بارش بھرا تھیلا (نظمیں)۔


شاعر مسعود قمر
مقالہ نگار۔ راشد جاوید احمد

آج سے ساتھ ستر برس پہلے اردو نظم کی جو روایت ظاہر ہوئی اس میں نمایاں نام ن۔ م۔ راشد، میرا جی اور مجید امجد کے تھے۔ ان کی نظموں کا موضوع انسان تھا جس کی پہچان اس کے خارجی حوالوں میں موجود تھی۔ اس دور کی نظم میں انسان کی شناخت کا گہرا احساس موجود ہے۔ گزشتہ چالیس پچاس برسوں کی نظم فکری اعتبار سے وجودی فلسفے سے متاثر رہی ہے۔ اس کے زیر اثر نظم نگاروں نے تنہائی کے آشوب سے نجات کے لیے داخل اور خارج میں ہم کلامی کی صورت نکالی۔ بعض شعرا نے تہذیبی تناظر اور شہری زندگی کے مسائل کے حوالے سے نظمیں لکھیں۔ مبارک احمد، زاہد ڈار، عباس اطہر، عذرا عباس کے ساتھ ساتھ مسعود قمر بھی مجھے ایسے ہی شاعروں کی لڑی میں نظر آئے۔

” بارش بھرا تھیلا“ مسعود قمر کی نظموں کا مجموعہ میرے سامنے ہے اور مجھے ان نظموں میں زمین اور فطرت سے گہرے ربط کے تحت تخلیق کار کی تنہائی اور بیگانگی کے سوالات نظر آئے ہیں۔ ہر دور کا نظم نگار اپنے ذہن کی تنہائی میں زندہ رہتا ہے اور اپنے تخلیقی اظہار کے مختلف راستے اپناتا ہے لیکن ان میں سے کوئی اک مسعود قمر ہوتا ہے جس کی نظم نگاری کی طرف قاری پلٹ پلٹ کر دیکھتا ہے۔ نظموں کے اس مجموعے کی نظموں میں لفظیات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

خیال اور موضوع کی ندرت تو ہے ہی احساس کی رنگا رنگی بھی وافر ہے۔ مسعود قمر نے اپنی اس خیال آفرینی کی بنا پر زبان کے موجود و میسر پر اکتفا نہیں کیا۔ ان نظموں کے ترکیبی نظام کو سمجھیں تو پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے کس قدر فن کاری سے اپنی فکری پیچیدگی کو سادگی سے بیان کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی صلاحیت ہے۔ یہ نظمیں تخلیقی تجربہ ہیں۔ ان کے موضوعات دیکھئے، لسانی تشکیلات کا جائزہ لیجیے، باطن میں پوشیدہ حقیقتیں ہوں یا امیج، تلازمہ خیال، علامت، سب اس بات کی سند ہیں کہ مسعود قمر نے شعوری رو کے تحت زندگی کے کئی زاویوں کو ہمارے سامنے لا رکھا ہے۔ آزاد معاشرہ، فرد کی انفرادی آزادی سے مشروط ہے لہذا ان نظموں میں فرد کی آزادی کا نوحہ بھی ملتا ہے، احتجاج اور اضطراب کہیں براہ راست تجربے کی بنا پر اور کہیں زمانے کی سوچ سے جڑے ہوئے ہیں۔

بہت مدہم سروں میں شاعری کرنے والے مسعود قمر کے ہاں کہیں کہیں لہجے کی بڑی کاٹ بھی ملتی ہے۔ یہ کاٹ اسلوب کی نسبت زیر لب زیادہ ہے۔ شعور اور حقیقت کی ٹھوکریں، غم و غصہ، احساس اور سماجی تفاعل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا رد عمل، بلند آہنگ کے ساتھ ان نظموں میں موجود ہے۔ مسعود قمر کی ان نظموں میں ذات کی دریافت دراصل انسان کی دریافت بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ ساری نظمیں شاعری کا ایک ایک اہم تجربہ ہیں

مسعود قمر کی نظمیں، ”برفیلی سرنگ کی قیدی“ ، ”ماں جیسی ریاست“ ۔ ”بادشاہ کے شہر میں خریداری“ ۔ ”اچھی کوالٹی کے کوئلے“ اپنے موضوعات کے اعتبار سے ایک شدید کشش رکھتی ہیں اور قاری ان کے مطالعے کے بعد حیرت میں گم ان کی علامتوں کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ ان نظموں کی ڈکشن انسانی زندگی میں ربط و ترسیل اور افہام کا سلسلہ قائم رکھتی ہے۔ الفاظ انتہائی قرینے سے برتے گئے ہیں خاص طور پر جہاں انہیں ادبی تخلیق کے لیے استعمال کیا گیا ہے وہاں یہ مسعود قمر کے مزاج اور طرز احساس کے مطابق نیا رنگ اختیار کرتے ہیں۔

جیسے سائنس کے تجربات کی صداقت اس کے اشاروں اور علامتوں میں پوشیدہ ہوتی ہے ایسے ہی ان نظموں میں شاعر کے تجربات کی صداقت کے رموز پنہاں ہیں۔ ان نظموں میں کچھ روایتی علامتیں ہیں جو نسل در نسل انسانی معاشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ ذہنی اور فکری علامتیں ہیں اور کچھ آفاقی علامتیں ہیں۔ ایک اور پہلو جو ان نظموں کے مطالعے سے سامنے آتا ہے وہ شاعر کا شعوری اور لا شعوری تجربے سے گزرنے کا عمل ہے جس کی بنا پر لفظوں کی تلازماتی اور انفرادی معنویت نظموں میں منتقل ہوئی ہے۔

فکری ارتقا سے بھرپور نظمیں وجودیت اور ترقی پسندی کا آمیزہ ہیں۔ ”ساحل پہ پڑا گیلا لباس“ ۔ چٹخورے باز ”۔“ پیدائش سے پہلے لکھا گیا گیت ”اور“ قبر کی موت ”اس ضمن میں بہترین مثالیں ہیں۔ جدید شاعری میں ہمارے دور کے احساس جرم، خوف، تنہائی، انتشار اور ذہنی بے چینی جیسے موضوعات شامل ہیں اور مسعود قمر کی نظموں میں بھی ایسے ہی جدید موضوعات موجود ہیں۔

کتاب کے خوبصورت سرورق کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی لیکن اس سے بھی زیادہ خوبصورت انتساب ہے جو بذات خود ایک مختصر کہانی ہے۔

”اس چہرے کے نام
جس نے کہا
کتاب میں میرا چہرہ نہ دکھانا ”
تہذیب، ادب اور اخلاق کی حدود میں رہتے ہوئے ان بے باک نظموں پر مسعود قمر کے لیے ڈھیروں داد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments