کرونا وائرس عالمی مسئلہ مہنگائی, بےروزگاری اور بھوک ذاتی مسئلہ؟


کووڈ کی دیگر اقسام 2019 سے اب تک متعارف اور زیر نظر ہو گئی ہیں۔ لاک ڈاؤن، کورنٹین، سیلف آئیسولیشن سے لے کر ویکسین اور اس کے مختلف ڈوز تک کے عمل باخوبی انجام دیے گئے اور اس پر نا صرف سنجیدگی سے غور کیا گیا بلکہ باقاعدہ اور پرزور طریقے سے عمل درآمد بھی ہوا۔ کروڑوں، عربوں پیسوں کا استعمال کیا گیا اور مزید لہروں اور اقسام کے لئے تیاری اور تبادلہ خیال بھی کیا جار ہا ہے، کیونکہ کرونا وائرس اک خطرناک وبا ہے جس سے نہ صرف وبا کا پھیلاؤ بے قابو ہو کر انتہائی سنجیدہ بیماری میں مبتلا کر کے اسپتال کے بستر پر لے جاسکتا ہے، بلکہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

اس وبا کو ملکی سطح پر بھی جتنا سنجیدہ لیا گیا اور اس کا تدارک ممکن بنانے کی کوشش کی گئی وہ سب قابل تعریف ہے۔ انسانی جانوں کو بچانے کے لئے جو عملیات کیے گئے وہ سب ناقابل فراموش ہیں کیوں کہ کرونا عالمی مسئلہ ہے۔

مگر کیا بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی ذاتی مسئلہ ہے؟
کیا یہ نقطے ملکی سطح پہ حل ہونے والے معاملات نہیں؟
کیا موت صرف وائرس کی وجہ ممکن ہے بھوک کی وجہ سے ممکن نہیں؟

کیا بے روزگاری اور مہنگائی ہماری ملکی حکومت کا مسئلہ نہیں ہے، کیا یہ ذاتی مسئلہ ہے جس کا عوام ذاتی طور پہ ماتم کرے اور ذاتی طور پر سسک سسک کے روئے؟

لاک ڈاؤن کے اثرات سے آج بھی تمام سرمایہ کار، کاروباری اور تنخواہ دار لوگ دو چار ہیں۔

نا جانے کتنے اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مالکان کو ابھی تک طالبات کی فیس وصولی کرنے میں مشکلات درپیش ہیں، جس سے نہ صرف ملازمین کی تنخواہیں بلکہ ادارے کے بل اور ذاتی اخراجات تک نکالنے مشکل ہو گئے ہیں۔

کتنے ہی کاروباری حضرات ابھی تک اپنے کاروبار میں لگائی ہوئی رقم میں نہ صرف نقصان اٹھا چکے بلکہ آئندہ بھی رقم کی وصولی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

مہنگی مالیت کے گھر، پلاٹ اور دکان لاکھوں کے نقصان میں فروخت ہوئے۔ قیمتی اثاثے کوڑھیوں کے دام بکے۔

نہ جانے کتنے ملازمین نوکریوں سے برخواست ہو گئے اور جن کی نوکریاں سلامت رہیں ان کی تنخواہوں میں سے دیگر الاؤنس اور شفٹ کی کٹوتی نے نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے گھر کا کرایہ، بچوں کی اسکول کالجوں کی فیسیں، بجلی گیس کے بل، طبی علاج و ادویات اور گھر کے راشن جیسی اہم ضروریات کے لئے بے بس اور قرض دار ہو گئے۔

دکان داروں کی دکانیں بند ہونے کی وجہ سے مال یا تو پرانا ہونے کے سبب کم داموں بکا یا ابھی تک دکانوں کی زینت بنا ہوا ہے۔

رئیل اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والے کاروباری حضرات تو ابھی تک زمین کی خرید و فروخت سے کوئی آمدنی نہ کر پائے اور کریں بھی کیسے؟ لوگوں کی حالت اتنی تنگ ہو چکی ہے کہ وہ پٹرول اور چینی خریدنے کے قابل نہیں رہے اپنے ذاتی گھر کے لئے پلاٹ یا زمین کا خواب تو انہیں آنے سے قاصر ہے۔

ڈاکٹروں کی او پی ڈی اور کیسز میں انتہائی درجہ کمی آ گئی۔ ایس او پیز کو فالو کرنے میں ذاتی خرچوں کی بھی الگ فہرست ہے۔ نہ صرف ڈاکٹرز بلکہ پرائیویٹ اسپتال کے مالکان بھی ابھی تک نقصانات سے دوچار ہیں

مسجدوں اور مدرسوں کے بند ہونے کے سبب موذن، امام مسجد اور قاری و استاد صاحبان کے معمولی معاوضے بھی بند ہو گئے جن سے دین کی خدمت کرنے والے سفید پوش صاحبان بھی پیچیدہ مسائل کا شکار رہے۔

ہر شخص ابھی تک لاک ڈاؤن سے متاثر ہے لیکن مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

لوگ خرچوں اور قرضوں کی جنگ میں ڈپریشن، ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے اور موت کے گلے جا لگے۔ خودکشیوں کی شرع میں اضافہ ہو گیا لیکن یہ موت عالمی یا ملکی مسئلہ نہیں ہے۔

یہ تو محض ذاتی مسئلہ ہے۔ اس پہ غور و فکر اور حل تلاش کر اقدامات کرنے سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

میرے ذاتی تجربے کی بنیاد پر میں نے اس سال جو اموات کی خبریں سنی وہ سب چونکا دینے والی تھیں۔
جوان ہٹے کٹے مرد، کم عمر نوجوان بچے بچیاں یا خاوندوں کی جوان بیویاں شامل تھیں۔

انتقال روز ہی کسی نہ کسی کا ہوتا ہے۔ موت بھی برحق ہے۔ لیکن جو اموات اس سال واقع ہوئیں وہ سب میرے لئے حیران کردینے والی تھیں۔

شاید اس کی ایک اہم وجہ ذاتی مسائل اور ڈپریشن جیسی خاموش مہلک بیماریاں ہیں۔

پھر جب کرونا کی مزید لہروں کا سنتی ہوں تو میرے ذہن میں لا محالہ یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا صرف کرونا ہی عالمی مسئلہ ہے؟

بھوک جیسی مہلک بیماری سے اگر اموات ہوئیں تو اس کا کون ذمے دار ہو گا؟
کیا مہنگائی اور بیروزگاری کو روکنا حکومت کے لئے سنجیدہ موضوع نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments