بدل جاتی ہے قسمت دعا سے



”اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ (النساء 32 ) ۔

ہماری زندگیوں میں دعاؤں کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔ ہم اپنے لیے دعائیں کرتے بھی ہیں اور دوسروں سے دعائیں کرواتے بھی ہیں اس یقین کے ساتھ کہ ہماری دعا گر فوری قبول نہ بھی ہو تو شاید کسی اور کی خلوص دل سے ہمارے حق میں کی گئی دعا قبول ہو جائے۔ دعا لینا اور دعا دینا ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق ہے مگر جس طرح دعا کرنے کے آداب ہیں اسی طرح دعاؤں کو سمیٹنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ دعاؤں کو سمیٹنے کے آداب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دعا دینے والے کا اپنا ظرف ہوتا ہے مگر دعا لینے والے کو بھی اپنا دامن وسیع رکھنا چاہیے اور دعاؤں کو خوبصورتی سے اپنے دامن میں سمیٹنے کا ہنر آنا چاہیے۔

آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں ہر دوسرا شخص حسد اور جلن جیسی بیماری میں مبتلا ہے وہیں دوسروں کی ہمارے حق میں کی گئی پرخلوص دعائیں نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ معاملات زندگی میں برکت کے اٹھ جانے کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ شاید یہ بھی ہے۔

نفسا نفسی کے اس دور میں جو دعائیں ہمیں بے ساختگی سے دی جا رہی ہیں انہیں اتنی ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ دعا تو دعا ہوتی ہے۔ دعاؤں کی برکت سے ہی بگڑے کام بن جاتے ہیں اور ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔

”جو بلا اتر چکی اور جو نہیں اتری، دعا ان سے نفع دیتی ہے۔“ (ترمذی، ج 5، ص 322، حدیث: 3559 )

جب دعائیں ملتی ہیں تو دعاؤں کو سمیٹنا سیکھیں۔ کچھ معلوم نہیں ہوتا کون سی جگہ اور کون سی گھڑی قبولیت کی ہے۔ آپ کو دی گئی دعا کے ردعمل میں آپ کے منہ سے نکلے ہوئے بے ساختہ منفی الفاظ اللہ کو ناگوار گزر سکتے ہیں۔ قدرت یقیناً آپ کے لیے بہترین سوچتی ہے مگر جب یہی منفی الفاظ گرفت میں آ جاتے ہیں تو دعا پلٹ جاتی ہے۔ بس پھر وقت گزرنے کے بعد شرمندگی اور ندامت ہی حصے میں آتے ہیں اور فقط پچھتاوا باقی رہ جاتا ہے۔

لوگ جانے انجانے میں محض لمحاتی زبانی لغزش کے نتیجے میں برسوں اس کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بے شک دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے مگر زبان گرفت میں لے آتی ہے اور میرے رب کی پکڑ بہت مضبوط ہے۔ اکثر توبہ کرنے کی سمجھ اور عقل بھی اس وقت آتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔

دراصل اس تحریر کا محرک ایک آنکھوں دیکھا واقعہ ہے جب ایک جاننے والی فیملی کے چار بچوں میں سے تین بچوں کی شادیاں آگے پیچھے ہوئیں۔ بس ایک بیٹی باقی رہ گئی تھی جو اس وقت یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی۔ بچوں کے نکاح کے فوری بعد اسٹیج پر بچوں کی والدہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کسی عزیزہ نے کہا کہ اللہ آپ کو جلد ہی اس بچی کے فرض سے بھی سبکدوش کرا دے تو ماں نے (جو خوشی خوشی مہمانوں سے اپنے بچوں کے نکاح کی مبارک باد وصول کر رہی تھیں ) اٹھلاتے ہوئے کہا ارے نہیں بھئی ابھی اتنا جلدی تو نہیں، اب تو میں اپنی بیٹی کی شادی آرام سے ہی کروں گی۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔

وہ عزیزہ اپنی پرخلوص دعا کا یہ ردعمل دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں اور ان کے اطراف میں موجود دیگر خواتین نے بھی اپنی اپنی دعائیں روک کر محض مبارکباد دینے پر ہی اکتفا کیا۔

کچھ لوگوں کے نزدیک بظاہر یہ معمولی سی بات ہوگی مگر ایسا نہیں ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ بیٹی کے اچھے مستقبل کے لیے دی جانے والی وہ خوبصورت سی دعا سمیٹ لی جاتی، سنبھال لی جاتی اور خوش ہو کر دل سے آمین کہا جاتا، مگر اس کے برعکس اس قبولیت کی گھڑی کو گنوا دیا گیا۔ آج اتنے برس ہو گئے وہ بچی تعلیم مکمل ہونے کے باوجود بھی آج تک اپنے ماں باپ کے گھر بن بیاہی بیٹھی ہے۔ رشتے آتے رہے مگر ماں کی اس سلسلے میں سکون و اطمینان والی بات پوری ہو گئی۔ وقت نکل گیا۔ آج بھی اس لمحے کی خلش ماں کو شدت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ ہر ایک سے دعا کرواتی ہیں اس امید کے ساتھ کہ نہ جانے کس کی دعا ان کی بچی کے حق میں قبول ہو جائے۔

غور کیجئے! ہمیں نہیں معلوم کب کس وقت کون سی بات اللہ کو بری لگ جائے لہذا ایسے مواقعوں پر زبان کو قابو رکھنا اور دعاؤں کو اپنے دامن میں سمیٹنا سیکھیں تاکہ وہ آپ کے حق میں محفوظ ہو جائیں۔

بعض اوقات ہمیں دعاؤں کی سمجھ نہیں آتی۔ ہم انہیں اپنے انداز سے اور اپنے فائدے کے ترازو میں رکھ کر تول رہے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارا ذہن انہیں اسی طرح من و عن تسلیم نہیں کر پاتا۔

لوگ اک عمر گزار لیتے ہیں، تجربہ کار ہو جاتے ہیں مگر کچھ بنیادی باتوں کو سیکھنے سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارے اطراف ایسے ہی نہ جانے کتنے لوگ روزمرہ کے مشاہدے میں نظر آتے ہیں جو اپنی زبان کے باعث نہ صرف خود خسارے میں ہوتے ہیں بلکہ اپنے سے وابستہ لوگوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

رب کریم کے جلال کو نہ للکاریں۔ منکسر المزاج رہیں۔ بحث مباحثوں اور خاندانی جھگڑوں میں لوگ عموماً تمام حدود پار کر جاتے ہیں۔ خاندانی معاملات میں خود کو حاوی رکھنے کے چکر میں شر انگیز باتیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انسان کی جھوٹی اکڑ اور شان اس کو کہیں کا نہیں چھوڑتی، رسوا کر دیتی ہے۔

راقم الحروف کے مشاہدے میں ایک واقعہ ایسا بھی آیا جب دو بھائیوں کے مابین ہونے والے خاندانی جھگڑے میں ایک رشتے دار نے صلح صفائی کرانے کی نیت سے، جمعہ کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے چھوٹے بھائی کو روکا اور حال احوال دریافت کرتے ہوئے دعا دی کہ اللہ آپ بھائیوں کو ہمیشہ ملا کر رکھے، آپ لوگوں کا باہمی اتفاق قائم رہے اور ساتھ ہی سمجھایا کہ آپ چھوٹے ہیں۔ آپ اپنا دل بڑا کر لیجیے۔ بڑا بھائی نہیں مل رہا اور نہیں جھک رہا تو آپ اپنے بڑے بھائی سے جھک کر مل لیں۔ زندگی کا کیا بھروسا، آج ہے کل نہیں آپس میں کم از کم دل تو صاف کر لیں، خونی رشتے ہیں ان رشتوں کا احترام رکھیں۔

مگر چھوٹے بھائی کا تکبر دیکھنے لائق تھا۔ بڑے کروفر سے جواب آیا کہ آپ یہ دعا ہمارے بڑے بھائی کو دیجیے اور ان کو ہی سمجھائیے۔ میں مرتا مرجاؤں گا مگر کم از کم اپنے بڑے بھائی کے آگے نہیں جھکوں گا۔ میں کیوں معافی مانگوں وہ خود آئیں اور مجھ سے معافی مانگیں۔ اگر واقعی بڑے ہیں تو۔

یہ سب سن کر وہ صاحب مزید کیا کہتے چھوٹے بھائی کو ہدایت کی دعا دے کر اپنی راہ ہو لیے۔ دیکھیں لفظوں کے غیر محتاط استعمال سے کس طرح مظلوم بھی اکثر ظالم بن جاتے ہیں۔ بازی پلٹ جاتی ہے کیونکہ اللہ کو گھمنڈ اور تکبر قطعی پسند نہیں۔ جمعہ کا دن، دعاؤں کی قبولیت کا وقت اور جب مسجد کے باہر کھڑے ہو کر بھی انسان فرعون بننے کی کوشش کرے تو بس اللہ کے قہر کو ہی للکارتا ہے۔

زبان کی پکڑ کتنی شدید ہوتی ہے یہ سب صرف سمجھنے والوں کے لیے ہے ورنہ کچھ نہیں۔

ایک مہینے سے بھی کم وقت کے اندر چھوٹے بھائی کے منہ کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ نکلا، جسے کچھ دن انہوں نے نظر انداز کیا اور حکیمی علاج کی طرف متوجہ رہے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دانہ ناسور کی شکل اختیار کر گیا۔ تکلیف جب حد سے سوا ہوئی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا اور ٹیسٹ کرانے پر منہ کے کینسر میں مبتلا ہونے کا لرزہ خیز انکشاف ہوا۔ کچھ ہی ہفتوں میں وہ منہ کے کینسر کے تیسرے اسٹیج پر جا پہنچے تھے۔ اس اسٹیج پر مرض کی اس نوعیت کے ساتھ ڈاکٹرز بالکل بھی پر امید نہیں تھے۔

اب حال یہ تھا کہ چھوٹے بھائی کو اپنی اس زبانی لغزش پر اللہ کی گرفت سمجھ آ رہی تھی۔ اپنے کہے گئے جملے یاد آ رہے تھے۔ بیماری نے ساری جھوٹی اکڑ اور مزاج کی فرعونیت نکال دی تھی۔ منہ اتنا سوج چکا تھا کہ چہرہ پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ منہ سے ایک لفظ ادا کرنے سے بھی قاصر تھے۔ ضمیر ملامت کرنا شروع ہوا ہاتھ جوڑ کر اشاروں سے بڑے بھائی سے رو رو کر معافی مانگی۔ اب وہی بڑے بھائی جو معمولی اختلاف پر ان کو اپنے جانی دشمن لگ رہے تھے ان کے بہترین علاج معالجے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ آئی سی یو کے باہر چھوٹے بھائی کی زندگی کے لیے رب کے حضور گڑگڑا رہے تھے۔ اور چھوٹے بھائی شرمندگی سے بڑے بھائی سے نظریں نہ ملا پا رہے تھے۔

حقیقت تو یہی ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اور بہت جلد کروٹ لے لیتا ہے۔ اگلے لمحے کا نہیں معلوم۔ زبان کو قابو رکھنا سیکھیں۔ تکبر اور گھمنڈ سے ہمیشہ بچیں۔

اکڑ کس لیے؟
لہجے کی رعونت کس لیے؟

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کا خمیر خاک ہے اور ایک دن ہم سب نے خاک ہو جانا ہے۔ تو اس فنا ہو جانے والے وجود کے ساتھ تکبر کیسا؟

زبان قابو میں رہے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے بے قابو ہو جائے تو اس کی پکڑ شدید ہے۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون سی گھڑی قبولیت کی ہے۔ اور ہمارا کون سا عمل اور گھمنڈ رب کی پکڑ میں آ جائے۔ لہذا اپنے لیے بھی اچھا سوچیں اور اپنے مومن بھائی کے لیے بھی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے۔ دعا کی نعمت سے نوازے، ہمیں دعا کرنے کی اور دعا سمیٹنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

لبنیٰ مقبول
Latest posts by لبنیٰ مقبول (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments