جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات اب آہستہ آہستہ طشت از بام ہو رہی ہیں۔ یہ تفصیلات حیران کن ہیں۔ ان تفصیلات کے مطابق پاکستان میں آنے والے دن کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش یا حوصلہ افزا نہیں ہوں گے بلکہ پریشان کن ہوں گے۔
وزیراعظم صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ قرض لینے والی قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ میں اگر وزیراعظم پاکستان ہوتا تو خود کشی کر لیتا لیکن عالمی مالیاتی اداروں کے پاس کبھی نہ جاتا۔ آپ سوچیں کہ جب کسی ملک کا وزیراعظم جگہ جگہ ملکوں کے سا منے ہاتھ پھیلائے اور بھیک مانگتا پھرے کہ مجھے قرض دے دیں تو کیا اس سے قوم اور ملک کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ”
یہ اور ایسی بے شمار باتیں بہت سارے پا کستا نیوں کو بہت پسند آئیں کیونکہ یہ ان کے دل کی آواز تھی اور الفاظ کی شدت ہی احساس کی ترجمانی کرتی ہے لیکن پھر چشم فلک نے وہ دن بھی دیکھا جب ایک بقراط العصر نے یہ گوہر نایاب ارشاد فرمایا کہ اپنے بیان سے پھرنا ہی عظیم لیڈر کی نشانی ہے اور اپنی بات سے مکر جانے والا ہی عزیمت کی منزل کو پہنچ سکتا ہے۔
آج اسی نابغہ روزگار کی پاکستان میں حکومت ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کا ملازم، مملکت خداداد کے مرکزی بینک کا گورنر ہے جس کے لیے پاکستان کے پارلیمان نے قانون تحفظ پاس کیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کا آج کی دنیا میں بالکل وہی کردار ہے جو کسی وقت میں بر صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا۔
بہرحال جو تفصیلات ابھی سامنے آئی ہیں ان کے مطابق پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ جب کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں لگ بھگ دس ڈالر فی بیرل کی کمی واقع ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان کا رواں سال کا ترقیاتی بجٹ نو سو ارب روپے تھا اور اب عالمی مالیاتی ادارے کے حکم پر اس بجٹ میں تین سو ارب کی کٹوتی کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں مرکزی بینک اور اس کا گورنر احتساب سے بالاتر ہوں گے کیوں کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے کے تحت کام کر رہے ہیں اور اس کے مفادات کی حفاظت کے لئے کام کر رہے ہیں۔
موصوف جو کہ ملازم تو عالمی مالیاتی ادارے کے ہیں لیکن تنخواہ ریاست پاکستان سے وصول کر رہے ہیں اور ان کو مرکزی بینک کے گورنر کا عہدہ بھی حاصل ہے۔ یہ اس سے پہلے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے مصر میں موجود تھے۔ کیوں کہ مصر نے بھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض حاصل کیا ہوا ہے اور اور موصوف وہاں اس کے نگران تھے۔ انہوں نے عالمی مالیاتی ادارے کے مفادات کا تحفظ بھرپور انداز سے کیا اور مصر کی معیشت کو درست کر سیدھا پاکستان آئے ہیں۔
مصر کی معیشت کی اس وقت کیا صورت ہے، آئیے مستقبل کے آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہیں۔ مصر کی آمدن اٹھاون ارب ڈالر ہے جب کہ اخراجات چھیانوے ارب ڈالر ہیں۔ مصر کا کل قرض اس وقت ایک سو اڑتیس ارب ڈالر ہے اور قرض کا سالانہ خرچہ پینتیس ارب ڈالر ہے۔ مصر میں بھی اس وقت آمریت قائم ہے اور مصر کے عبد الفتاح السیسی بھی ایک مطلق العنان آمر ہیں اور مصر کے مفادات اور مصری قوم کی خدمت کے اسی جذبے سے سرشار ہیں جس جذبے سے پاکستان کے خان صاحب۔
کرونا امداد کی مد میں ملنے والے فنڈ کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق امدادی فنڈ کی رقوم میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہیں، اس کے مطابق تین سو پچاس ارب روپے کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے اور دو سو ارب کا ریکارڈ ملا ہے جس میں چالیس ارب کی خرد برد ہے۔ پشاور ریپڈ بس منصوبہ جو کہ ابتدا میں چالیس ارب کا تھا لیکن ایک سو بیس ارب سے بھی زیادہ میں مکمل ہوا اس پر حکومت وقت نے عدالت سے حکم امتناع لے رکھا ہے۔ راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے کے بارے میں بھی اربوں کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔
چینی، گندم، آٹا اور پیٹرولیم بحرانوں کی بازگشت ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ گیس کے پے دار پے بحران شفافیت کی کوئی اور ہی داستان سنا رہے ہیں۔ اس تمام کے ہنگام، پنڈورا پیپرز کے انکشافات بھی مالی بدعنوانیوں کی الگ داستان ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت وقت نے لگ بھگ اکیس ہزار ارب کا قرض لیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے لیکن اتنے قرض کے باوجود عوامی فلاح کا کوئی قا بل ذکر منصوبہ مکمل تو درکنار شروع بھی نہیں ہو سکا۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ :
” میں لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا ہوں“ اس لیے یہ اقتدار عارضی اور امانت ہے کائنات کے حاکم کی طرف سے اور مشروط ہے احتساب سے۔ اس ذمہ داری کو امانت، قا بل احتساب اور قا بل گرفت سمجھ کر خوف خدا کے سائے میں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے ہی تاریخ میں سرفراز و کامران ٹھہرتے ہیں۔ ریاست اور عوام کی خدمت اور خیر کے فیصلے کرنے والے درد مند ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں باقی سب تاریخ کے کوڑے دان میں۔ اندور کے قادر الکلام شا عر نے کہا تھا :
” جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
”کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے“
- اک گوہرِ مراد جو غلط جگہ پیدا ہوا - 31/12/2022
- عمران خان: شخصیت ، کارکردگی اور عزائم - 16/06/2022
- معیشت کی بحالی کے ناکافی اقدامات - 11/06/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).