تعلیمی اداروں میں ثقافتی یلغار


کسی ملک و قوم کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس قوم کی تہذیب و ثقافت،سماجی اقدار،تعلیم بالخصوص نوجوان نسل کو نشانے پر لیا جاتا ہے۔جس کے لیے مختلف فلموں،ڈراموں،اداکاروں،کھلاڑیوں،فلمی ستاروں اور فیشن ڈیزائنروں کو رول ماڈل پیش کر کے غیر اسلامی ثقافت کی تبلیغ و تشہیر کی جاتی ہے۔مختلف رسالوں اور ڈائجسٹوں پر نیم عریاں خواتین کی تصاویر شائع کر کے نوجوان نسل کو جدیدیت اور فیشن کے نام پر فحاشی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔
بوائے فرنڈ اور گرل فرنڈ کے ناجائز تصور کو عام کیا جاتا ہے۔جس کی بدولت ان سے شرم و حیا مفقود ہو جاتی ہے۔آج ہمارے سماج سے محرم و نامحرم کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔حیا،غیرت و عفت کہی نظر نہیں آتی ہے۔نسل نو بڑی فخر سے مغرب کی تقلید کر رہی ہے۔ہمارا معاشرہ جس جدید ثقافت کی غلاظت میں گر چکا ہے اس کی جانب حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال نے برسوں پہلے توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا تھا۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
جن تعلیمی اداروں کو علم و تحقیق کے مراکز بننے چاہیے تھے مگر شومئی قسمت وہ مغربی فیشن پرستی کے اڈے بن چکے ہیں۔جامعات میں ثقافت کے نام پر مخلوط رقص اور ناچ گانے کے قبیح فعل بھی انجام دئیے جاتے ہیں۔جبکہ اسکول سطح پر مختلف پروگرامات میں ٹیبلوز  پیش کیے جاتے ہیں جس میں بچے اور بچیوں کو رقص کی ٹرینگ دی جاتی ہے۔والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں اور بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے جھوم جھوم کر تالیاں بجاتے ہیں۔انہی اداروں سے نکلنے والے طلبہ اسلامی ثقافت کا جنازہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
جس کا عملی مظاہرہ قراقرم انٹرنیشنل یونی ورسٹی گلگت میں سجنے والا کلچرل شو میں دیکھا گیا۔پچھلے دنوں یونی ورسٹی میں سپورٹس ویک کا انعقاد کیا گیا تھا مگر یہ جلد ہی ثقافتی میلے میں تبدیل ہو گیا۔جس میں مخلوط رقص و سرور کی محفلیں سجائی گئیں۔جوان لڑکیاں بھری محفل میں گانا گا کر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھیں اور چیخ چیخ کر اپنی ناکام محبت کے قصے سنا رہی تھیں۔جبکہ جوان اچھل اچھل کر تالیاں بجا کر داد دیتے تھے۔
محسوس ہوا کہ ہمارے پڑھے لکھے تعلیم یافتہ افراد کس قدر جدیدیت اور مغربی ثقافت کی گندی کیچڑ میں گر چکے ہیں۔رسول پاکؐ کی حیات مبارکہ کو اسلامیات کی کتابوں تک محدود کر کے فلمی ستاروں کو رول ماڈل بنا کر اسلامی معاشرے کو زوال کی طرف دھکیلا گیا ہے۔شاید یہی ہماری زوال کا سبب ہے کہ ہم برائی کو برائی نہیں سمجھتے بلکہ اپنے اس برے فعل پر اِتراتے رہتے ہیں۔
آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید
سب کچھ یاد ہے مگر خدا یاد نہیں
وطنِ عزیز میں ڈانس اور موسیقی کے شوقین فحش لوگوں کے ٹولے سرگرم ہیں۔خاص طور پر تعلیمی ادارے ان کے نشانے پر ہیں۔ان لوگوں کو باقاعدہ طور پر سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔جو صرف ناچ گانے،مخلوط رقص اور دیگر نامناسب و نازیبا چیزوں کو ثقافت سے جوڑ کر اسلامی معاشرے کو داغ دار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔لہٰذا یہ ایک اسلامی ریاست ہے۔اسے ثقافت اور رقص و سرور کی محفلوں کے ذریعے ممبئی بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ورنہ نسلِ نو کی تباہی کے لیے اس کے بھیانک اثرات ہوں گے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments