عاصمہ جہانگیر بت شکن تھیں


انسانی حقوق ہوں یا شہری آزادی، آئین کی بالا دستی ہو یا عوام کا اقتدار اعلیٰ، عورتوں سے تفریق ہو یا بچوں کے ساتھ ناروا سلوک، اجرتی غلام ہوں یا کسانوں کی بدحالی، خطے میں امن ہو یا جنگ، مذہبی عدم برداشت ہو یا نسلی عدم مساوات، صحافتی آزادی ہو یا عدلیہ کی خود مختاری، بنگالیوں سے نا انصافی ہو یا بلوچ عوام سے زیادتی، دنیا میں ظلم ہو یا خطے میں بربریت، عاصمہ جہانگیر وہ آہنی ہستی تھی جس نے ان تمام ناہمواریوں کے خلاف آواز اٹھائی۔

وہ ہر ایک ظالم اور غاصب سے ٹکرانے کے لئے بے خوفی اور جوانمردی سے تیار رہتی تھی۔ وہ 11 فروری 2018 ء کو کروڑوں پاکستانیوں کو آزردہ اور دل گیر چھوڑ کر اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی وفات پران کی معاشرتی اور پیشہ وارانہ خدمات پر ملکی اخبارات اور جرائد میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اور وہ ہستی بعد از موت اس محبت اور عقیدت کی مستحق بھی تھی کہ اسے یاد رکھا جائے۔

عاصمہ جہانگیر کے دل میں سب انسانوں کے لئے بلاتفریق مذہب اور قوم بہت درد تھا۔ 90 کے عشرے میں 40 سالہ منظور مسیح اور 14 سالہ سلامت مسیح توہین مذہب کے الزام میں گرفتار تھے۔ جب توہین مذہب کے قوانین متعارف کروائے گئے تو اس نے 14 سالہ سلامت مسیح کا مقدمہ لڑا۔ مذہب کے ٹھیکیداروں نے اس گستاخی پر عاصمہ کو کبھی معاف نہیں کیا۔ سلامت مسیح کیس میں اپیل دائر کرنے پر عاصمہ کو مذہبی جماعت کے 200 افراد نے دھمکایا، اس کی گاڑی کے شیشے توڑ دیے اور ڈرائیور پر تشدد بھی کیا۔

عاصمہ نے کہا ”اگر آج جنونیوں نے میری گاڑی کو نقصان پہنچایا اور ڈرائیور کو زد و کوب کیا ہے توکل وہ مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں۔“ ایک پیشی کے لئے لائے جانے والے منظور مسیح کو اپریل 1994 ء میں لاہور ہائی کورٹ کے باہر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی تکفیر کے واقعات اٹھا کر دیکھ لیں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیر مملکت شہباز بھٹی کا قتل اسی مذہبی جنونیت کا شاخسانہ ہے۔

اپریل 1993 ء میں تکفیر مذہب کے جرم میں گرفتار ساجد عمانوئیل کو فیصل آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں فائرنگ کر کے ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ عام اقلیتی افراد کے اس ضمن میں ماورائے عدالت قتل اس کے علاوہ ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قالین باف اقبال مسیح کا مقدمۂ قتل اس آہنی اعصاب کی مالک، قانون دان نے لڑا۔ وہ مذہب مخالف نہ تھی بلکہ وہ مذہب پر کچھ عناصر کی خود ساختہ اجارہ داری کی مخالف تھی۔

عاصمہ جہانگیر کنیئرڈ کالج، لاہور سے گریجویٹ اور پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی تھیں۔ انسانی حقوق اور دوسرے معاشرتی فلاح و بہبود کے کاموں کے تسلسل کے لئے عاصمہ جہانگیر نے کئی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ انسانی حقوق کمیشن، ویمن ایکشن فورم، قانونی داد رسی کے لئے AGHS کا قیام، عورتوں کے لئے پناہ گاہ ”دستک“ سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی دوسری ترقی پسند تنظیموں اور عوامی فلاحی گروپوں کو عاصمہ جہانگیر کی بھرپور حمایت حاصل رہتی تھی۔

عاصمہ جہانگیر نے جہاں اپنی اصول پسندی، لگن اور جرات سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کارہائے نمایاں سر انجام دے کر لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی وہیں ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے ملک کے لئے عزت اور افتخار کا باعث بھی ٹھہریں۔ ان کے اعزازات کی فہرست طویل ہے چند ایک یہاں مذکور ہیں۔ انسانی حقوق کی جدوجہد کے اعتراف میں سوئیٹزرلینڈ، کینیڈا اور امریکہ کی نامور یونیورسٹیز نے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نوازا۔

1995 ء میں ایشیاء کا نوبل پرائز تصور کیا جانے والے ”رامن میگا سے ایوارڈ“ سے آپ کو نوازا گیا۔ 2010 ء میں آپ کو ملک پاکستان کی طرف سے سول ایوارڈ ”ہلال امتیاز“ عطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں ”یونیسکو پرائز، فرنچ لیجن آف آنر“ اور ”مارٹن اینلیز ایوارڈ“ سے بھی نوازا گیا۔ یہ بھی کسی اعزاز سے کم نہیں کہ عاصمہ جہانگیر نے اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے دنیا بھر میں ملک پاکستان کی ایک ذمہ دار اور معتبر تصویر پیش کی۔

ان کی حیات میں سینٹ الیکشن میں کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آپ کو سینیٹر شپ کی پیش کش کی گئی مگر انہوں نے خود کو اپنی خاص پہچان تک محدود رکھنا بہتر جانا۔ آپ 2010 ء میں سپریم کورٹ بار کی صدر منتخب ہوئیں، اور خاص بات یہ تھی کہ آپ وہ اولین خاتون تھیں جو اس مرتبہ تک پہنچیں۔ پاکستانی خواتین میں وہ جس مخصوص شخصیت کی مالک تھیں، اس کردار کی شخصیت شاید مردوں میں بھی کم ہی ملتی ہے۔ ان کی شخصیت میں بے باک اور اصول پسندی نمایاں وصف تھے۔

اس نے معاشرے میں ان تمام نظریاتی بتوں کو توڑا جو کہ عام لوگوں کے لئے استحصال کی علامت تھے۔ یہ بت چاہے آمریت کے بت ہوں، انسانی حقوق سے انکار کے بت ہوں، بچوں سے زیادتی کے بت ہوں، عورتوں کا آدھا انسان بنانے کے بت ہوں، اقلیتوں کی تحقیر کے بت ہوں، طبقاتی تفریق کے بت ہوں، فرقہ واریت کے بت ہوں، جنگ و جدل کے بت ہوں اور یا پھر انسان دشمنی کے بت ہوں، انہیں اس باوقار دختر پاکستان نے اپنی زندگی میں پاش پاش کرنے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ عاصمہ جہانگیر کی پہچان ایک دلیر، نڈر اور جرات مند معروف وکیل اور انسانی حقوق کی عالمی شہرت یافتہ کارکن کی تھی۔ انہیں پاکستان کی تاریخ میں ایک بت شکن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments