زرد چہرے چیختے ہیں شدت آلام سے


بعض تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جوں جوں حکومت کے جانے کا وقت قریب آئے گا وہ عوام کو سہولتیں دینے کی طرف بڑھے گی ان کی قوت خرید میں اضافہ کرے گی لہٰذا وہ مہنگائیوں کی ابھرتی ہوئی لہروں کو بھول جائیں گے اور ان کی سوچ میں تبدیلی آ جائے گی کہ وہ پی ٹی آئی کو دوبارہ اقتدار میں دیکھنا چاہیں گے مگر ایسا دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ موجودہ صورت حال کے برقرار رہنے کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں خود حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ جلد معاشی حالات بدلنے کا کوئی امکان نہیں لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا منظر ابھرنے جا رہا ہے جن میں لوگوں کی دہائی اور چیخیں بلند سے بلند تر ہوتی سنی جا سکیں گی اور پھر حکومت سے نفرت بھی عروج پر پہنچ جائے گی مگر اسے اس کا کوئی غم نہیں ہو گا کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ عوام کو نہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو جواب دہ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتخابات کس لیے ان کے بغیر بھی حکومت بن سکتی ہے جو موجودہ اور پچھلی حکومتوں کی طرح مذکورہ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پر عمل درآمد کرتی چلے جائے عوام لاکھ چلائیں روئیں اور پیٹیں ان کی اسے کوئی پروا نہ ہو۔

بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہ سلسلہ اب تک کیسے جاری ہے کہ جب عام آدمی بھی اس پہلو سے آگاہ ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے ہماری معیشت کو توانا نہیں ہونے دے رہے اور قرضے پے قرضہ چڑھائے جا رہے ہیں تو اہل فکر و دانش اس کا کوئی متبادل تلاش کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔ انہیں تو اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے منصوبوں کو سامنے لانا چاہیے تھا چوہتر برس کا عرصہ معمولی نہیں۔ ان میں ترقی کا گراف اوپر جانا چاہیے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا کوئی بھی حکمران دیر پا منصوبہ بندی نہیں کر سکا، شاید وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا، اس کی ایک وجہ تو قرضہ دینے والے ادارے تھے تو دوسرے وہ ممالک جو حکومتوں کو آشیر باد دیتے لہٰذا انہوں نے یہاں ڈنگ ٹپاؤ منصوبوں کے سوا عام صنعتوں اور بنیادی صنعتوں کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی تاکہ یہ معاشی طور سے خود کفیل نہ ہو سکیں اور ان کے قرضوں کے چنگل میں پھنسے رہیں اگرچہ عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے کئی بار اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں واضح الفاظ میں کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اپنی معیشت کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا کریں گے مگر جب اقتدار میں آ گئے تو اپنا کہا ہوا بھول گئے۔

اب اس سے ہی دھڑا دھڑ قرضہ لیا جا رہا ہے مگر معیشت تب بھی نہیں سنبھل رہی اور لوگوں کو رلا کر رکھ دیا ہے ان کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ ان کی جمع پونجی گویا لوٹی جا رہی ہے مہنگائی کے طوفانوں نے ہر غریب کے ہوش اڑا دیے ہیں اور یہ طوفان آئندہ بھی آئیں گے اور بڑے ہولناک ہوں گے۔ اس متوقع صورت حال کے پیش نظر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ عوام از خود کوئی تدبیر سوچیں کہ وہ اپنے غیر ضروری اخراجات کم کر دیں مگر انہیں دوا اور غذا تو لازمی چاہیے جو اس قدر مہنگی ہو چکی ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔

پیداواری ذرائع کے مالکان اندھا دھند اپنی مصنوعات و اشیاء کی قیمتیں بڑھاتے چلے جا رہے ہیں انہیں اپنے منافعے سے غرض ہے لوگوں سے نہیں اگر حکومت انہیں ہتھ ہولا رکھنے کا کہتی بھی ہے تو وہ اس کی نہیں مان رہے۔ اس طرح دکاندار ہیں جو کبھی اپنے منافع کو کم نہیں ہونے دے رہے پس رہے ہیں تو ملازمین اور مزدور جن کی تنخواہیں اور اجرتیں بہت کم ہیں۔

حزب اختلاف موجودہ صورت حال پر بغلیں بجا رہی ہے کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ کرکٹر ہے اسے کیا معلوم کہ حکومت کیسے چلائی جاتی ہے مگر عوام اور بادشاہ گروں نے ان کی نہیں مانی لہٰذا آج ہر کوئی رو رہا ہے۔ معذرت کے ساتھ پچھلے ادوار میں بھی لوگ روتے تھے انہیں انصاف ملتا تھا نہ آسانی سے دو وقت کی روٹی مسائل بھی اسی طرح تھے۔ رشوت، سفارش، سینہ زوری، قبضہ گیری اور کمیشن خوری یہ سب تھے مگر یہ بات ماننے والی ہے کہ لوگ زیادہ شور نہیں مچا رہے تھے انہیں کسی نہ کسی طرح مطمئن کیا جاتا اب تو کوئی آنسو پونچھنے والا ہی نہیں بس عالمی مالیاتی اداروں کو خوش کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور سے مفلوج کرنے والی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ردعمل کے طور سے ہر گھر میں احتجاج ہو رہا ہے سڑکوں پر اساتذہ، ملازمین اور مزدور سبھی آرہے ہیں اور واویلا کر رہے ہیں اور اپنے مطالبات پیش کر رہے ہیں مگر حکومت کہتی ہے خزانہ خالی ہے وہ کہاں سے لائے بھاری رقوم جو انہیں دے سکے۔

حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ چوروں ڈاکوؤں سے کیوں عوامی دولت نہیں برآمد کروا رہی، وہ آٹا چینی چوروں کا احتساب کیوں نہیں کر رہی، بڑے بڑے پراجیکٹس میں گھپلے کرنے والوں کو بیچ چوراہے میں لا کر کیوں نہیں کھڑا کر رہی، رشوت خوروں اور ان کے سہولت کاروں کا محاسبہ کیوں نہیں کر رہی۔ اگر وہ یہ نہیں کر سکتی تھی تو کیوں اقتدار میں آئی۔ اس کو اگر بیورو کریسی اور فصلی بٹیروں نے ناکام بنایا ہے تو ان کو راہ راست پر لانے کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔

ہم اپنے ان ہی کالموں میں چیختے رہے کہ یہ اشرافیہ کے نمائندے عوامی سوچ نہیں رکھتے لہٰذا انہیں اپنے گرد جمع نہیں کیا جائے کل یہ انہیں (عمران خان) پریشان کریں گے مگر وہ کب کسی کی سنتے تھے اب بھی نہیں سن رہے۔ شاید ان کے نزدیک بدحالی خوشحالی ہے۔ خیر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ نواز شریف کا دور ٹھیک تھا کم از کم روزگار بھی مل جاتا اور مہنگائی کا مقابلہ بھی کر لیا جاتا۔ کچھ لوگ ان تینوں سیاسی جماعتوں سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اب ایک ایسی سیاسی جماعت سامنے آئے جو اشرافیہ سے ان کی جان چھڑوائے اور ہر نوع کے مافیاز کے آگے سینہ تان کر کھڑی ہو سکے پھر ایوانوں میں بھی کسی غریب کو پہنچا سکے۔

ہمیں کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ ایسی سیاسی جماعت ضرور نمودار ہو گی جو عوامی مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو گی اور ظالموں، جابروں کو بھی نکیل ڈال سکے گی کیونکہ اب روایتی طرز حکمرانی اور طرز عمل عوام کی مشکلات ختم نہیں کر سکتا چوہتر برسوں میں سب کو آزما لیا اب غیر روایتی سیاسی جماعت کو آزمانے کا وقت ہے مگر وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جان چھڑوانے کا کوئی منصوبہ رکھتی ہو کہ ان کی قرضوں کی قسطوں نے جینا مشکل کر دیا ہے۔

بہرکیف عمران خان اگر چاہتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے نمایاں نظر آئیں تو انہیں عوام کے حق میں کوئی بڑا قدم اٹھانا ہو گا۔ انہیں اپنے گرد اکٹھے اشرافیہ کے ٹولے کی قطعی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ہاں اگر انہوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ بس اب بہت کر لی سیاست اور لوٹ لیے وزارت عظمیٰ کے مزے تو پھر بات الگ ہے وہ مانتے رہیں قرضہ دینے والوں کی شرائط اور نکالتے رہیں غریبوں کی سسکیاں اور آہیں۔ آخر میں عرض ہے کہ وہ اگر سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر اور ای وی ایم کو اپنی کامیابی کی ضمانت تصور کر رہے ہیں تو یہ ان کی سادگی ہے کیونکہ اندرون اور بیرون ملک میں بیٹھے لوگ ان کی سیاست کو خوب سمجھ رہے ہیں کہ انہیں جو کرنا تھا وہ نہیں کر سکے اور مٹھی بھر اشرافیہ کی خوشنودی کے لیے رواں رہے جنہوں نے ان کو عوام میں غیر مقبول بنا دیا یوں وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے اور وہ دیکھتے ہی رہ گئے سوچتے ہی رہ گئے وقت اپنی چال چل گیا۔

نواب ناظم کا شعر کہ
درد کا میلہ لگا ہے کرب کا ہنگام ہے
زرد چہرے چیختے ہیں شدت آلام سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments