سرکاری ملازمین کا شودر طبقہ


مجھ سمیت پاکستان کے ہر پڑھے لکھے نوجوان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہتی آ رہی ہے کہ تعلیم کے مکمل ہونے کے بعد نوکری ملے تو سرکاری ملے۔ میں نے جو آج تک ٹھاٹھ باٹ سرکاری ملازمین کے دیکھے ہیں، وہ شاید ہی کسی نجی ملازمت والے کے نصیب میں آتے ہوں گے۔ اب اس خواہش نما خواب کے پیچھے وجوہات تو بہت ہیں۔ جن کی تفصیل لکھنے بیٹھا تو بات کہاں سے کہاں چلی جائے گی۔

لیکن سرکاری نوکری میں بھی سب اچھا نہیں ہوتا ہے، بلکہ وہاں بھی طبقاتی نظام ہوتا ہے۔ اس کا عقدہ حال ہی کھلا مجھ پر، ہوا یوں کہ عزیز دوست شفیق خان لغاری سے فون پر بات ہوئی۔ دوران گفتگو انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ محکمہ صحت کے بنیادی مراکز صحت کے ملازمین کو گزشتہ 5 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ میں نے حیرت سے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تو جواب ملا کہ ایسے ہی ہوتا آ رہا ہے۔ اب بنیادی مراکز صحت پر کام کرنے والے ان افراد میں لیڈی ہیلتھ وزیٹر، سکیورٹی گارڈز، آیا اور ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ مانیٹرنگ آفیسرز شامل ہوتے ہیں۔

یہاں قارئین کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ یہ افراد دراصل وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو آپ کے میرے گھر گھر آ کر نہ صرف پولیو کے قطرے پلا رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو کورونا کی ویکسی نیشن بھی ان کے ذمہ ہے۔ ساتھ ہی خسرہ اور روبیلا مہم بھی یہی ہی لوگ چلا رہے ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک اگر سرکاری محکموں میں کوئی ایمانداری، محنت، لگن سے کام کرتا ہے تو یہی وہ افراد ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ ایک ایک گھر تک نہ صرف جاتے ہیں بلکہ اس کا واضح ریکارڈ اس گھر کی دیوار پر لکھی گئی تفصیلات کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جس کے باہر سفید چاک سے لکھی گئی تواریخ اور دیگر تفصیلات نہ موجود ہوتی ہوں۔

ان کے ساتھ ماں بچے کی صحت پروگرام کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ کل ملا کر ان ملازمین کی تعداد 6 ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ یہ وہ ملازمین ہیں کہ جنہوں نے گرمی، سردی، طوفان غرض ہر قسم کے موسم میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ملازمین بنیادی مراکز صحت پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور پنجاب بھر میں بنیادی مراکز صحت ہوتے ہی دیہاتوں یا قصبوں میں ہیں۔ تو ایسے افراد کو ملنے والی ورکنگ کنڈیشنز کے بارے میں بھی آپ لوگ خود انداز لگا سکتے ہیں۔ کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے یہ افراد تو میرے نزدیک سرکاری ملازمین کا شودر طبقہ ہیں۔ جنہیں نہ ہی مستقل کیا گیا ہے، نہ ہی پانچ ماہ سے تنخواہ دی گئی ہے۔

وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب سے میرا سوال ہے کہ آپ تو صبح شام میرٹ کے راگ الاپتے ہیں اور محنت کرنے والے افراد کی تحسین کے دعوے کرتے ہیں۔ تو وزیراعلی صاحب آپ کی ناک کے نیچے یہ لوگ گزشتہ پانچ ماہ سے تنخواہ کے لئے ترس رہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کی تنخواہیں کوئی لاکھوں روپے میں ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ بھی 30 ہزار ہے باقی آیا، ایل ایچ وی، گارڈز کی تنخواہیں بیس سے 25 ہزار کے بیچ ہیں۔ اس بیس ہزار میں ان لوگوں نے 8 گھنٹے کی مشقت طلب اور سخت ڈیوٹی کرنی ہوتی ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ایک بھی چھٹی کرنے پر فوری طور پر معطلی یا شوکاز نوٹس تھما دیا جاتا ہے۔ شوکاز نوٹس جاری کرنے والے البتہ اے سی یا ہیٹر والے کمروں میں بیٹھ کر گلچھرے اڑا رہے ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت کی وزیر صحت یاسمین راشد صاحبہ اور مشیر صحت حنیف پتافی صاحب کی وزارت میں یہ چھ ہزار ملازمین ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ اب پی سی ون کی تبدیلی کے ساتھ ہی یہ ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند تو ہیں ہی، تنخواہوں کی عدم ادائیگی دوہری اذیت ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو نہ صرف فوری طور پر ریگولر کیا جاتا بلکہ تنخواہوں میں بھی اضافے کے ساتھ ساتھ بونس کی بھی یقین دہانی کرائی جاتی۔

کیونکہ یہ لوگ تو اصل ہیرو ہیں جو نہ صرف قوم کے مستقبل یعنی بچوں کو معذور ہونے سے بچانے کے لئے پولیو مہم بلکہ کورونا سے بھی بچاؤ کی ویکسی نیشن میں پیش پیش ہیں۔ جبکہ دیہی مراکز صحت پر وہاں کی عوام کی خدمت الگ کر رہے ہیں۔ میری حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لیں اور مہنگائی کے اس تپتے تندور میں جلتے ان افراد کے لئے سایہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments