وینس۔ نہروں اور پلوں کا شہر


لوزینجو نے عجلت میں کشتی کنڈے سے باندھی تمام اشیاء ماں کو دے کر دوبارہ کشتی کی طرف گیا۔ وہ جلدی میں تھا کیونکہ واپس آ کر اپنی بہن ازابیل کو اس کی دوست صوفیہ کے گھر سالگرہ کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے لے جانا تھا۔ اور آج تو گرجے میں شام کی دعائیہ تقریب میں شامل ہونے کے لیے اس نے اپنی ماں کو بھی لے کر جانا تھا کیونکہ ماں کی سہیلی جو اسے ہمیشہ چرچ لے جاتی تھی، کشتی میں خرابی کے سبب آج اس نے نہیں آنا تھا۔ اسی طرح ہر روز کسی نہ کسی وجہ سے لوزینجو کو دن میں متعدد بار کشتی نکالنی پڑتی۔ صرف لوزینجو ہی نہیں وہاں کے مکینوں کو اپنی ہر ضرورت اور ہر کام کے لئے کشتی پر سوار ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانا ہوتا ہے۔

یہ نہ تو افسانوی باتیں ہیں اور نہ ہی خوابوں کی دنیا بلکہ جیتی جاگتی حقیقت ہے کہ وینس میں سڑکوں کی بجائے نہریں ہیں اور نقل و حرکت کے لئے پہیوں کی بجائے کشتی کے چپو چلتے ہیں۔ نہروں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ جیسے گلیاں ہوتی ہیں ایسے ہی گھروں کے درمیان چھوٹی چھوٹی نہریں بہتی ہیں۔ جہاں کشادہ سڑکیں ہونی چاہئیں وہاں بڑی نہریں اور پھر اس سے بڑی اور آگے جا کر لیگون سے جا ملتی ہیں جو کہ بحیرہ ایڈریاٹک کا حصہ ہے۔

اس طرح نہروں کا یہ سلسلہ سیدھا سمندر سے ملا ہوا ہے اور سمندر کا اتار چڑھاؤ اس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نہروں کا یہ خوبصورت سلسلہ پورے شہر میں پھیلا ہوا ہے جس نے نہ صرف شہر کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں بلکہ اسے ایک عجوبہ روزگار بنا دیا ہے جسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ سیاحوں سے اس شہر کی رونق قائم ہے اور ساتھ ہی حکومت کو کثیر زر مبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔

میری وینس جانے کی خواہش اس وقت سے ہے جب میں وینس کے بارہ میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ بچپن میں مرحوم والد محترم ( اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ) کی کتابوں میں ایک کتاب مرچنٹ آف وینس نظر آئی۔ کتاب کا نام اور سر ورق بہت اچھا لگا۔ ظاہر ہے کہ ولیم شیکسپیئر کا ڈرامہ انگریزی زبان میں تھا جس سے اس وقت میں نابلد تھا مگر وینس میرے دل میں گھر کر گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ وینس کے بارہ میں مزید جانکاری ہوئی تو وہاں جانے کی خواہش تقویت پکڑتی گئی۔

ہمارا زیادہ سفر رات کے پچھلے پہر میں طے ہوا۔ سورج نے کرہ ارض کو منور کیا تو ہم وینس سے گھنٹہ بھر کی مسافت پر تھے۔ کچھ دیر باہر کا نظارہ کرنے میں گزری کہ اچانک خشکی ختم ہوئی اور دور تک پانی نظر آنے لگا۔ ہم نے دوسری جانب دیکھا تو ادھر بھی پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ٹرین چلتی جا رہی تھی، یوں لگتا تھا کہ ابھی سمندر کے اندر اتر جائے گی۔ ہم سمجھے کہ پانچ منٹ کے لگ بھگ گاڑی وینس پہنچ جائے گی مگر گاڑی کے فراٹے منزل کا کوسوں دور ہونا ظاہر کرتے تھے۔

ہمیں منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی ایک تجسس تھا کہ سمندر میں چلتے ہوئے ہم کیسے خشکی پر پہنچیں گے جہاں ریلوے سٹیشن ہو گا اور تمام تر لوازمات کے ساتھ بہت سے پلیٹ فارم ہوں گے۔ سمندر کا سیر حاصل نظارہ کروانے کے بعد ٹرین کے پہیوں کی گردش میں کمی آنے لگی۔ کچھ دیر بعد ہم وینس ریلوے سٹیشن پر تھے اور کسی بھی جگہ کی سیاحت میں میرے لئے یہ سب سے زیادہ پر جوش لمحات تھے۔

وینس تقریباً ایک ہزار سال پرانا شہر ہے جو کہ ایک سو سے زائد جزائر پر مشتمل ہے۔ اسے کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلاً پانی کا شہر، پلوں کا شہر، تیرتا ہوا شہر بحیرہ ایڈریاٹک کی شہزادی وغیرہ۔ وینس آرٹ اور کلچر کے لئے بھی مشہور ہے اور یہاں کا فن تعمیر بھی مخصوص اور نہایت دلکش ہے۔ شہر کی ہر سمت خوبصورت نہریں سڑکوں کا متبادل ہیں اور زیادہ تر ذرائع نقل و حرکت انہی آبی گزر گاہوں کے مرہون منت ہیں۔ اس مقصد کے لئے چھوٹی کشتیاں جنہیں گنڈولہ کہا جاتا ہے، موٹر بوٹس اور سٹیمر میسر ہیں۔

ایک مقام سے مختلف سمتوں میں سفر کرنے کے لئے مختلف روٹس بنے ہوئے ہیں۔ سفری خدمات کے لئے مختلف سائز کی کل دس ہزار کشتیاں موجود ہیں جو شہر کی 177 نہروں میں رواں دواں ہیں۔ کافی زیادہ مقامات پر پل بنے ہوئے ہیں جو پیدل چلنے والوں کی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ شہر کے منظر نامے میں ایک حسین اضافہ ہیں۔ وینس کی آبی گزر گاہوں پر ان دلآویز پلوں کی تعداد چار سو کے قریب ہے۔

وینس شروع سے ہی مشہور تجارتی مرکز رہا۔ دیگر اشیاء کے علاوہ زیادہ تر تجارت غذائی اجناس، ریشم اور مصالحہ جات پر مشتمل تھی۔ تجارتی سرگرمیوں کی کثرت کی وجہ سے وینس بین الاقوامی معاشی مرکز بن گیا۔ پندرہویں صدی میں یہاں کی تجارتی سرگرمیاں کم ہونے لگیں اور اس کے مقابلے میں پرتگال کی بندرگاہ پر تجارت بڑھنے لگی۔ موجودہ دور میں سیاحت یہاں کی بڑی انڈسٹری بن گئی ہے۔ ہر روز ساٹھ ہزار سیاح اس شہر کو دیکھنے آتے ہیں جو صرف کشتیوں کے کرایہ کی مد میں پانچ لاکھ ڈالر روزانہ خرچ کرتے ہیں۔

ہم ریلوے اسٹیشن سے پیدل چلتے ایک با رونق بازار تک آ پہنچے۔ چلتے چلتے ایک ہوٹل نظر آیا۔ پر کشش جگہ پر واقع تھا اور قریب ہی آبی نظارہ بھی تھا۔ ہم نے اسی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ رات کے سفر کی تکان تھی اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ دیر کے لئے نیند لے لیں اور پھر باہر نکلیں۔

ہم فریش ہو کر گھومنے کے لئے نکلے۔ بازار بہت با رونق تھا جہاں زیادہ تر دکانوں پر سووینئرز سجا کر رکھے گئے تھے۔ سیاحوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ کھوے سے کھوا چھلنے کا مفہوم صحیح طرح سمجھ میں آیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ایک کشادہ جگہ پر آ کر ہم رک گئے۔ سمندر کے کنارے واقع یہ جگہ سان مارکو کہلاتی ہے جو کہ وینس کا بڑا لینڈ مارک ہے۔ سامنے سینٹ مارک چرچ کی خوبصورت عمارت یہاں کے منفرد فن تعمیر کی عکاسی کر رہی تھی جس کے قریب بہت سے کبوتر لوگوں کی بھیڑ سے بے خبر دانہ چگنے اور چھوٹی چھوٹی اڈاریوں میں مگن تھے۔ سان مارکو وینس میں آنے والا ہر سیاح ضرور پہنچتا ہے۔ یہاں پر سماجی مذہبی اور سیاسی اجتماعات بھی ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی گرینڈ کینال ہے جس کی وجہ سے یہ جگہ زیادہ دلکش لگتی ہے۔

ہم سینٹ مارک چرچ دیکھنے کے لئے اندر گئے جہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں زیادہ تر مذہبی نوعیت کی اشیاء تھیں۔ چرچ کی عمارت بجائے خود آرٹ کا خوبصورت نمونہ تھی۔ اس کے بعد کچھ دیر گرینڈ کینال کا نظارہ کیا اور اس کے بعد ہم ایک فیری میں سوار ہو کر لیڈو آئی لینڈ کے لئے روانہ ہو گئے۔

فیری جلد ہی گرینڈ کینال سے نکل کر لیگون میں پہنچی اور تیزی سے لیڈو کی طرف بڑھنے لگی۔ ہمارا چھوٹا سا سمندری سفر دلچسپ اور پر لطف رہا۔ پندرہ منٹ میں ہم لیڈو پہنچ چکے تھے۔ لیڈو ایک خوبصورت جزیرہ ہے جو بین الاقوامی فلم فیسٹول کے انعقاد کے لئے مشہور ہے۔ لیڈو کی لمبائی تقریباً دس کلو میٹر ہے مگر چوڑائی مشکل سے نصف کلو میٹر ہو گی۔ انتہائی صاف ستھری سڑکیں جا بجا درخت اور سبزہ، پھولوں کی بہار اور شفاف فضا۔ صرف یہی نہیں ایک طرف وینیشین لیگون اور دوسری طرف کھلا سمندر ( ایڈریاٹک سی) ۔

سب سے بڑھ کر یہاں کی خاموشی۔ وینس کے بر عکس یہاں اکا دکا لوگ ہی دیکھنے کو ملے۔ اتنی پر فضا جگہ اور ایسا سکوت بہت کم میسر ہوتا ہے۔ بازار میں زیادہ تر ہوٹل اور ریستوران تھے۔ ہم چلتے رہے اور کچھ دیر کے بعد دوسری طرف یعنی کھلے سمندر والی سائڈ پر ہو لئے۔ چھوٹے سے پارک میں ایک بنچ پر بیٹھ کر بے خود کر دینے والے ماحول میں سمندر کا نظارہ کرتے رہے۔ اعصاب کی تراوت اور روح کو تسکین پہنچانے والی ایسی ساز گار فضا آلودگی کے اس دور میں اب چھوٹے جزائر پر ہی رہ گئی ہے شہر تو اس نعمت سے محروم ہو چکے۔ ہوا چلتی تو درختوں کے پتوں کی مترنم آواز ماحول کو مزید دلکش بنا دیتی۔ ہم بیٹھے رہے دن سمٹتا رہا اور دیکھتے دیکھتے اجالا روپوش ہو گیا۔ ہم نے حسین منظرنامے پر الوداعی نظریں ڈالیں اور لیڈو سے واپسی کی راہ لی۔

واپسی کے لئے ہم فیری سٹیشن پہنچے جہاں بہت کم لوگ موجود تھے۔ در اصل زیادہ تر لوگ لیڈو کے ساحل پر لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں جو دن ڈھلنے کے بعد واپسی اختیار کرتے ہیں اور جزیرے پر خاموشی کا سبب بھی یہی تھا۔ وینس پہنچ کر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم دوبارہ گھومنے نکل پڑے۔

چلتے چلتے ہم ایک پل تک آ پہنچے۔ پل کے ذریعے ہم نہر کی دوسری طرف پہنچے تو کچھ بل کھاتی ہوئی گلیاں نظر آئیں۔ اتفاق سے پورے چاند کی رات تھی اور ہم اس خیال سے آگے بڑھے کہ کچھ دور جا کر واپس آ جائیں گے۔ کچھ اور آگے گئے تو ایک اور پل نظر آیا اسی طرح ہم دو تین پلوں کے اوپر سے گزرے اور پھر واپسی کا ارادہ کیا۔ اپنی دانست میں تو ہم صحیح راستے پر واپس آئے مگر یہ غلط راستہ تھا۔ پھر سوچا کہ ہم نے کہاں غلطی کی، واپس آئے ایک اور راستے سے اپنے ہوٹل پہنچنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔

ہماری جہد مسلسل بار بار کسی اجنبی مقام پر منتج ہوتی رہی تو ہمیں راستہ بھٹک جانے کا یقین ہو گیا اور پھر ہم نے مزید بھٹکنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم کتنے ہی پلوں سے گزرے اور کئی چھوٹی بڑی نہروں کو پار کیا اور ایک سڑک پر آ نکلے۔ سورج طلوع ہو چکا تھا۔ راستوں میں چہل پہل کی ابتدا ہونے لگی۔ ہم نے کسی سے ریلوے سٹیشن کا راستہ معلوم کیا اور ہوٹل واپس لوٹے۔

گزشتہ روز کی طرح ناشتے کے بعد ہم نے کچھ دیر کے لئے نیند لے لی۔ پھر سے باہر نکلے۔ گنڈولہ کی سیر سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا۔ گنڈولہ وہاں کی مخصوص کشتی ہے جو زیادہ تر تفریح کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ چھوٹی سی کشتی ہے جس کے دونوں کونے گولائی میں اٹھتے ہوئے اندر کی طرف مڑتے ہیں اور رنگوں سے مزین ہوتے ہیں۔ کشتی کے درمیان سے کچھ ہٹ کر صوفہ نما آرام دہ سیٹ ہوتی ہے جس میں دو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے اور سیٹ کے اوپر خوبصورت چھت بنی ہوتی ہے۔

گنڈولہ میں سیر کا تجربہ دلچسپ اور پر لطف رہا خاص طور پر اونچی عمارتوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی نہروں میں گھومنے کا بہت مزہ آیا خصوصاً گنڈولہ میں سوار ہو کر پل کے نیچے سے گزرنا نہایت پر لطف تھا۔ پل دور سے نظر آتے تو منظر کا حسن دوبالا ہو جاتا۔ گھروں کے درمیان سے گزرنے اور دوسری کشتی کے قریب سے گزرنے سے خوشگوار احساس ہوتا۔ جی چاہا کہ ان گھروں میں کوئی اپنا گھر ہوتا اور ہم گنڈولہ کو لنگر انداز کر کے اندر داخل ہو جاتے۔

گنڈولہ کی سیر سے محظوظ ہونے کی ایک حسین یاد سمیٹ کر ہم واپس سان مارکو آ گئے۔ اس کے بعد سووینئرز خریدے جن میں ایک گنڈولہ بھی شامل تھا۔ ہوٹل پہنچ کر چیک آؤٹ کیا اور روم جانے والی ٹرین میں بیٹھ کر اس خوبصورت شہر کو الوداع کہا۔ مغرب کے قریب ہم روم ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ ہوٹل قریب تھا جہاں ہم واپسی کے لئے بکنگ کروا گئے تھے۔ ہوٹل کے مالک نے پر جوش خیر مقدم کیا۔ روم میں دو روز مزید قیام کے بعد ہم اگلی منزل پر روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments