رنگ محل کے بے زبان جانور


وسیع و عریض شاندار کوٹھی، ”رنگ محل“ ، رنگ و نور اور خوشبوؤں، روشنیوں میں نہائی ہوئی تھی۔ وسیع مرکزی ہال میں سارے مہمان خوش گپیوں میں مصروف مختلف مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ پس منظر میں موسیقی کی خوبصورت دھنیں بج رہی تھیں۔ ایک شاندار دعوت طعام اپنے پورے جوبن پر تھی۔ شہر کے سارے امرا، عمائدین اور معززین اس بڑی تقریب میں مدعو تھے۔ مگر کچھ اور بھی تھا جو اس دعوت کو خاص بنا رہا تھا۔ وہ خاص بات تھی اس دعوت کے خاص مہمان اور وہ مہمان تھے خوبصورت اور قیمتی نسل کے پالتو جانور، جو کہ خصوصی طور پر ہر آنے والے کے ساتھ مدعو کیے گئے تھے۔

میزبان، سیٹھ ایس۔ کے بلگرامی نے مائک تھاما اور اعلان شروع کیا ”میرے عزیز مہمانوں! کچھ ہی دیر میں کھانا چن دیا جائے گا، امید کرتا ہوں کہ آپ تمام خواتین و حضرات بلا تکلف اچھی طرح لطف اندوز ہوں گے، ہمارے خاص مہمانوں کی ضیافت کا علیحدہ سے اہتمام کیا گیا ہے جہاں ہمارے ملازمین ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ عشائیے کے بعد حسب وعدہ آپ سب کے لئے ایک خاص سرپرائز ہے، وہی سرپرائز جس کے لئے ہمارے خاص مہمانوں یعنی آپ سب کے پالتو جانوروں کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شہر میں سیٹھ بلگرامی سے پہلے کسی نے ایسا انوکھا، نادر اور اعلیٰ تحفہ اپنے دوستوں کو نہیں دیا ہو گا۔ رنگ محل کی یہ ضیافت اور پیشکش برسوں یاد رکھی جائے گی۔“

اس اعلان کے ساتھ ہی سیٹھ ایس۔ کے بلگرامی نے ملازمین کو ڈنر شروع کروانے کا اشارہ کر دیا۔

تمام مہمانوں میں سنسنی پھیل چکی تھی۔ ایسا کیا تھا جو کھانے کے بعد پیش ہونے جا رہا تھا، ہر ذہن میں یہی سوال کلبلا رہے تھے۔ کچھ گھڑیاں اور سرکیں کھانا سمٹ چکا تھا، مہمان اب بے صبری سے سرپرائز کے منتظر تھے، آخر کار انتظار ختم ہوا اور سیٹھ بلگرامی اسٹیج پر دوبارہ نمودار ہوئے۔ اس مرتبہ ان کے ہمراہ ایک طویل قامت کا شخص بھی تھا، اس کے جسم پر قیمتی لباس تھا اور ہاتھ میں ایک چھڑی، اس کے کندھے پر ایک خوبصورت طوطا بیٹھا آنکھیں گھما رہا تھا۔

ہال میں گہری خاموشی تھی۔ سب پوری طرح ہمہ تن گوش تھے، سیٹھ بلگرامی کی آواز نے ایک بار پھر فضا کا سکوت توڑا۔ ”میرے معزز مہمانان گرامی! میرے ساتھ ہیں میرے دوست خلیل حسین! یہ حال ہی میں ایران سے تشریف لائے ہیں۔ اردو سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے، مختلف پراسرار علوم سیکھنے، ریاضت اور سفر میں زندگی کے کئی برس کئی ملکوں کا سفر طے کیا ہے۔ آج یہ میری دعوت کے مہمان خصوصی بھی ہیں۔ اور ان کے پاس ہے آپ سب کے لئے ایک نایاب تحفہ، ایک خاص ہنر اور انمول جادو! “

سیٹھ بلگرامی کی شاندار کوٹھی، رنگ محل کا مرکزی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اب کے بولنے کی باری خلیل حسین کی تھی، ”ہمارے دوستوں کی خدمت میں ہمارا سلام! تمہید کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ یقیناً آپ سب مہمان اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ یہاں موجود ہیں اور ان سے بے تحاشا محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ آپ کے گھروں میں ان کو خاندان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے آرام، غذا اور صحت کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے تو کیوں نہ آج ان کو ایک اور پروٹوکول دے دیا جائے کیونکہ یہ بے زبان جانور، اکثر انسانوں سے بڑھ کر آپ کے وفادار، غم خوار اور دوست ہیں تو کیا آپ اپنے دوست کی بولی سننا نہیں چاہیں گے؟ زبان جو محبت کا استعارہ ہے، زبان جو وفا کے شیرے میں تر ہے اور زبان جو پیار اور اپنائیت کے پھول مہکاتی ہے۔ “

” ارے“ ، ”اوہ“ ، ”کیسے ممکن ہے“ ، ”کمال ہے“ !
ہال میں کئی آوازیں گونجیں۔

” یہ بالکل ممکن ہو گا آج کی شام رنگ محل میں۔ میں دکھانے جا رہا ہوں ایک انوکھا جادو۔ میرے ہاتھ میں موجود یہ چھڑی یہاں موجود ہر جانور کو باری باری چھوئے گی اور اس کے ساتھ ہی اس میں بولنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ لیکن۔ لیکن۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر مجھے ان سب جانوروں کو جادوئی چھڑی سے دوبارہ چھو کر واپس بے زبانی کی دنیا میں بھیجنا ہو گا، اگر ایک گھنٹے کے اندر اندر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ہمیشہ کے لئے یہ صلاحیت حاصل کر جائیں گے اور یقیناً یہ بات پریشان کن ثابت ہوگی، اس کے علاوہ ایک گھنٹے کے بعد میرا اس جادو پر اختیار بھی ختم ہو جائے گا۔

“ خلیل حسین کی بات مکمل ہو چکی تھی۔ ہال پر سکوت طاری تھا۔ گھڑی نے گیارہ کا گھنٹہ بجنے کا اعلان کیا اور سیٹھ بلگرامی نے سب سے پہلے اپنے پالتو کتے شیفری کو آگے کیا۔ خلیل حسین نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے چھڑی شیفری کے جسم سے مس کی، شیفری بھاگ کر سیٹھ بلگرامی کے قدموں میں دم ہلانے لگا اس نے منہ کھولا اور اس کے منہ سے نکلا ”شکریہ مالک“ حاضرین نے بے ساختہ تالیاں پیٹیں۔ اور داد و تحسین اور حیرت و مسرت بھرے فقرے فضا میں گونجنے لگے۔

خلیل حسین نے خاموشی کا اشارہ کیا اور پھر سے مائک سنبھالا۔ ”معزز مہمانوں! یاد رہے آپ کے پاس فقط ایک گھنٹہ ہے جس میں سے پانچ منٹ گزر چکے ہیں لہذا جلد از جلد باری باری کر کے اسٹیج پر اپنے پالتو جانور کے ہمراہ تشریف لائیں اور ایک نئے اور منفرد تجربے سے ہمکنار ہوں“ اس اعلان کے ساتھ چند ہی لمحوں میں مسز بلگرامی کی بلی سوشی، معروف صنعت کار شہزاد برکی کا خرگوش فرگو، مسز شہزاد کی برڈ مالا، مشہور سیاسی و سماجی کارکن فضل میر کا کچھوا ٹوٹو، سینئر جج صاحب اکرام علی کا کتا جیکی، معروف اداکارہ و ماڈل زارا کی بلی نینی، نوجوان گلوکار اوشو کا بندر مائیکا اور خود خلیل حسین کے طوطے شالم سمیت کئی جانور اہل زبان ہوچکے تھے۔

پرندوں کو زبان ملنے کی دیر تھی کہ ہال میں شور شرابا برپا ہو گیا۔ ہر شخص اور اس کا پالتو جانور زور زور سے بول رہے تھے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ آخر ایک بار پھر بلگرامی صاحب کو مداخلت کرنی پڑی۔ ”معزز مہمانوں سے درخواست ہے کہ صبر سے کام لیں ورنہ اس مختصر وقت میں ہم کسی کو بھی نہیں سن پائیں گے، تو چلیے سب سے پہلے شیفری آپ کو کچھ سنائیں گے پھر آپ کے جانوروں کی باری آئے گی۔“ یہ اعلان سن کر ہال میں کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔ شیفری نے دم ہلائی اور گویا ہوا، ”میرے مالک سیٹھ ایس۔ کے بلگرامی بہت ہی اچھے اور سلجھے ہوئے انسان ہیں میں مالک سے بہت محبت کرتا ہوں اور ان کے لئے جان بھی قربان کرنے کو ہر لمحہ تیار رہتا ہوں۔ “ شیفری کی گفتگو جاری تھی اور سیٹھ بلگرامی کا سینہ مزید چوڑا ہو گیا تھا۔

” مالک بہت اچھے ہیں مگر جب ان کے اردگرد انتہائی قریبی رشتوں کو بے وفا اور غدار پاتا ہوں تو میں دکھی ہوجاتا ہوں۔ “

اب کے سیٹھ بلگرامی کے ساتھ ساتھ حاضرین محفل بھی چونک اٹھے۔

” مالک کے قریبی دوست، رنگ محل کے کچھ ملازمین اور حد یہ کہ بیگم صاحبہ بھی مالک کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں۔ “

شیفری کے یہ الفاظ کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ سیٹھ بلگرامی خشمگیں نگاہوں سے بیگم کو گھور رہے تھے، ہال میں موجود سیٹھ کے دوست پہلو بدلنے لگے اور بیگم صاحبہ ایک دم کھڑی ہو گئیں ابھی وہ کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ ان کے پہلو سے تیز نسوانی آواز آئی ”شیفری تم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے کچھ باتیں بتانا بھول گئے“ سب نے آواز کی سمت چونک کر دیکھا۔ یہ تھیں مسز بلگرامی کی لاڈلی بلی سوشی!

سچ تو یہ ہے کہ میری مالکن اپنے شوہر کی رنگین اور بے وفا طبیعت سے ہر لمحہ اداس رہتی ہیں۔ بلگرامی صاحب کی رنگین شاموں اور سنگین راتوں سے وہ ناواقف نہیں ایسے میں وہ اپنے دل کا حال مجھ سے کہتی ہیں اور بہرحال میں انہیں آج سے پہلے تسلی کے دو بول نہیں بول سکی تو وہ اپنے کچھ وفادار ملازمین سے بھی دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں۔ اور۔ ”

” اور اس سے دل ہلکا نہیں ہوتا تو شہزاد برکی سے دل لگی کر لیتی ہیں۔ یہی کہنا چاہتی ہو ناں سوشی۔ ؟“
شیفری بات کاٹ کر بولا

” کیا بکواس ہے یہ“ ، جھوٹ ہے یہ ”،“ یہ الزام ہے ہم پر ”ہال میں کئی آوازیں گونجیں۔ مگر اب کے ایک آواز سب کو دبا گئی، یہ آواز تھی شہزاد برکی کے خرگوش فرگو کی،

” میرے مالک کو بیرون ملک کے دوروں سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ان خرافات میں پڑیں۔ مالک ہر وقت ہی اندرون اور بیرون ملک مصروف رہتے ہیں۔ “

مسز شہزاد کی برڈ مالا نے فوراً بات کاٹی، ”مصروف تو خیر شہزاد سر بہت ہوتے ہیں مگر اندرون اور بیرون ملک نجی مصروفیات کی بھی کمی نہیں ان کا ذکر مناسب نہیں سمجھتی مگر ان گناہگار آنکھوں نے کیا کیا نہیں دیکھا بیچاری مالکن صاحبہ سدا کی وفادار اور غمخوار۔ “

ہال میں تناؤ کی کیفیت طاری تھی۔ سیٹھ بلگرامی، مسز بلگرامی، شہزاد برکی، مسز شہزاد سب ایک دوسرے کو کھا جانے والی نگاہوں سے گھور رہے تھے۔ حاضرین محفل میں کچھ پریشان تھے اور کچھ محظوظ ہو رہے تھے۔ اتنے میں سیاسی، سماجی کارکن فضل میر کا کچھوا ٹوٹو رینگتے ہوئے سامنے آیا، خول سے سر نکالا اور آہستہ آہستہ گویا ہوا، ”مسز شہزاد کی مالا جپتے جپتے مالا صاحبہ بھول گئیں کہ پچھلے ہفتے کٹی پارٹی (kitty party) میں مسز شہزاد نے غم غلط کرنے کو اتنے جام چڑھائے کہ مدہوش ہو کر آپے سے باہر ہو گئیں اور بمشکل ملازمین نے سنبھال کر گاڑی میں گھر پہنچایا مگر ہمارے فضل میر صاحب کی بیگم صاحبہ کی پارٹی کے رنگ میں بھنگ ڈال ہی گئیں“ ٹو ٹو کی بات سن کر ہال میں کئی قہقہے گونج اٹھے، جانوروں کے قہقہے انسانوں سے بلند تر تھے۔ اب شرمندگی، خفت، غصے سے مسز شہزاد کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اب نینی کیوں پیچھے رہتی وہ تو ویسے بھی نخریلی ماڈل زارا کی بلی تھی سو اتراتے ہوئے بولی،

” فضل میر صاحب کا تو خیر ذکر ہی کیا، سیاسی سماجی خدمات کا تو نہیں پتہ، مالکن زارا جی کی خدمت میں کسی طرح پیچھے نہیں رہتے، آئے دن کی کالز، ملاقاتوں، اور تقاضوں سے تو زارا جی کا ناک میں دم ہی کیا ہوا ہے۔ “ فضل میر کے چہرے پر تاریک سایہ آ کر گزر گیا، دوسری طرف زارا شان بے نیازی سے بیٹھی نینی کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ مسز فضل میر غضبناک ہو کر شوہر کو گھور رہی تھیں۔ اسی لمحے گلوکار اوشو کا بندر مائیکا قلابازی لگا کر سیدھا اسٹیج تک جا پہنچا، مائک تھامتے ہی کھل کر ہنسا، ”زارا جی کی ایسی کی تیسی! خود پیسوں کے لئے کچھ بھی کر جائیں، کسی بھی لولے، حبشی، موٹے کے ساتھ روانہ ہوجائیں اور اوشو نے چھیڑ دیا تو ہراسانی کا الزام۔ واہ صدقے۔ آخر اسکینڈل کا تڑکا بھی تو کیرئیر کے لئے ضروری ہے، وہ کیا ہے ناں کہ :

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا۔ نام نہ ہو گا دراصل مجھے بھی اوشو کے ساتھ رہ رہ کر گلوکاری اور شاعری سے شغف ہو گیا ہے۔ ہی ہی ہی۔ ”مائیکا اوشو کی طرح ہی شوخا معلوم ہوتا تھا۔ مائیکا کی بات سن کر ہال ایک بار پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔ زارا غصے سے لال بھبھوکا ہو رہی تھی۔ قریب تھا کہ وہ واک آؤٹ کر جاتی اچانک اس کی بلی نینی بول اٹھی،“ زارا پر لگائے گئے الزام میں کتنی حقیقت ہے یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔ اوشو اور مائیکا جیسے بندر نہیں ”۔

“ ادھر عدالت کا ذکر سنتے ہی جج صاحب کے کتے جیکی نے جست لگائی اور تیز آواز میں بھونکا، ”آرڈر، آرڈر، میرے مالک جیسے سینئر جج کی موجودگی میں اتنا شور کیوں برپا ہے۔ الزامات کی سیاست نہیں چلے گی۔ اپنے اپنے الزامات کے ساتھ ثبوت بھی لائیں۔ عدالت کا در کھٹکھٹائیں۔ “ شہزاد برکی کا خرگوش فرگو اس سے زیادہ برداشت نہ کر سکا، ”اور سنو! کل ہی خبروں میں سنا کہ ان ہی جج صاحب نے فضل میر کو سرکاری فنڈ میں خرد برد کے الزام سے باعزت بری کیا ہے، ہمارے بھی کانوں میں سب کے کرتوت پڑتے رہتے ہیں۔

جج صاحب بھی بکاؤ ہیں، کیسا انصاف کہاں کا انصاف، اندھیر نگری چوپٹ راج۔ “ جج صاحب نے اس بات کا فوری نوٹس لیا اور شہزاد برکی کو سخت وارننگ دے دی، ”برکی تمہارے اور اس ناہنجار خرگوش کے اوپر توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہو گا، تمہارا پالتو تمہاری زبان بول رہا ہے۔“ شہزاد برکی اس افتاد سے گھبرا گئے۔ شیفری نے کان ہلاتے ہوئے تبصرہ کیا، ”جنگل کا قانون۔ !“ سب جانور تائید میں چلائے، ”جنگل کا قانون، جنگل کا قانون، جنگل کا قانون“ سیٹھ بلگرامی نے گھبرا کر خلیل حسین کی طرف دیکھا، ”خلیل!

بند کر واؤ یہ سب، میری ضیافت برباد کر کے رکھ دی، اچھا تماشا لگادیا یہاں“ خلیل حسین کے کندھے پر بیٹھا طوطا شالم جھٹ بولا ”اب کیوں ٹیں ٹیں کر رہے ہو، سب تمہاری مرضی اور خواہش کے مطابق ہوا ہے، یہ تماشا ، نام، شہرت تمہاری ہی خواہش تھی۔ مالک کی نہیں! “ مسز بلگرامی کی سوشی نے بھی جھٹ جواب دیا، ”تمہارے مالک خلیل حسین نے بھاری منہ مانگی رقم لی ہے اس سب تماشے کی، مفت نہیں کیا سب، اور یہ پراسرار علوم سیکھنے کے لئے کئی گھناؤنے اور کریہہ افعال انجام دیے ہوں گے۔“

اب ہال میں کان پڑی آواز نہیں آ رہی تھی، گھمسان کا رن پڑ گیا تھا، تناؤ کی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی، بے زبان جانوروں کی لگائی گئی آگ میں سب تپ رہے تھے، وہ بری طرح جھگڑ رہے تھے، الزامات، دشنام اور لفظی گولہ باری سے رنگ محل مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا تھا، سب مہمانوں کے جانور ایک دوسرے پر الزامات لگا کر آگ کو ہوا دے رہے تھے، کچھ لوگوں نے گھبرا کر باہر کھسکنے میں عافیت جانی، اچانک سیٹھ بلگرامی مائک پر چلایا، ”گارڈز“ ، مین گیٹ سمیت کوٹھی کے سب دروازے بند کر دو ، کوئی باہر نہ جانے پائے ”، کئی گارڈز چاروں طرف پھیل گئے، کچھ مرکزی ہال میں بھاگتے ہوئے آ گئے، سیٹھ بلگرامی نے ایک گارڈ سے گن چھینی اور مہمانوں کی طرف تان لی،“ کوئی یہاں سے ہلے گا نہیں، جب تک کہ یہ جانور ان رازوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے خاموش نہیں ہو جاتے۔

خلیل فوراً اپنی چھڑی ہر جانور سے چھوتے جاؤ ورنہ میں گولی چلا دوں گا، خلیل حسین ہڑبڑاہٹ میں آگے بڑھا شیفری نے جھٹ ٹانگ آگے اڑائی اور خلیل رپٹ کر نیچے گر پڑا، اس کے ہاتھ میں موجود جادوئی چھڑی دور جاگری جسے چشم زدن میں مائیکا بندر نے دبوچا اور قلابازیاں کھاتا ہوا باہر لان میں بھاگ گیا، دیکھتے ہی دیکھتے سارے جانور اور پرندے اس کی تقلید میں باہر کی طرف بھاگ اٹھے، ”فائر، روکو انہیں“ سیٹھ بلگرامی چلایا، گارڈز نے گنیں تانیں، ہال میں موجود کتوں نے گارڈز پر چھلانگیں لگائیں اور بیشتر ہتھیار گر گئے، فضا میں کئی بے سمت فائر گونج اٹھے چند انسانی چیخیں بلند ہوئیں اور اسی وقت گھڑی نے بارہ کا گھنٹہ بجنے کا اعلان کیا، ایک گھنٹہ ہو چکا تھا، جانوروں کو دی گئی زبان مستقل ہو گئی تھی۔

باہر پولیس کے سائرن گونج اٹھے، کسی نے پولیس کو اطلاع کردی تھی۔ جانور اور پرندے مختلف روزنوں، کھڑکیوں، اور دیواروں کو پھلانگ کر جادوئی چھڑی سمیت فرار ہوچکے تھے، کیسی وفا کہاں کا خلوص! وہ اب انسان کے بے زبان غلام تھوڑا ہی نہ تھے۔ حتی کہ ٹوٹو کچھوا بھی ایک تنگ راستے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، مائیکا بندر نے جانوروں کی قیادت سنبھالی اور راستے میں ملنے والے ہر جانور کو چھڑی سے چھوتا چلا گیا، نتیجتاً کئی جانور بولنے پر قادر ہوتے گئے۔ آج ان کے پاس زبان تھی، زبان جس کی بنیاد پر انسان دنیا کا بلاشرکت غیرے حکمران ہے، زبان جو دنیا کی تمام جنگوں، فساد، لڑائیوں، قتل و غارت کی بنیاد ہے، زبان جو چاہے تو تخت و تاج الٹ دے، کون جانے رنگ محل کے بے زبان جانوروں کو ملنے والی زبان میں کتنے نئے شر چھپے تھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments