ڈھکے چہرے بے نقاب!


پاکستان میں انتخابات سے پہلے ووٹوں کی خریداری، انتخابات کے دوران دھاندلی اور انتخابات کے بعد منتخب نمائندوں کی وفاداریاں تبدیل کروانا معمول کی باتیں سمجھی جاتی ہیں، پاکستان میں کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ایسی نہیں رہی ہے کہ جس نے انتخابی دھاندلی کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے، یہاں انتخابی دھاندلی کا شور مچانے کے ساتھ انتخابی بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری بھی رکھا جاتا ہے، گزشتہ دنوں لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 133 کے ضمنی انتخابات میں دو دو ہزار روپے کے عوض ووٹ بیچنے کی وڈیو سامنے آئی ہے، اس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ووٹ کو دو ہزار میں بیچتے ہوئے کتنی عزت دی جا رہی ہے، اس ویڈیو پر الیکشن کمیشن نے فوری نوٹس لیتے ہوئے فارنزک آڈٹ کا حکم دیا ہے، اس سے جہاں وڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتہ چلے گا، وہاں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کرنے والے کون لوگ ہیں۔

یہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ دنیا میں سماجی اور سیاسی حوالے سے آنے والی بے شمار مثبت تبدیلیوں کا اثر ہم نے قبول نہیں کیا ہے، ہمارے ہاں آج بھی انتخابات میں سیاسی جماعتیں اور شخصیات اسی طرح سے شریک ہوتی ہیں کہ جیسے آج سے پانچ چھے دہائیاں پہلے شریک ہوا کرتی تھیں، سیاسی قیادت اپنے اقتدار کے حصول کے لئے غریب کی بے بسی سرعام خریدتی ہیں اور اس کا اقرار بھی نہیں کرتی ہیں، اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ پورا سیاسی نظام ہی اپنی ساکھ کھو بیٹھا ہے اور اس نظام سے عام آدمی کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے، لیکن سیاسی قیادت ان سب باتوں سے بے پرواہ اقتدار کے حصول میں سب کچھ کر گزرنے پر یقین رکھتی ہے۔

پاکستان میں انتخابات سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک بدعنوانی کا شور صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہی لگایا جاتا ہے، یہاں کوئی بلا امتیاز احتساب کرنا چاہتا ہے نہ انتخابی بدعنوانی کا خاتمہ چاہتا ہے، یہاں سب دعوے اور نعرے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے لگائے جاتے ہیں، اس ملک کے ہر ادارے کے اعلی عہدیدار اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے، ووٹ کی خرید فروخت بھی ہوتی ہے، جعلی ووٹ بھی ڈالے جاتے ہیں، مگر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی سد باب کے اقدامات سے گریز کیا جاتا رہا ہے، اس بار حکومت انتخابی اصلاحات کے لئے اپوزیشن کو مشاورت پر آمادہ کرنے کی بہت کوشش کرتی رہی ہے، مگر اپوزیشن عدم تعاون پر بضد رہی ہے، کیو نکہ انتخابی اصلاحات میں اسے اپنا نقصان نظر آتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ملک کی سیاسی قیادت قومی اور عوامی مفاد کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں، اس کے لیے سب نا جائز بھی ان کے لئے جائز ہے، اگر این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں مبینہ طور پر ووٹ خریدنے کا معاملہ ویڈیو کے ذریعے سامنے نہ آتا تو ایک بار پھر نوٹ سے ووٹ کو عزت مل جانی تھی، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہونے کے الزامات لگا رہی ہیں، مسلم لیگ ( ن) نے الیکشن کمیشن کو تحریری درخواست دی ہے کہ پیپلز پارٹی ووٹ خرید رہی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ ووٹ خریدنا ہمارا شیوہ نہیں، یہ مسلم لیگ ( ن ) کی روایت ہے، اس دو طرفہ الزام تراشی سے کس کا فائدہ اور نقصان ہو گا، البتہ تحریک انصاف کو دونوں کی ساکھ برباد کرنے کا موقع ضرور مل گیا ہے ۔

اپوزیشن جیسے ہاتھ آئے کسی موقع کو ضائع نہیں کرتی، اسی طرح حکومتی نمائندے بھی طنز کے سارے تیر چلا رہے ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کیا دو دو ہزار میں ووٹ خریدنا، ووٹ کو عزت دینا ہے؟ جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو نا اہل قرار دے، لیکن اصل معاملہ ووٹوں کی خرید و فروخت کے ذمہ داروں کا پتہ لگانا ہے، اس کے لئے ویڈیوز کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے اور ان ویڈیوز میں موجود ڈھکے چہروں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے، اس ویڈیوز کے ذریعے ہنگامہ برپا کرنے والے عناصر کو قوم کے سامنے لایا جانا بے حد ضروری ہو گیا ہے ، یہ کام بظاہر قدرے مشکل لگتا ہے، لیکن اس بار کوشش ضرور ہونی چاہیے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے اور ڈھکے چہرے بے نقاب کر کے سزا دی جائے، اگر اس کھیل میں کوئی سیاسی جماعت یا ان کے کارکن ملوث ہیں تو ذمہ دار اداروں کو بلا تفریق ایکشن لینا چاہیے اور اگر کچھ عناصر اس طرح کی فیک ویڈیوز سے ماحول کو گندا کر کے سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں جمہوری نظام کو آلودہ کر رہے ہیں تو ایک بار دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور ہونا چاہیے، اگر اس بار ڈھکے چہرے بے نقاب ہو گئے تو عام آدمی کا نظام سے اٹھتا اعتماد دوبارہ بحال ہو جائے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments