گوادر کو حق دو تحریک


ہمارے حکمرانوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ جب تک مہنگائی اور مفلسی سے ماری ہوئی پاکستانی قوم سڑکوں پر نکل کر دوسروں کو اذیتیں نہ پہنچائیں تو اس وقت تک کوئی بھی حاکم مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرنے کو ترجیح نہیں دیتا۔ ماضی میں کئی ایسے پرتشدد واقعات ہمیں دیکھنے کو ملے ہیں جس میں حکومت نے خود مظاہرین سے مذاکرات کرنے کو بہتر سمجھا اور اگر وہ مذاکرات نہ کرتے تو حکومت کو معلومات ہوتی تھیں کہ مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ سے ریاست کو بہت سا نقصان برداشت کرنا پڑے گا جبکہ ریاست میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ مزید جانی و مالی نقصان برداشت کرنے کی متحمل ہو کیونکہ ریاست آج کل خود آئی ایم ایف کے قرضوں پر چل رہی ہے۔

ہم اگر ہر روز اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے لوگ بنیادی مسائل کے حل کے لیے احتجاج ریکارڈ کرواتے نظر آئیں گے اور اگر احتجاج کرنے والے مظاہرین توڑ پھوڑ اور مقامی انتظامیہ سے دھینگا مشتی کریں گے تو میڈیا کا ہر چینل انہیں کوریج دے گا اور اگلے دن اخبارات کے پہلے صفحے پر ان کی خبر کو اہم سرخی کے طور پر عیاں کیا جائے گا۔ اگر احتجاج کرنے والے مظاہرین توڑ پھوڑ اور مقامی انتظامیہ سے دھینگا مشتی نہ کریں تو حکومت تو دور کی بات میڈیا بھی ان کے مطالبات کو کوریج نہیں دیتا اور نہ ہی اخبارات ان کو اپنی سرخیوں کی زینت بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ہمارے میڈیا چینلوں کی کوتاہی ہے کہ وہ پرامن مظاہرین کے مطالبات کو حکومتی اداروں تک پہنچانے کی بجائے پرتشدد واقعات کو کوریج دینا زیادہ پسند کرتے ہیں جس سے ایک عام پاکستانی شہری کی ساکھ کو ناتلافی نقصان پہنچتا ہے اور اس جرم میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند سمجھے جانے والا گوادر شہر جس کی ترقی ہمارے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہاں کے رہائشی اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے گزشتہ کئی دنوں سے سڑکوں پر نکل کر اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا ان کے مطالبات کو حکومتی ایوانوں تک نہیں پہنچا رہا اور یہ سارا کام اب انٹرنیشنل میڈیا اپنا فرض سمجھ کر ہمارے حکمرانوں کو نیند سے بیدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر گوادر شہر کے رہائشی اپنے پرامن احتجاج کو پرتشدد احتجاج میں تبدیل کر دیں تو ہر چینل ایک سے بڑھ کر ایک بریکنگ نیوز پیش کرے گا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا کہ ہم سے بڑا کوئی مسیحا نہیں لیکن حقیقت میں وہ ریٹنگ کے نمبروں کے لیے اپنی جان لڑا رہے ہوتے ہیں۔

گوادر کو حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان جو جماعت اسلامی کے بھی عہدیدار ہیں ان کی قیادت میں مرد و خواتین اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور انٹرنیشنل میڈیا اسے گوادر کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج کہہ رہا ہے۔ ان کے سب سے بنیادی مسائل پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور سندھ حکومت کے مچھیروں کو گوادر سے ماہی گیری کرنے سے روکنے کا مطالبہ؛ کیوں کہ گوادر شہر میں سب سے پہلا حق گوادر کے رہائشیوں کا ہے اور ان کا روزگار اور گھر کا چولہا بھی ماہی گیری کے ذریعے ہی چلتا ہے۔

اگر گوادر کے رہائشی خود فاقے کاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے تو وہ اپنا گزر بسر کیسے کریں گے؟ لہذا ان کا یہ مطالبہ بھی کافی حد تک درست ہے۔ تیسرا مطالبہ گوادر شہر میں شراب نوشی پر پابندی عائد کرنا ہے کیونکہ وہاں کے بہت سے نوجوان ایک اچھا انسان بننے کی بجائے شراب نوشی کرنا شروع ہو گئے ہیں جس سے ان کے خاندان کے افراد بہت پریشان ہیں اور وہ شراب نوشی پر پابندی عائد کروانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے نوٹیفکیشن تو جاری کر دیے ہیں اور ان پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔

میری ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں سے درخواست ہے کہ جس طرح آپ لاہور، کراچی، ملتان اور دیگر بڑے ترقی یافتہ شہروں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں تو ایسے ہی گوادر اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنا نظر کرم فرمائیں کیونکہ ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا لاہور میں بسنے والے شہری کا ہے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم ہی ایک دوسرے کا درد احسن طریقے سے بانٹ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments