انسانی حقوق کے تناظر میں ہم


جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس کے بہت ہی سادہ اور عام فہم معنی میں وہ حقوق ہیں جن کا تعلق انسان سے ہے اور ہر انسان ان حقوق کا حقدار صرف اس لیے ہے کہ وہ انسان ہے خواہ کوئی بھی ہو جیسا بھی ہو کہیں کا رہنے والا بھی ہو اس کو یہ حقوق حاصل ہیں اور ان حقوق کا مقصد انسان کی عظمت اور برابری ہے۔

10 دسمبر کو عالمی سطح پر ان حقوق کا دن منایا جاتا ہے اور مختلف قسم کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں جن میں ان قوانین کے پرچار اور عمل کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات اور کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان قوانین کو معرض وجود میں آئے ہوئے عرصہ دراز ہو گیا ہے مگر آج بھی ہم سے اکثریت ان سے بے خبر ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم ہر انسان اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا علم رکھتا ہو تب جا کر ہی وہ اپنے حق کا دعوی کر سکتا ہے اور امن کی کوششیں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں بہت ساری سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں ان حقوق کی پاسداری اور ان کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف عمل ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو اپناتے ہوئے ترقی کے کام میں حکومت کے ساتھ عملی طور پر شامل ہوں تب ہی ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

پاکستان ایک اکثریتی مسلمان آبادی کا ملک ہے اور سرور کائنات ﷺکے آخری خطبہ سے چند فرمودات عرض کرنا چاہوں گا آج ہم ان کے نام پہ انسانیت کی اتنی تضحیک کرتے ہیں جو کسی بھی طرح سے ان کے فرمودات یا اخلاقیات کے مطابق نہ ہے آپ نے فرمایا ”لوگو! بے شک تمھارا رب ایک ہے، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سفید اور سفید کو سیاہ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے سبب“ یہی وہ الفاظ ہیں جو انسان کی برابری اور عظمت کو یقینی بناتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ انسانی حقوق کے سنہری اصول ہیں اور خاص کر آخری تقوی والے الفاظ آج ہمارے تمام تر مسائل کے حل کے علاوہ ترقی کے مدارج کا حقیقی فارمولا ہیں آج ہم ان اصولوں کو بھول کر رسوا ہو رہے ہیں اور غضب کی بات تو یہ ہے کہ نام نہاد پڑھے لکھے ہی ہمیں لوٹ رہے ہیں۔ تو بات ہو رہے تھی انسانی حقوق کی۔ ان کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ ان کا محور انسانیت ہی ہے ہم انسان ہونے کے ناتے ان کا کا دعوی رکھتے ہیں اور ہمیں کسی سے ان حقوق کی یقین دھانی کی ضرورت نہ ہے۔

ہمارے ملکی آئین کا دوسرا باب آرٹیکل آٹھ سے اٹھائیس تک ان بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ یہاں پر میں ان حقوق کی بنیادی خصوصیات بیان کرنا چاہوں گا کہ:۔ پہلا اصول کہ کسی کو بھی ان حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکنا ان کا تعلق صرف بحیثیت انسان ہونے سے ہے دوسرا اصول یہ ہے کہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ تیسرا اصول ہے کہ یہ تمام انسانوں پر کہیں بھی رہنے والے ہوں ایک جیسے ہی اپلائی ہوتے ہیں۔

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت حقوق کے بارے بلند و بانگ دعوے تو کرتی ہے مگر عملاً خود ان حقوق کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی، آزادی اظہار رائے میں سٹریم میڈیا تو پابند سلاسل ہے ہی مگر سوشل میڈیا کو بھی گرفت میں لانے کے لئے نئے نئے قوانین کی مشق کی جا رہی ہے۔

ہمارے ہاں حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں ہوتی بلکہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے اور پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ ان خلاف ورزیوں کے ثبوت بھی سامنے آ جاتے ہیں اور خلاف ورزیاں کرنے والے اور ثبوت لانے والے بھی بعض دفع کوئی عام لوگ نہیں ہوتے بلکہ حکومتی عہدیدار اور ادارے ہوتے ہیں لیکن ہمیں کبھی ندامت تک نہیں ہوئی جو ہماری بے حسی کی حد ہے اور یہی وجہ ہماری اقوام عالم کے سامنے رسوائی کا سبب بنی ہوئی ہے۔

آج کل حق اظہار رائے پر پابندیوں کا تو یہ حال ہے کہ یہ حق اس قدر گھٹن کا شکار ہے کہ اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی آمریت کے سمندر میں ڈبکیاں لیتا ہوا چھوٹے چھوٹے، وی لاگز، ویب سائٹس اور فیس بک کے تنکوں کا سہارا لے رہا ہے۔ اور پھر ان تنکوں کے سہارے سانس لینے والوں کو بھی کئی لہروں کے ہچکولوں نے گھیرا ہوا ہے۔ بے بسی کی ایک عجب صورتحال ہے۔

شہریوں کے حقوق کا معاملہ تو ہے ہی مگر یہاں پر کوئی بڑے سے بڑا بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان حقوق میں ایک حق پردہ چار دیواری اور رازداری (Privacy) کا حق ہے۔ اور یہاں آ کر بعض دفعہ حکومت اور کیبنٹ خود بے بس لگتی ہے تو وہ دوسروں کے حقوق کا کیا تحفظ کرے گی۔ مشرف کے دور میں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ ایک بہت ہی طاقتور ملک کے کونسلیٹ میں کیبنٹ کی کارروائی سنی جا رہی ہوتی تھی۔ اس طرح شاہد خاقان عباسی نے خود اعتراف کیا کہ ہماری کیبنٹ کی میٹنگ چل رہی ہوتی تھی تو باہر خبریں پہنچ چکی ہوتی تھیں پھر انہوں نے جیمرز لگائے۔ تو بتانے کا مقصد ہے کہ حکومت خود اپنی پرائیویسی رکھنے سے بھی قاصر ہے۔

لاپتہ اشخاص کا معاملہ اتنا سنگین جرم ہے اور کئی سالوں سے متواتر ہو رہا ہے۔ اس پر کمیشن بنائے گئے، عدالتوں نے سختی سے نوٹس لیا مگر معاملہ جوں کا توں ہے۔ آج کل ہائیکورٹ میں مدثر نارو کا کیس چل رہا ہے جس میں چیف جسٹس صاحب نے منسٹر انسانی حقوق کو بھی طلب کیا اور ان کی موجودگی میں انتہائی سخت ریمارکس دیے ’کسی پبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو ریاست کا ردعمل کیا ہو گا۔ پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی۔ ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہیے۔ ‘

’لاپتہ شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا ردعمل غیر موثر ہے، ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی، کوئی بھی متاثرہ شخص آئے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہو گیا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔ ‘

جبری گمشدگیوں میں صرف ریاست نہیں بلکہ غیر ریاستی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو تلاش کرے۔

تو اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں حقوق کا معاملہ کس قدر بگاڑ کا شکار ہے اور اس کے پیچھے اتنے طاقتور ہاتھ ہیں کہ حکومت بھی بے بس ہو سکتی ہے تو ایک عام شہری تو پھر اللہ کے فضل و کرم کے حوالے ہی ہے۔

میری طاقتور قوتوں سے مراد ہر وہ فرد، گروہ یا ادارہ ہے جو اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتا ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور ان کے عدم تحفظ کی ذمہ داران میں عام شہریوں کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ، جاہلانہ اور مجرمانہ رہا ہے اور اس میں ہم مذہبی طاقتوں کو بھی مبرا قرار نہیں دے سکتے۔

اسی طرح خواتین کے حقوق کی بات کریں تو یہاں ہماری ثقافت، معاشرت اور تربیت وہ طاقت ہے جو ہمیں ان کے کئی حقوق کے استحصال پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ ہم ان کو معاشی اور تعلیمی طور پر اپاہج رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ہماری خاندانی روایات اور معاشرتی رسم و رواج اجازت نہیں دیتے۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ان طاقتور قوتوں کی مجبوریاں کیا ہیں کہ وہ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزیاں کرنے سے اجتناب نہیں کرتیں؟

یہاں تفصیل میں گئے بغیر کہوں گا کہ ان وجوہات میں سے جو سب سے اہم وجہ ہے وہ ہے ہمارا غیر ذمہ دارانہ اخلاق جو ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور اس کی اصلاح کا معاشرے کے فرائض اور ذمہ داریوں سے تعلق تو ہے ہی مگر سب سے بڑا ہر اس انسان کی سوچ اور اس کی اپنی ذات سے ہے کہ وہ کتنا مہذب یا فرض شناس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments