں ہال ہی میں پرفیکٹ ڈے نے ایک حکومتی ادارے کے اشتراک کار سے تحقیقی تجربہ گاہ قائم کی ہے، اس حوالے سے حکومتی سطح پر بہت دلچسپی اور حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ گوسکر کے مطابق ”اس طرح کی مصنوعات عوام کو پیش کرنے کے لیے حکومتوں کی حوصلہ افزائی بہت بنیادی مدد فراہم کرتی ہے۔“ جبکہ پانڈیا کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ چین، ہندوستان اور یورپ کے مختلف علاقوں میں سرکاری رضامندی حاصل کرنے کے عمل سے گزر رہا ہے۔

اسی کے ساتھ وہ ان علاقوں کے سرمایہ کاروں کو اپنی مصنوعات میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف بھی راغب کر رہے ہیں۔ ”ہم ماحولیات کے لیے اچھے، مہربان طریقوں سے آپ کے لیے آپ کی پسندیدہ ڈیری مصنوعات حاصل کرنے سے اس کام کا آغاز کر رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ کام آپ کی مدد اور تعاون کے بغیر نہیں کر سکتے۔“ پانڈیا نے کہا۔

اسی طرح اسرائیل میں سور سے حاصل کردہ خلیات سے نباتات سے بنایا گیا ”کوشر“ گوشت پیش کر دیا گیا ہے۔

لگتا یوں ہے کہ کچھ ہی عرصے میں ہم اپنے بچوں کو یہ بتایا کریں گے کہ کسی زمانے میں جانوروں سے حاصل کردہ دودھ اور گوشت وغیرہ ملا کرتا تھا اور وہ اس پر ویسے ہی حیران ہوا کریں گے جیسے آج ہمارے بزرگ ہمیں اپنے زمانے کی اشیاء کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہم اشتیاق اور حیرت سے ان کی بات سنتے ہیں۔

اور اگر ترقی کی یہی رفتار رہی تو جیسا کہ آپ کچھ دن پہلے خبروں میں سن ہی چکے ہوں گے کہ ایک ذہنی طور پر مردہ قرار دی گئی خاتون کو سور سے حاصل کردہ گردہ کامیابی سے لگا دیا گیا ہے تو وہ وقت بھی دور نہیں کہ جب بقول چچا غالب

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں
مصنف: دانش علی انجم ماخذ: سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments