کہروڑ پکا کی نیلماں (5)


(افسروں کے معاشقوں پر مبنی ایک نیم حقیقی نیم افسانوی واردات قلبی کا احوال)

رات چلی ہے جھوم کے

ان اتفاقیہ ہم سفروں کا ناؤ نوش کا سلسلہ جب بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا تو نیلم نے اپنے پاؤں سینڈل سے آزاد کیے۔ ایک بڑی سی جامنی شال اپنے رول آن بیگ سے نکالی اور صوفے کے ایک آرمز ریسٹ سے کمر جوڑ کر پشت پر لگی دیوار سے سر ٹکا دیا گھٹنوں کی محراب بنا کر دوسرے آرمز ریسٹ سے پیر دوسرے خالی صوفے پر ٹکا دیے اور شال کی بکل مار لی۔

ارسلان کو لگا کہ نیلم کی یہ پشمینہ شال ایک ایسی شانت جھیل ہے جس کی سطح آب سے صرف اس کی گردن اور چہرہ باہر ہیں لیکن اس کے نیچے نیلم کا بدن اپنی تمام تر حشر سامانیوں سے تیرتا ہے۔ وہ لمبے صوفے پر اس صوفے سے قریب بیٹھا تھا جہاں نیلم کے پاؤں رکھے تھے۔

انگریز معاشرے میں سات برس رہ کر اور ہر طرح کے تیز طرار اور صاحبان معاملہ و فہم سے مل کر نیلم اپنے اندر جا کر بہت ذہین اور سبھاؤ برتاؤ کی ماہر ہو گئی تھی۔ اسے معاملات کو ایک خوبصورت موڑ پر مد مقابل کو کسی بدسلوکی کا احساس دلائے بغیر خود کو خاموشی سے جدا کرنے کا ہنر پہلے بھی آتا تھا کہ وہ ہاسٹل میں رہتی تھی۔ اس کے بعد ایک ایسا بھر پور بنیادی سوچ والا گھرانا ملا، جہاں وہ اور باہر سے آنے والے داماد اور بہوئیں ثانوی حیثیت سے جینے کے پابند تھے۔ پہلے کی مہارت اب ایک ایسے برتاؤ میں بدل گئی تھی جس نے اسے اب تک وہاں بہت Stress۔ Free رکھا تھا۔

اس نے بہت آسانی سے یہ سوچا کہ رات کا یہ آنے والا پہر ایسا ہے جہاں وہ ارسلان کو ٹھیک سے پرکھے گی۔ رات گئے تک مرد ڈھل مل ہو جاتے ہیں جب کہ عورتیں تو ویمپائر کی طرح نکلتی ہی رات کو ہیں۔

اپنے اس ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے ایک بہانہ تراشا اور ارسلان کو بلا پوچھے ہی اظہار کر بیٹھی کہ پی پلا کر وہ بہت anchored (یعنی اپنی جگہ بندھ جانا ) ہوجاتی ہے۔ اس پر خاموشی کا دورہ بھی پڑتا ہے۔ اس کی گفتگو میں وقفہ بھی آ جاتا ہے۔ وہ بہت irrelevant (غیر متعلق) بھی ہوجاتی ہے۔ میری دوست گڈی تو wild بھی ہوجاتی ہے۔

گڈی کے وائلڈ ہونے کا انکشاف کر کے وہ دھیمے دھیمے مسکرانے لگی۔ گڈی کا طریقہ ؤاردات کچھ یوں تھا کہ وہ بوائز کے سامنے دو تین جام گھٹکا کرنے کے بعد شدید ٹن ہونے کی ایکٹنگ کرتی تھی۔ لمحات وصل میں وہ خود اپنے کپڑے خود نہیں اتارتی تھی۔ ایسا مرحلہ آتا تو وہ مرد مقابل کو اپنی رضامندی کا اظہار یوں کرتی تھی Your، Honor (میرے، سرکار) کپڑے اتارنے سے وہ اندازہ بالخصوص برا کو کیسے unhook کرتا ہے اس سے مد مقابل کے تجربے کا، اس ضرب کاری سے اندازہ کر لیتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ مرد جو ایک انگلی سے اس کی طرح برا کو unhook وہی فائنل کا کھلاڑی ہے۔

ارسلان کو لگا کہ یہ گفتگو کا وقفہ ہے۔ وہ اس لیے چپ ہے۔ کچھ دیر جائزہ لے کراس نے پوچھا ”آپ وائلڈ نہیں ہوتیں؟

 ’ میں Never‘ ۔

ارسلان نے پوچھا کہ ایسا کیسے؟

تو نیلم نے جوابی وار کیا ”تو آپ چاہتے ہیں میں بھی wild ہو جاؤں؟“ ۔

نہیں مجھے کسی انسانی ردعمل سے زیادہ اس کے Process میں دل چسپی ہوتی ہے۔ ارسلان کی وضاحت پر نیلم نے دوسری دفعہ دانا ڈالاthere is a girl in me which refuses to leave home

ایک خاموشی نے پھر سے نیلم کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاموشی کے وقفوں میں ایک تواتر سا آ گیا

ارسلان نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر خون کی گردش نے سے ایک دھیمی مشتعل سرخی ویسے ہی طاری کردی جیسے کوئی سلگتے ہوئے Rouge (بلش آن) یعنی ¿غازے کی دھند چھا گئی ہے۔ ارسلان کا واسطہ ہر قسم کے ڈرنکر زسے پڑ چکا تھا۔ اس کی دوست فضیلت جو ویسے خوش گفتار اور من موجی تھی۔ تین پیگ کے بعد ارسطو اور حسن نثار بن جاتی تھی۔ اسے شیام بنیگل کی فلم منڈی میں نصیر الدین شاہ کے کردار ٹنگرس بھی یاد آ گیا جو دن بھر تو خدمت طوائفاں میں چپ چاپ رہتا تھا تھا مگر دھندے کا ٹائم ختم ہونے پر پی کر بہت اودھم مچاتا تھا۔ شراب پینے والوں میں چند علامات دیدہ ور کو فوراً دکھائی دے جاتی تھیں ان کے ردعمل میں وقفہ آ جاتا ہے۔ ان کی impulsivity میں اور جرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یاداشت بہکنے لگتی ہے۔ سوچ میں توازن بگڑ جاتا ہے مگر سوئی کے اٹکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں

Blackouts ’، بھی ہونے لگتے ہیں۔ رات کیا ہوا کچھ یاد نہیں رہتا۔ الفاظ کی ادائیگی لکنت اور پھسلن آجاتی ہے جسے انگریزی میں Slurred speech کہتے ہیں۔ نگاہ بھی کچھ دھندلا جاتی ہے جسمانی توازن کے بگاڑ کا اندازہ تو اس کے شال نکالنے اور صوفے پر پیر ٹکانے کے وقت وہ کر چکا۔ اس اعلان کے سینڈل اتارنے اور شال لپیٹنے کے بعد چونکہ کوئی اہم سنجیدہ گفتگو آپس میں نہیں ہو پائی تھی اس لیے اس کے جذبات میں شدت اور Mood swings کا اندازہ لگانا اس کے لیے آسان نہیں تھا مگر پھر بھی اس نے بہت آہستگی سے نوٹ کیا کہ اس کی توجہ ارسلان کی جانب بڑھ گئی ہے۔ شاید وہ اسے اچھا بھی لگ چکا ہے۔ اس لیے کہ دور رکھنے کے لیے عورت بچے اور جانور کی آنکھ جو شاہراہ انسیت پر ہر کس و ناکس کے لیے کھڑی کرتی ہے۔ وہ ہٹ چکے تھے۔ اب اس کی آنکھیں اس پر دیر تک مرکوز رہنے لگی تھیں۔ ہم ان دونوں کو زمین آسمان مان لیں تو یہ سمجھ لیں کہ اگر کچھ منصوبے زمین پر تھے کچھ تدبیریں آسمان کے پاس بھی تھیں۔

ارسلان کو نیلم نے اپنا میاں بنانے کا نہیں تو کم از کم اپنا پکا پکا دوست یعنی گڈی۔ ٹو بنانے کا فیصلہ اس وقت کیا جب وہ کافی کے ساتھ شہد کی بوتل لے آیا۔ مزاج کی اس فیاضی نے بڑی پوائنٹ اسکورنگ کی۔ پرانے عربوں میں یہ خیال عام تھا کہ فیاضی اور شاعری کسی کو سکھائی نہیں جا سکتی۔ سو حضرت فطرتاً فیاض ہیں۔ خود غرضی سے پرے۔ فیاضی، خود اعتماد لوگوں کا وصف ہے۔ سعید گیلانی اور اس کے بھائی بہنوں ماں باپ دوز بلڈی فریش آف دا بوٹ سسرالی ٹبر میں تو یہ وصف دور پرے سے بھی ہو کر نہ گزرا تھا۔ دفتر اور باہر کی دنیا میں رابطہ میں آنے والے مردوں میں نیلم نے اس وصف کو ڈھونڈنے کا کبھی نہیں سوچا۔ اس اجتناب کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کا پرائس ٹیگ پڑھنا اس کے لیے آسان نہ تھا۔ عورت مرد کے ہر تعلق میں ایک بار کوڈ ہوتا ہے جسے دل و دماغ کی ہر مشین ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتی سو Baby، better play safe۔ سعید بہرحال اس کا میاں ہے۔ اسی سے جڑے رہنے میں بھلائی ہے۔

ارسلان کا معاملہ اچانک اور اس کی شخصیت اس کے لیے اپنی فاصلہ بھری اجنبیت کے باوجود مرعوب کردینے والی تھی۔ اس نے اس وقت ہی اپنے اندر ایک لرزہ دینے والی Sonic boom [وہ دھماکے جو اس وقت ہوتے ہیں جب فضا میں اڑنے والے طیارے کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہو] جب نیلم کو ارسلان نے تجویز پیش کی تھی کہ وہ چاہے تو وہاں کافی شاپ سے اس کے اور اپنے لیے کچھ مشروب لا سکتی ہے یا وہ یہاں بیٹھنا چاہتی ہے تو وہ لے آئے گا۔ یہ سن کر نیلم نے یہ کہہ کر اس کو ٹالا تھا کہ نہیں I dont feel like changing the battlefield۔ You go and bring it۔

وہ اسے جاتا دیکھتی رہی۔ جانے اسے کیوں خیال آیا کہ جب وہ اس سے کسی ائر پورٹ پر جدا ہو گا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔ یہ وہ قدم نہیں جو اسے چھوڑ کے جانے کے لیے اٹھیں۔ سامان پاس نہ ہوتا تو وہ اس کے پاس جاکر کہتی Don ’t you ever walk away from me (مجھ سے کبھی دور جانے کا سوچنا بھی مت) ۔ یہ ہی وہ دس منٹ تھے جب اس نے اپنی موجودہ ازدواجی زندگی پر ہٹ ہٹ کر ڈرون حملے کیے۔ اس پر پے در پے فضا سے کئی میزائیل مارے اور ارسلان سے اسے دور کرنے والے نسوانی ادراک اور شکوک کے دہشت گردوں کے تمام خفیہ ٹھکانے برباد کر دیے۔ انہیں لمحات میں اس کے دل کے پینٹاگون اور دماغ کی سی آئی اے نے فیصلہ کیا کہ آئندہ بھی اس طرح کے تناؤ اور کھنچاؤ پیدا کرنے والے شبہات کے خلاف ایک مشترکہFourth۔ generation warfare کا باقاعدہ آغاز کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اسے گلے میں پڑے خاندانی کیمرہ نما لاکٹ میں محفوظ تعویذ اور نانی میوہ جان کے ایکس (سابقہ عاشق ) جن قوموبط کی خوض خاص۔ شہر مرؤ۔ ترکمنستان کے انجانے محاذ پر ناگہانی ہلاکت کی اطلاع ملی اور اس نے اس انگریزی محاورے کے مطابق اس dead albatross کو گلے سے اتارنے [an albatross around neck۔ ] کی سوچی۔ عہد کر لیا کہ وہ یہ لاکٹ جب بھی ارسلان اس کے ساتھ ہو گا اس وقت کبھی گلے میں حمائل نہیں کرے گی۔

اسے لگا کہ ارسلان کی موجودگی میں یہ تعویز کسی کام کا نہیں ورنہ ایسا کیا تھا کہ جب وہ برہنہ سعید میاں کے بستر پر ساکت سمندروں پر کھلا بادبان بن کر پڑی ہوتی یہ تعویز دور میز پر ڈھیر ہونے کے باوجود سعید کے مردانہ حوصلوں کا وہی حال کرتا جو لتھو ٹریپسی گردے کی پتھری کا کرتی ہے۔ اسے چھیڑنے کے لیے وہ کئی مرتبہ غسل خانے میں کوک کی بوتل میں چھپائی ہوئی شراب کے دو ایک گھونٹ بھر کے، وکٹوریہ سیکریٹ کے ایمان شکن زیر جامے پہن کر ناچتے ہوئے باہر آتی اور اعلان کرتی کہ Hey Mr۔ S۔ G Look here

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments