دسمبر کا مہینہ اور پاکستان



دسمبر کا ستم گر مہینہ دوبارہ آ پہنچا ہے۔ قمری سال کے اس آخری مہینے کی آمد پر پاکستانیوں کے زخم ایک بار پھر ہرے ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ دسمبر میں ریاست پاکستان کی نا اہلی، کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے قوم کو تین بہت بڑے حادثات دیکھنے کو ملے۔ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ ہماری کمزور حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان کی بہادر فوج کو دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ 16 دسمبر 2014 کی ہی ایک صبح آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں پر دہشت گرد قہر بن کر نازل ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں سو سے زائد بچوں سمیت چند اساتذہ کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ 27 دسمبر 2007 کی ایک سرد شام پاکستان کی پہلے خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو بزدل دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمہ اجل بنیں۔

دین اسلام نے ہمیں مرد ہونے کی حیثیت سے عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ لیکن دہشت گرد کتنے ظالم اور سنگدل تھے۔ جو معصوم بچوں اور خواتین کا خون بہانے سے بھی نہیں کتراتے تھے۔ یہ کیسی بہادری اور مردانگی تھی۔

27 دسمبر کی وہ خونی شام مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب پنڈی کا پورا شہر سنسان اور ویران جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ جنرل ہسپتال کے ایمرجنسی بلاک کے آپریشن تھیٹر میں پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کا لاشہ پڑا ہوا تھا۔ جو لیاقت باغ سے نکلتے وقت دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو باوجود اس کے سیکورٹی تھریٹس موجود تھے۔ حکومت پاکستان نے غفلت کا مظاہرہ کیا اور انہیں فول پروف سیکورٹی مہیا نہیں کی۔

ممکنہ دہشت گردی کی واضح اطلاع کو پیش نظر رکھتے ہوئے لیاقت باغ کے بیرونی گیٹ پر موجود لوگوں کو ہٹا کر ان کی واپسی کا راستہ کلیئر کرا دینا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہ کر کے حکومت نے اپنے خلاف پیدا ہوئے شکوک شبہات بڑھا دیے۔ بے نظیر شہید نے پرویز مشرف، چیف منسٹر پنجاب اور اس وقت کے آئی بی چیف پر اپنے خلاف سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ دراصل محترمہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا۔ کہ سٹیٹ کی طرف سے ان کے لیے ناقص سیکورٹی انتظامات کرنا دہشت گردوں کی بالواسطہ مدد کے مترادف تھا۔

اے پی سی پشاور میں بزدل اور سنگدل دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے معصوم بچوں کی کل کائنات کتابیں، کاپیاں اور سکول بیگ تھے۔ ان کے دل میں بڑا آدمی بننے کی لگن اور جستجو تھی۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔ کہ دسمبر کا کوئی سرد دن ان کی زندگی کے صفحے کو پھاڑ کر پھینک دے گا۔ اس طرح ان کے حسین خواب کرچی کرچی کر دیے جائیں گے۔ 16 دسمبر کا وہ سیاہ دن ایک ڈراؤنا خواب بن کر زندہ بچ جانے والے بچوں کے ذہن پر چپک چکا ہے۔ شاید ہی وہ اس بربریت کو بھلا سکیں گے۔

ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے، ریاست ان بے رحم درندوں کو معافی دے کر قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے۔ جو ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ جنہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ معصوم انسانوں کا خون بہاتے ہوئے گزار دیا۔ جن کی وجہ سے ملک کی معیشت زوال پذیر ہوئی اور لوگوں کے حواس پر خوف کے سائے کافی عرصے تک چھائے رہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا ایسے عناصر معاشرے میں دوبارہ فساد پھیلانے کا موجب نہیں بنیں گے۔ یا معاشرہ ان ظالموں کو آسانی کے ساتھ قبول کر لے گا۔

جنرل امیر عبداللہ نیازی نے 16 دسمبر کے ایک سیاہ ترین دن ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل اروڑہ کے ساتھ بیٹھ کر شکست کی دستاویز پر دستخط کیے۔ اور اپنا اسلحہ اور نوے ہزار پاکستانی فوجی دشمن کے حوالے کر دیے۔ تاریخ میں اتنے بڑے سرینڈر کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک عظیم المیہ تھا۔ جو پاکستانی عوام کے لیے ندامت اور شرمندگی کا باعث بنا۔ ہم نبی پاکﷺ کے پیروکار تھے اور ہیں۔ ہم نے اتنے بڑے لشکر کی موجودگی کے باوجود ہتھیار کیوں ڈال دیے۔ اس سوال کا جواب ابھی تک عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔

دراصل اس وقت کا حاکم شراب اور شباب کے نشے میں کھویا ہوا تھا۔ وہ سپاہ گری اور شمشیر زنی کی طرف کیا توجہ دیتا۔ وہ تو پائل کی چھن چھن سننے اور حسین اور دلکش حسیناؤں کے جسم نوچنے میں مگن تھا۔ یہ بڑے افسوس اور شرم کا مقام ہے۔ کہ اس شکست خوردہ کمانڈر کو بڑی عزت اور وقار کے ساتھ گارڈ آف آنر دے کر سپرد خاک کیا گیا۔

مسلمانوں نے ڈکشنری سے شکست کا لفظ اس وقت کھرچ ڈالا تھا۔ جب نبی پاکﷺ نے غزوہ بدر میں 313 بہادر ساتھیوں کی قلیل تعداد کے ساتھ ایک بہت بڑے لشکر کو شکست فاش سے دوچار کر دیا تھا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بحیثیت مسلمان ہمارے جہاد کے جذبے کو زنگ کیوں لگ گیا تھا۔ ہم اپنی عظیم تاریخ کیوں بھلا بیٹھے تھے۔

ہتھیار ڈالنے کے بعد جنرل نیازی بھارتی کمانڈر اروڑا کو ڈھاکہ کے آرمی میس لے گئے۔ اور وہاں فاتح جنرل کو لذیذ کھانے پیش کیے۔ اور اسے دلچسپ لطیفوں سے محظوظ کرتے رہے۔ اس وقت جنرل نیازی کے چہرے پر شرمندگی اور ندامت کے ہلکے سے آثار بھی موجود نہیں تھے۔

اگر کوئی جرنیل، جج یا حکمران اپنے حلف کی روح کے مطابق ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہو۔ تو اس صورت میں اس کا احتساب کیسے ہو گا۔ ہتھیار ڈالنے والے کمانڈر، انصاف کا ترازو برابر نہ رکھنے والے منصف اور ملک کو دیوالیہ کرنے والے حکمران سے جواب کون سا فورم طلب کرے گا۔ قوم ان سنجیدہ سوالوں کا جواب طلب کرنے کا حق رکھتی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار جو بڑی سفارشوں کے ساتھ پہلے لا سیکرٹری اور بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے۔ اس وقت سنگین الزامات کی زد میں ہیں۔ بجائے اس کے ان الزام کی چھان بین کی جاتی۔ الٹا آڈیو بریک کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ چکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس نے اپنی ملازمت کے دوران جو کارنامے انجام دیے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔

موصوف کورٹ روم میں بیٹھ کر مقدمات سننے کے بجائے ہسپتالوں، شفا خانوں اور دیگر مقامات کا رخ کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ وہ شاید اپنے آپ کو ڈیفیکٹو وزیراعظم سمجھنے لگے تھے۔ کیا آئین انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتا تھا۔ موصوف سرکاری ملازمین، وزراء اور سیکرٹری حضرات کو کورٹ روم میں کھڑا کر کے ان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا کرتے۔ ان کے آگے کوئی چوں بھی نہیں کر سکتا تھا۔

مشہور کالم نگار ذوالفقار احمد چیمہ جو ثاقب نثار کے دوست ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک تازہ کالم میں ان کی اصلیت کھول کر بیان کردی ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے بظاہر آج جوڈیشری نے انصاف کے مختلف معیار اور پیمانے مقرر کر دیے ہیں۔ ایک طرف نسلہ ٹاور کراچی کو گرانے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف گرینڈ حیات ٹاور اسلام آباد اور عمران خان کی بنی گالہ میں واقع 300 کنال کی غیرقانونی رہائش گاہ کو این او سی جاری کر دیا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری پارلیمان قانون تو بنا لیتی ہے مگر اس پر عملدرآمد کرانا اس کی پہنچ سے دور کر دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ پارلیمان کو نامعلوم افراد کی طرف سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ اقلیتی ووٹ رکھنے والا سینیٹ چیئرمین جمہوریت اور آئین کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپوزیشن اکثریتی ووٹ رکھتے ہوئے بھی اسے عہدے سے ہٹانے کی جرات نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ اس کے چند ووٹ ایجنسی کی ایک فون کال کی مار ہیں۔ محض اسی وجہ سے ہماری پارلیمان مفلوج ہو چکی ہے۔

یہ ہمارے نظام کی ناکامی اور ملکی معیشت کی تباہی کا مظہر ہے۔ محض اسی وجہ سے نا اہل حکمران کشکول اٹھائے در بدر کی خاک چھان رہے ہیں۔ اور ذلت آمیز شرائط پر قرضے حاصل کیے جا رہے ہیں۔

آج ہم اپنی عزت، وقار اور خودداری بیچ کر کھا چکے ہیں۔ اور پوری دنیا ہمارا مذاق اڑانے میں مصروف ہے۔ لیکن ہم اپنے اقتدار اور عہدے کو طول دینے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ اونچے عہدے پر براجمان شخصیات کو جب اس کی اوقات سے زیادہ طاقت اور اختیار ملتا ہے۔ تو اس کی آنکھیں چندیا جاتی ہیں۔ اور وہ اپنی کھال سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔

جب تک جنرل مارک ملی کی طرح نیازی جیسے کسی نااہل جنرل کو پارلیمان کے سامنے جواب دہ نہیں بنایا جائے گا۔ جب تک بنگلہ دیش کے مجرمانہ طرز عمل کا مرتکب ہونے والے سابق جسٹس کی طرح کسی پاکستانی سابق جج یا چیف جسٹس کو پابند سلاسل نہیں کیا جائے گا۔ نہ پارلیمنٹ سپریم ہوگی اور نہ ہی آئین کا وقار بحال ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments