کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی کہانی



کیا ہم ایک اور سرینڈر کی دستاویز پر دستخط کرنے جا رہے ہیں ”۔ یہ الفاظ تھے۔ جسٹس قاضی محمد امین کے جنہوں نے اے پی ایس پشاور سانحے کے متاثرین کی طرف سے دائر ایک اہم نوعیت کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہے۔ ان کا مخاطب کوئی اور نہیں وزیراعظم عمران خان تھے۔ سپریم کورٹ کے ججز نے وزیراعظم کو روسٹرم پر بلا کر کہا۔ سنا ہے ریاست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر رہی ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا موقف ہے۔ وزیراعظم جو سرکاری تقریبات میں بے تکان بولنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

آج وہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں کچھ دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ ججز کے سوال کا جواب دینے کے بجائے انہوں نے دہشت گردی کے پنپنے کا پس منظر بیان کیا۔ بقول ان کے افغان جہاد اور بالخصوص نائن الیون کے بعد امریکہ کو اپنا کندھا پیش کرنا اس کی وجہ بنا۔ انہوں نے پرویز مشرف کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمے دار قرار دے دیا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ سانحہ اے پی ایس ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ اس کے علاوہ اسی ہزار لوگ بھی بربریت کا شکار ہوئے۔ جن کا معاملہ بھی توجہ کا مستحق ہے۔ عمران خان نے مزید کہا اگر عدالت اجازت دے تو تمام ذمہ داران کو حکومت سخت سزا دے گی۔ اس کے جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا۔ آپ وزیراعظم کی حیثیت سے با اختیار ہیں۔ آپ کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے ججز نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتے ہوئے ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔

عدالت نے عمران خان کو اے پی ایس کے شہید بچوں کی ماؤں کی داد رسی کی ہدایت دیتے ہوئے کہا۔ ایک ماہ کے اندر رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے۔

یاد رہے اے پی ایس پشاور میں لقمہ اجل بننے والے بچوں کی ماؤں نے بعض با اثر شخصیات کے خلاف کارروائی کی درخواست دے رکھی ہے۔ وہ چاہتی ہیں اس وقت کی فوجی اور سول صوبائی قیادت کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے باز پرس کی جائے۔ کہ اس سانحے کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔

دوسری طرف وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے۔ اگر ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگ لیں۔ تو وہ قومی دھاوے میں شامل ہوسکتے ہیں۔

حکومت کے اس عمل سے تمام پاکستانی بالخصوص جن کے پیارے دہشت گرد تنظیموں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ غم و غصے کی حالت میں ہیں۔ ماؤں کے معصوم بچے زندہ سلامت صبح سکول گئے۔ اور شام کو ان کی لاشیں گھر واپس آہیں۔ بے شمار لڑکیوں کے سہاگ اجڑ گئے۔ ہزاروں بچے کمسنی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں یتیم ہو گئے۔ کیا یہ وحشی قاتل کسی رحم یا معافی کے مستحق ہیں۔ کیا ایسے عناصر سے مستقبل میں کسی اچھائی کی امید کی جا سکتی ہے۔

یہ بات باعث حیرت بھی ہے اور باعث شرم بھی کہ ایک ایٹمی ریاست دہشت گرد تنظیم سے مفاہمت کی بات کر رہی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے۔ کہ اس حساس معاملے پر پارلیمنٹ کو کیوں بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ اس کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں۔

ہم ان لوگوں سے صلح کرنے جا رہے ہیں جو غیر ملکی عناصر کی شہ پر ملک کی سالمیت سے کھیلتے رہے۔

فوج کے ایک سابق جرنیل نے اپنے ایک آرٹیکل کے ذریعے بڑے اہم نکات اٹھائے ہیں۔ بقول ان کے مذاکرات کی پیروی کرنے کے لئے ایجنڈا کیا ہو گا؟ کیا ٹی ٹی پی غیر مسلح ہو کر معاشرے میں رضاکارانہ طور پر شامل ہو جائے گی؟ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کرے گی۔ کہ طالبان دوبارہ غیر ملکی ایجنسیوں کے جھانسے میں نہ آ سکیں؟ وہ لکھتے ہیں حکومت بڑی عجلت میں دکھائی دے رہی ہے۔ کیوں کہ وہ وقت سے پہلے ہی معاملات سدھارنا چاہتی ہے۔ دراصل افغان طالبان پاکستان کی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان سمجھوتہ کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایسی باتوں کا فیصلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ شکست خوردہ ٹی ٹی پی کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قبائل اور پاکستان کے عوام سے معافی مانگی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ حکومت ان کو معافی دے۔

جنرل صاحب نے اپنے مضمون میں آئن سٹائن کا یہ قول بھی درج کیا ہے۔
”ایک ہی چیز کو بار بار دہرانا اور کسی نتیجے کی امید رکھنا پاگل پن کی علامت ہے۔“

کالعدم تنظیموں سے ماضی میں بھی معاہدے کیے جاتے رہے۔ مگر ناکامی ہر دفعہ ان کا مقدر بنی۔ کیوں کہ ٹی ٹی پی کے علاوہ چند دیگر گروپ بھی دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ اگر کسی ایک گروپ سے معاہدہ کیا جاتا ہے۔ تو کوئی دوسرا گروپ سامنے آ کر امن کو تباہ کر دیتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی صوفی محمد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔ جو صرف کچھ ہی عرصہ تک چل سکا۔ بعد میں نواز شریف کی 2013 میں قائم ہونے والی حکومت کے ابتدائی دور میں ٹی ٹی پی اور دوسری عسکری تنظیموں کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کرنے کی کوشش کی گئی۔

مگر بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ بقول عرفان صدیقی بعض گروہ مفاہمت کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک آدھ کارروائی کر دیتے تھے۔ نواز دور میں ہونے والے مذاکرات کے دوران کسی تنظیم نے ایف سی کے گرفتار کئی اہلکار قتل کر دیے تھے۔ جس کی وجہ سے فوجی قیادت نے حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا تھا۔ مجبوراً ́ میاں صاحب کو فوجی آپریشن کی حمایت کرنی پڑ گئی۔ حالانکہ وہ ٹی ٹی پی سے مفاہمت کے زبردست حامی تھے۔

اب موجودہ حکومت دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈال رہی ہے۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے۔ کہ یہ عمل صرف وقت کا ضیاع ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی سالمیت کے بیرونی دشمن کبھی نہیں چاہیں گے۔ کہ یہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔

اگر حکومت اپنی بری گورنس اور دیگر پالیسی معاملات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے مذاکرات کا شوشہ چھوڑ رہی ہے۔ تو اب یہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نہیں چلے گی۔

سب سے اہم بات مگر یہ ہے کہ اتنے حساس معاملے پر اگر پوری سیاسی قیادت بشمول پارلیمان کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جاتا۔ تو اس چیز کے مثبت اثرات پیدا ہوسکتے تھے۔ مگر عمران خان پتہ نہیں کیوں اپوزیشن سے کنی کترانے کی روش پر چل رہے ہیں۔ بطور وزیراعظم ان کا اس طرح کا رویہ جمہوری، اخلاقی اور پارلیمانی روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ خان صاحب 70 سال کے عمررسیدہ شخص ہیں۔ مگر سیاست میں ان کا رویہ ایک کمسن ضدی بچے کی طرح ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments