متحدہ اپوزیشن اور قانون سازی


ویسے تو ہمارے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ بطور صحافی ہمیں خبروں کی کمی نہیں ہوتی، لیکن اسلام آباد میں نومبر کے وسط میں، سرد موسم میں سیاسی درجہ حرارت گرم رہا اور گزشتہ دنوں کے دوران حکمران جماعت کے بارے میں کی جانے والی چہ مگویاں بالآخر دم توڑ گئیں۔ ویسے تو اپوزیشن جماعتوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے، بظاہر میڈیا پر بہت شور شرابا کرتے ہیں کبھی مہنگائی کو لے کر حکومت کو کوستے ہیں اور کبھی لاء اینڈ آرڈر سمیت دیگر معاملات پر اپنا غصہ نکالتے رہتے ہیں۔

لیکن حقیقت میں نہ تو انہیں مہنگائی سے کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی انہیں غریبوں کی فکر ہے۔ بلکہ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جو خود مہنگائی کے ذمہ دار کہے جا سکتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جب سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انہیں مہنگائی سمیت دیگر معاملات پر بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تجزیہ کچھ دیر سے ہے لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے تو ہم اس پر بات کر سکتے ہیں۔

حکمران جماعت میں بیٹھے ارسطو اور افلاطون اپوزیشن کے زمانے میں کیا کیا درس دیا کرتے تھے وہ سب ہمیں یاد ہے۔ اب وہی لوگ مہنگائی کرنے اور دیگر کاموں کی دلیلیں دیتے پھرتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم صاحب بذات خود اپوزیشن میں کیا کیا فرماتے تھے، وہ سب کچھ دہرانے کے لئے یہ کالم نہ کافی ہو گا۔ اب وہی سب کچھ خود کر رہے ہیں جن کے دوسروں کو طعنے دیا کرتے تھے۔ اگر غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو اعلی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد میں سے شاید ہی کوئی گنتی کے چند ایک ہوں گے جنہیں ملک اور عوام الناس کی فلاح کی سوچ ہو۔

یہ بات میں اس لیے کہتا ہوں کہ ستر سالوں کے زائد عرصے کے بعد بھی ملک کا جو حال ہے اگر کوئی درد دل والے کوئی چند لوگ بھی ملک کو مل جاتے تو ایسا نہ ہوتا جو اب ہے۔ چند دن قبل کرم فرما سینئر بیوروکریٹ سے غیر رسمی بات ہو رہی تھی، انہوں نے جو کچھ فرمایا میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ اس ملک کا سیاسی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں سے لے کر ملکی نظام کو جمہوری کہنا ”جمہوریت“ کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔

حالانکہ ہمارے ہمسایہ ملک میں یہی نظام رائج ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہے اگرچہ کچھ خرابیاں اب بھی ہیں مگر صوبوں کی خود مختاری اور نچلی سطح پر فیصلہ سازی ہوتی ہے۔ عسکری اداروں کا سیاست میں کوئی کام نہیں جبکہ دوسری جانب گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران بظاہر حکمران جماعت کی فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں لیکن دراصل اسے اسٹیبلشمنٹ کی جیت گنا جا رہا ہے اور اس بات کا حکمرانوں نے خود خوشی سے اعتراف بھی کیا ہے۔

اور اسی دن سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی صدر پاکستان سے الوداعی ملاقات کی خبر جاری کر کے واضح پیغام دیا گیا۔ اپوزیشن جماعتیں ان بلز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے رہے ہیں کہ ہماری عدالتیں کتنی آزاد ہیں اور بذات خود عدالتوں کی کارکردگی اور غیر جانبدارانہ فیصلوں سے کون واقف نہیں۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ سے لے کر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلوں سے کون واقف نہیں۔

اب اگر اپوزیشن کو کوئی خوش فہمی ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ دوسری جانب حکومت فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتی کہ جن بیساکھیوں کے سہارے بل منظور کروانے میں کامیاب ہوئی ہے وہ آوازیں پارلیمنٹ کی راہداریوں میں گونج رہی ہیں۔ ورنہ آج بیساکھیوں کے بغیر اپنے پاؤں چل کر دیکھ لیں، کتنے میٹر چل سکتے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جو حب الوطنی کے دعویدار ہیں وہی غریب کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں۔ وطن سے محبت واویلا کرنے سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ ملک کی حالت سے نظر آتی ہے۔

دنیا میں بہت سے ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد چند دہائیوں میں ترقی کی، اور آج ان ممالک کا انفراسٹرکچر اور معاشی ترقی دیکھ کر رشک آتا ہے۔ جب کہ ہم تمام تر قدرتی وسائل کے باوجود تہتر سالوں کے بعد بھی بنیادی ضروریات پوری نہیں کرپائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار آیا اس نے انفرادی ترقی کو اہمیت دی او ر لوٹ مار کر کے دوسرے ممالک میں جاکر رہائش اختیار کی اور بچوں سمیت وہیں کے ہو کر رہ گئے۔

ممکن ہے کہ یہ سب کچھ لکھنے سے کوئی تبدیلی نہ آئے لیکن یہ ضرور ہو گا کہ میرا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جنہوں نے اس ملک کی بہتری اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار برائی اور شر کے خلاف اپنا کردار ادا کیا۔ بنیادی طور پر ہم ذہنی غلام ہیں، پہلے گورے ہم دیسیوں پر حکومت کرتے تھے اب یہ فریضہ گوروں کے دیس رہنے والے دیسیوں کو دے دیا ہے ہماری ساری پالیسیاں ان کی خوشنودی کے لیے ہیں گورے پھر بھی کچھ نہ کچھ دیسی رعایا پر خرچ کرتے تھے اب وہ بھی نہیں۔

ووٹ کا حق نہ صرف بیرون ملک پاکستانیوں کو دے دیا گیا بلکہ اندرون ملک رہنے والے بھوکے ننگے پاکستانیوں سے چھین لیا گیا اور ویسے بھی ہم نے ووٹ دے کر کیا کرنا ہے اس ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے نیازی، سواتیوں، رضا باقروں، شوکت ترینوں، زلفی بخاریوں اور فیصل واوڈوں سے کام لیا جائے۔ اس وقت کا عمران خان مکمل طور پر تکبر کے الاؤ میں جل بھن چکا ہے۔ یہ کلبھوشن کی حمایت کر سکتا ہے طالبان کی وکالت بھی کر سکتا ہے، آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قاتلوں کو معاف کر سکتا ہے، مگر اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔

رہی کرپٹ عناصر کی بات تو اس سے اس کے اپنے میمنہ و میسرہ بھرے پڑے ہیں۔ تحریکیں ایسے کامیاب نہیں ہوتیں جیسے پی ڈی ایم نے چلائی بلکہ ذاتیات سے ہٹ کر جذبات ہوتے ہیں۔ مجھے ٹی ایل پی کے احتجاجی طریقہ کار سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جو کچھ انہوں نے کیا اس کے بعد اپنا جائز یا ناجائز مطالبہ ماننے کے لیے حکومت کو مجبور کر دیا۔ بھارتی کسانوں نے ایک تحریک چلائی اور منتخب حکومت کو ایک سال بعد گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ چند سال قبل ہمارے ہاں ایک وکلا تحریک چلی اور ایک فوجی ڈکٹیٹر نے گھٹنے ٹیک دیے۔ لیکن عوام دھنیہ پی کر سو رہی ہے۔ سو چھتر بھی کھانے ہیں اور سو پیاز بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments