نور مقدم اور کرسٹی


ایک عمیق اندھیرا تھا اور گہری کھائیاں تھیں اور گھاٹیاں تھیں جن سے ٹکراتی اور ہاتھ پاؤں چلاتی وہ نیچے گرتی چلی جا رہی تھی مگر راہ میں حائل سمندر تھے۔ بے یقینی کا سمندر، پچھتاوے کا سمندر اور اذیت کا ایسا سمندر جو جو جسم و جاں کا رشتہ ہولناک طریقے سے منقطع کر رہا تھا۔ وہ اپنے پیاروں کو پکارنا چاہتی تھی مگر وقت گزر چکا تھا پھر وہ گہری کھائی میں پوری طاقت سے ٹکرائی اور بس! باہر کی زندگی میں کاروبار زندگی رواں دواں تھا۔

ہم نے بہت دنوں سے کچھ بھی لکھنے پڑھنے کا کام نہیں کیا تھا۔ ایک تو عجیب سا ڈپریشن تھا اور دوسرے ”ہم سب“ کا فارمیٹ بھی کچھ چینج ہو گیا تو ہم نئی چیزوں کو فوری سمجھنے میں قدرے غبی واقع ہوئے ہیں۔ آج نیٹ فلکس کی سیریز fauda ختم کی اور دھندلائے دماغ کے ساتھ کاپی پنسل پکڑ لی۔ اب تو یہ سارے قصے پرانے ہوئے جن پر ہم بات کرنا چاہ رہے ہیں اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا اور ہم تو سمجھتے ہیں کہ دنیا کا جغرافیہ بدل سا گیا مگر بہر حال اب اور کیا کہیں!

پہلے تو عثمان مرزا کا جو قصہ نشر ہوا تو کانوں پر یقین ہی نہیں آیا اور ٹی وی پر چلنے والی خبریں تو دیکھیں مگر ویڈیوز کا جو دھوم دھڑکا تھا اس سے ہم محروم ہی رہے کہ ہم بے حد کمزور دل واقع ہوئے ہیں اور اس طرح کی ”مشہور“ ویڈیوز دیکھنے سے قاصر ہیں۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی اس شخص کی آنکھوں میں جو بے حیائی اور حرام زدگی تھی (مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ حرام زدگی پیدائشی ہوتی ہے سیکھی نہیں جاتی جب کہ حرام زدگی وقت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں پر ہن کی طرح برسنے لگتی ہے اور ہم اس ضرب المثل پر اندھا یقین رکھتے ہیں ) وہ صرف سو کالڈ آرٹ ہندی فلموں کے ان دلالوں کی آنکھوں میں نظر آتی ہے جو اپنے براتھلز میں مسکین عورتوں پر بے پناہ ظلم کرتے ہیں مگر وہ تو ایکٹنگ کرتے ہیں، پیسے لیتے ہیں اور ویسے بھی کافر ہیں بھئی جو نا کریں سو کم ہے مگر ہم تو مملکت خدا داد کے کلمہ گو ہیں سو ہم بھی جو نا کریں وہ کم ہے۔

قرۃ العین کا تعلق شاید حیدر آباد سے تھا اور چار چھوٹے چھوٹے بے حد پیارے معصوم بچے تھے اور اعلی تعلیم یافتہ تھیں مگر شوہر نے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ جب بھی ماں باپ کے پاس گئیں انھوں نے ان کو واپس بھیج دیا کہ مجازی خدا سے ناراضگی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے۔ کوئی صدمہ سا صدمہ تھا کہ نور مقدم نے آ کر ہر کیس کی اہمیت ختم کر دی اور انسانیت پر سے ہمارا اعتبار شاید ہمیشہ کے لئے اٹھا دیا۔

اس قدر ڈرامائی اور دہشت گردی کے اس واقعے نے پوری قوم کو اندرون اور بیرون ملک ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اذیت، خوف اور عجیب قسم کا صدمہ جس نے ہمیں اپنی گرفت لے لیا۔ ہم پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتے تھے مگر آنسو گویا خشک ہو گئے تھے اور نور مقدم کی بے بس موت ہمارے وجود میں اتر رہی تھی۔ ہم اپنے بچوں کو سینے سے لگانا چاہتے تھے جو ہم سے ڈھائی ہزار میل دور رہتے ہیں مگر وہ ہم سے اور ہم ان سے پل پل رابطہ رکھتے ہیں۔ نور کے والدین جب اس کے بغیر بتائے کہیں عدم پتہ ہو جانے پر وہ بھی عید کے موقعہ پر بار بار فون کر رہے تھے، میسج کر رہے تھے مگر جواب ندارد تھا تو آخر کیوں؟ وہ کون سا رشتہ تھا جس کے دوبارہ جڑ جانے پر وہ ماں باپ کی پکار سے بھی غافل ہو گئی اور اس غفلت نے اس کو ایسے بھیانک انجام سے دوچار کر دیا جس کی سالہا سال کہانی کی جاتی رہے گی۔

ظاہر جعفر اور نور مقدم کسی ہارر مووی کے مرکزی کردار معلوم ہوتے ہیں اور ملازمین اور ارد گرد کے لوگ سپورٹنگ جرائم پیشہ ایکٹر لگتے ہیں۔ کیا نور کا ماں باپ کو بتائے بغیر پاسپورٹ سمیت غائب ہونا پہلی بارتھا اور پھر اپنی سہی لوکیشن نا بتانا، نوکر کو کہہ دینا کہ لاہور جا رہی ہوں امی ابا کو بتا دینا۔ آپ یقین کریں کہ امریکہ جیسے آزاد معاشرے میں بھی یہ سب باتیں ”رسک فیکٹرز“ ہیں۔

بہرحال میڈیا اور خبروں میں جو نا بیان ہوتا وہ کم تھا۔

ظاہر جعفر جب پیدا ہوا تو ماں باپ کو کوئی شائبہ بھی تھا کہ یہ ہونہار بروا جوان ہو کر کیا ظلم کمائے گا؟ جی ہاں وہ جانتے تھے کیونکہ جو کلچر انھوں گھر میں فروغ دیا اس کا اور نتیجہ کیا نکلنا تھا۔

دولت اور اختیار کا اندھا استعمال، مادر پدر آزادی کا کیڑا کسی بھی کروٹ شاید بیٹھنے نہیں دیتا۔ اب مختلف چینلز پر کچھ لوگوں اس کیس کے بارے میں روز کے روز رپورٹس نشر کرنی شروع کی ہیں مگر وہ اس قدر سطحی ہیں کہ اتنے خوفناک واقعے کے بارے میں مذاق لگتی ہیں۔ نور مقدم کی جان بچانے کی جد و جہد کو بار بار دوہرایا جا رہا ہے جو بذات خود ایک بے رحمانہ رویہ ہے۔

یہاں تک ہم نے تب لکھا جب معاملہ بالکل نیا تھا مگر پھر صحت کے گوناگوں مسائل کا شکار ہو کر مکمل نا کر سکے تو اب دوبارہ قلم تھامتے ہیں۔

کچھ ہفتے پہلے جب یہ خبر پڑھی کہ کرسٹی مینزنیرز کا شوہر کینتھ مینزنیرز الاسکا جیل میں گزر گیا ہے تو کچھ خاص حیرت نا ہوئی کہ جو لوگ ایک لگژری لائف گزارتے ہیں جیل میں کیونکر رہیں مگر کون ہیں یہ کرسٹی اور کینتھ؟

یوٹاہ کے امیر و کبیر میاں بیوی جو ایک نوجوان بیٹی اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ الاسکن لگژری کروز ’ایمرلڈ پرنسز‘ پر تفریحی سفر کر رہے تھے اور اسی کروز پر کرسٹی کا باپ اور بھائی بھی ہمراہ تھے۔ دوران سفر دونوں میاں بیوی میں تکرار ہوٖئی اور آوازیں سن کر بچے بھی اپنے اور ماں باپ کے کیبن کا درمیانی دروازہ کھول کر اندر آ گئے۔ کرسٹی نے شوہر سے فوری طلاق کا مطالبہ کیا اور اس کو قریبی منزل پر جہاز چھوڑنے کا بھی کہا تو کینتھ نے بچوں کو اپنے کیبن میں جانے کی ہدایت کی۔

بچے اپنے کیبن میں چلے گئے مگر فوراً ماں کی چیخیں سن کر واپس آنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ باپ ان کی ماں کو لوہے کی مٹھیاں چڑھا کر مار رہا تھا۔ بچوں نے چیخ و پکار کرتے ہوئے نانا اور مامؤں کو مدد کے لئے بلایا اور جب تک وہ آئے کینتھ کرسٹی کو ہلاک کر کے اس کی لاش سمندر میں ہھینکنے کوشش کر رہا تھا۔

رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد مقدمہ چلنے کا سلسلہ شروع ہوا تو مدعیان میں کرسٹی کا باپ بھٰائی اور بچے شامل تھے۔ وکیل صفائی نے کینتھ کو ڈرگ ایڈکٹ، الکوحلک، دماغی خلل اور بچپن کی محرومیوں کے باعث کھسکا قرار دیا اور واردات کے وقت غصے کے دورے کے سبب ہوش و حواس سے عاری کہا مگر

کچھ نہ دوا نے کیا

اور جیوری نے تیس سال کی قید کی سزا سنائی۔ یہ مقدمہ دو سال کے اندر اپنے انجام کو پہنچا۔ کینتھ کے لئے بڑے بڑے لوگوں نے سفارش نہیں لڑائی بلکہ بقائمی ہوش و حواس کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ان ممالک میں انسانی جان کی حرمت کو چیلنج کرنا آسان نہیں ہے یہ تو ہماری مملکت خداداد ہے جہاں علی اعلان ایک بے بس لڑکی (جو کہ خود بھی ایلیٹ کلاس سے ہے ) کا سر تن سے جدا کر دیا جائے اور ماں باب لاش ٹھکانے لگانے اور بیٹے کو فکر نا کرنے کے مشورے دیں۔

خواتین پر تشدد اور قتل و غارت ہر معاشرے میں ہے مگر فرق ہے تو ان واقعات سے نپٹنے کی اپروچ میں، اگر ترقی یافتہ ممالک میں قاتل وکٹری کا نشان بناتے عدالت سے باہر نکلے گا تو شاید دن کی روشنی زندگی میں دوبارہ نا دیکھے گا اور اس کو نشانہ عبرت بنائے جانے میں کوئی کثر نا چھوڑی جائے گی۔

بے بس اور مظلوم خواتین کی داد رسی فوری اور آہنی شکنجے سے ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ مجرمان کو کسی بھی قسم کی رعائت تو درکنار جیلوں میں بھی ان کی زندگی مشکل کر دینی چاہیے۔

نور مقدم اور کرسٹی دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں صنف نازک سے تھیں، اپنے اپنے معاشرے کی اپر کلاس سے تعلق رکھتی تھیں مگر بے گناہ اور المناک موت کا شکار ہوئیں۔ یہ تصور کے مغرب میں عورت محفوظ ہے کچھ اتنا حقیقت پر مبنی نہیں ہے مگر انصاف کا ترازو مکمل تولنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔

کچھ اور کہنا چاہتے ہیں مگر خوف ہے کہ کچھ دوستوں کو ناگوار نا گزرے بہرحال کہنا ہے کہ مہربانی سے اپنے بچوں کو وقت دیں اور ان کی تربیت میں ”سہی اور غلط“ کو بھی دھیان میں رکھیں۔ ان کی دوستیوں پر نظر رکھیں اور مادر پدر آزاد لور لور پھرنے ادھر ادھر ’سلیپ اوورز‘ کی اجازت نا دیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ جو تاثر ہے کہ مغرب میں کوئی ’لتھی چڑھی‘ نہیں بالکل غلط ہے۔ یہ لوگ اپنے بچوں ہر بہت توجہ دیتے ہیں اور پیسہ خرچ کرتے ہیں اور ان کے مستقبل بناتے ہیں باقی ہر طرح کے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔

اپنی بیٹیوں سے بہت محبت کریں ان کی خواہشات اور ضروریات کو ترجیع دیں اعلی تعلیم دلوائیں ان کی پسند نا پسند کا شادی کے وقت خیال رکھیں مگر ان کی پرورش میں کچھ حدود ضرور مقرر کریں اور بالکل ایسے ہی بیٹوں کو بھی ایک خاص عمر تک نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ سوسائٹی میں شر کا باعث نا بنیں۔ اللہ سب کو اولاد کی آزمائش سے محفوظ رکھے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments