سیراب، سراب نہیں


بندر کو پکڑنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک ایسا آسان طریقہ بھی ہے جو شکاری کے دام فریب کی بجائے بندر کی نفسیات کے باعث زیادہ کارآمد ہے۔ شکاری حضرات ایک بند گلے کی صراحی نما چیز میں مونگ پھلی ڈال کے رکھ دیتے ہیں۔ بندر مونگ پھلی چرانے کے لئے ہاتھ اندر ڈالتا ہے تو ایک ہی ہلے میں ساری لے اڑنے کے چکر میں مونگ پھلی سے مٹھی بھر لیتا ہے۔ یہ بند مٹھی صراحی کی گردن سے نکل سکتی نتیجتاً بندر کا ہاتھ اندر ہی رہتا ہے اور وہ ہاتھ کھینچے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ صرف مٹھی کھول دے تو بغیر کسی تردد کے ہاتھ آسانی سے باہر آ جائے گا۔

لیکن زیادہ کا لالچ اور سب کچھ خود ہی سمیٹ لینے کا لوبھ اس کی غلامی یا ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر وہ تھوڑا سا بھی سیان پتی کا مظاہرہ کرے ’تو اسی صراحی یا برتن کے پاس بیٹھ کے ایک ایک مونگ پھلی نکال کے کھاتا جائے‘ تو پیٹ بھی بھر جائے اور جان بھی آزاد اور سکون میں رہے۔ لیکن ایک ایک مونگ پھلی نکالنے میں زیادہ محنت اور وقت (صبر) درکار ہے۔ جان تبھی شکنجے میں پھنسی جب کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بلکہ سارے کا سارا ہی سمیٹنے کی خواہش جاگی۔

اس تمثیل کو حضرت انسان کے معاشرے پہ بھی لاگو کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ایک فرد ’اپنی ذات کو ہی اولیت دے اور سب فائدے اپنے لئے ہی سوچے‘ سونے پہ سہاگہ اگر اس پہ دوسروں کی حق تلفی کا احساس بھی جاتا رہے تو آخر میں سوائے شکنجے میں پھنسنے کے ہاتھ کہیں اور نہیں پڑے گا۔ تب یہی ہم جنس تماشا دیکھ رہے ہوں گے۔ میاں محمد بخش صاحب کا مصرع بھی کیسا برمحل یاد آیا کہ:

پھنس گئی جان شکنجے اندر ’جیویں ویلن دے وچ گنا

انسانی معاشرے میں ہم ٹیم ورک کی بنیاد پہ کام کرتے ہیں کہ ہر فن مولا ہونا ممکن بھی نہیں اور مطلوبہ کامیابی ہر فن سیکھنے کے لئے درکار محنت شاقہ اور طوالت وقت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ کامیابی کے لئے کچھ اجزائے ترکیبی ضروری ہیں۔ ان میں محنت ’صبر اور دوسروں کے لئے سودمند ہونا سب سے اہم ہیں۔ مسلسل محنت سے حاصل کی گئی کامیابی بہت قیمتی ہوتی ہے اور پائیدار کامیابی کے لئے ضروری ہے کام کرنے والے سب لوگ اور احباب اپنا اپنا کردار بخوبی ادا کریں اور کامیابی کا حاصل چاہے معاشی ہو یا اعزازی‘ وہ سب کو اپنے کردار کے مطابق یکساں ملے۔

کامیابی کی دوڑ میں تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اگر قارون کے جتنا خزانہ اکٹھا کر لیا اور شداد جیسی بہشت بریں بھی بنا لی لیکن اگر انسانیت کی فلاح اور ان کے فائدے کا کوئی کام نہ کیا تو پھر اس وقتی کامیابی کے دعویداروں سے وہ چیونٹی اچھی ہے جس نے سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو آتا سن کر اپنی جیسی چیونٹیوں کو جان بچانے کا کہا تھا۔

دانائے راز بتاتے ہیں کہ پانی بھی اسی کنویں کا جاری رہتا ہے جو دوسروں کو سیراب کرتا رہے۔ جو کنواں پانی نہیں دیتا وہ بالا آخر خشک ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments