امت سید لولاک سے خوف آتا ہے


ہم کیا ہیں؟ ہم انسان ہیں ایک بہترین تخلیق ہیں۔ زمین پر ہم پرتو ہیں اس عظیم خالق کا جس نے کائنات کو تخلیق کیا۔ اس فرش پر ہم اس کے نائب ہیں۔ اس ہی کے حکم کے مطابق زمین کا نظم و نسق درست رکھنا ہے۔ بطور انسان دنیا اور اس میں بسنے والوں کے لیے خدمات سرانجام دینی ہیں۔ مگر یہ خالق ہے کون؟ یہ خالق وہ ہے جو اپنی تخلیق سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ جو شہ رگ سے قریب ہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔ جو نصف شب کو پہلے آسمان پر آ کر ندا دیتا ہے کہ کوئی ہے جو مانگے، میں اس کو عطا کروں گا۔ اس وقت میں وہ قیام کرنے والوں کی خبر رکھتا ہے سجدوں میں کی گئی سرگوشیاں سنتا ہے۔ جو ندامت میں بہتے ہوئے آنسوؤں کے زمین پر گرنے سے پہلے توبہ قبول کرتا ہے۔

رب جو صرف میرے اکیلے کا رب نہی ہے وہ رب کائنات ہے۔ اس کی تخلیق کا شرف صرف مجھے حاصل نہیں ہے بلکہ میری بصارت کی حد اور اس حد سے پار بھی جو کچھ ہے اسی کا بنایا ہوا ہے اسی کی تخلیق ہے۔ یہ اس کی قدرت کی وسعت ہے کہ اس نے مجھے ارادہ دیا اور ارادے پر عمل کرنے کا اختیار بھی سونپ دیا۔ مجھے تخلیق کر کے آزاد کر دیا مگر محبت کا یہ عالم کہ میں راہ سے نا بھٹک جاؤں میری رہنمائی کے لیے اپنے برگذیدہ بندوں کو مبعوث فرمایا۔ ایک وقت ایسا آیا جب اپنے محبوب کو وجہ تخلیق کائنات کو ہماری اصلاح و رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا۔ ہم پر اپنی حجت تمام کردی اپنی رحمت کی انتہا کردی اور رحمتہ العالمین کو بھیج کر نبوت کا یہ سلسلہ بند کر دیا۔

سرزمین حجاز میں آخری پیغمبر نے اپنی حیات مبارکہ میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ دنیا کا سب سے پرامن کامیاب انقلاب جس میں ہدایت کی گئی کہ عورتوں اور بچوں پر ظلم نہیں کرنا، جو ہتھیار ڈال دے اس کو معاف کر دینا۔ بوڑھوں کے ساتھ احترام سے پیش آنا ہے۔ جو حرم میں یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے اس کو امان حاصل ہوگی۔ جو تلوار نکالے اس کو اسلام کی دعوت دو اگر انکار کرے تو با امر مجبوری تلوار نکالو۔ کسی بے گناہ کا خون بہانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا بنا خون بہائے عظیم الشان فتح حاصل ہوئی۔ فتح کے بعد عام معافی کا اعلان ہوا۔ جس نے تکلیف دی اس کو بھی معاف کر دیا جس نے کلیجہ چبایا اس کو بھی معاف کر دیا۔

اپنے آبا و اجداد کا مذہب چھوڑ کر لوگ جوق در جوق رحمت کے سائے میں آنے لگے۔ قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور رحمت کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا گیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایک مثالی ریاست قائم ہو گئی۔ ایک ایسی ریاست جس کا منشور تھا کہ کسی گورے کو کالے پراور عربی کو عجمی پر برتری نہیں ہوگی۔ رنگ و نسل کی برتری کو ختم کرتے ہوئے انسانیت کا درس دینے والی ریاست میں اگر کوئی برتر تھا تو اپنے تقویٰ کی بنیاد پر تھا۔ عدل و انصاف کا ایسا معیار قائم کیا کہ چوری کے ایک مقدمہ میں یہاں تک فرما دیا کہ اگر یہاں میری بیٹی بھی ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیتا۔

دنیا کے اس عظیم رہنما کی صحبت کا اثر تھا کہ قریب ترین اصحاب جب برسراقتدار آئے تو عدل و انصاف، معاشرے کی فلاح اور اصلاح کے لیے ایسے کارنامے سرانجام دیے کہ آج کی جدید دنیا کے غیر مسلم ممالک میں ان کے اقدامات کو قوانین کا درجہ حاصل ہے۔ سچائی کا عالم یہ ہے کہ آخری الہامی کتاب کو چودہ صدیاں گزر گئیں مگر اس پر لوگ آج بھی ایمان لے آتے ہیں۔ خدا کا تصور تو کسی نا کسی شکل میں ہر الہامی اور غیر الہامی مذہب میں موجود ہے۔ مگر نسل انسانی میں اگر کسی کو عظیم ترین مبلغ اور رہنما کا درجہ دینا ہوتو مائیکل ہارٹ جیسا عیسائی مصنف بھی اپنی کتاب 100 عظیم شخصیات کی ابتدا میرے آقا سیدنا حضرت محمد ﷺکے ذکر سے کرتا ہے۔

مائیکل ہارٹ نے تو اپنی کتاب کی ابتدا میرے نبی کے ذکر سے کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ابتدا میرے نبی کے ذکر سے ہوئی اور فرمایا گیا کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ اس کا عملی ثبوت یہ کہ جب طائف میں پتھر برسائے گئے اور غزوہ احد میں عتبہ بن ابی وقاص کے پتھر سے پیشانی مبارک اور دندان مبارک شہید ہوئے تو بارگاہ الہیٰ میں اس کریم ہستی نے دعا مانگی کہ رب اغفرلی قومی فانھم لایعلومون، خدایا! میری قوم کو معاف کر دے کیونکہ یہ جاہل و نادان ہیں۔

اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنے نبی کے نقش قدم پر چلو۔ تو اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا ہم چل رہے ہیں۔ کیا سیالکوٹ کا واقعہ ہمارے لیے سوالیہ نشان نہیں ہے۔ سیالکوٹ میں ایک سری لنکن نہیں ایک انسان کو بہیمانہ انداز میں قتل کر کے جلا کر خاک کر دیا گیا۔ کیا میرے نبی کی تعلیمات یہی تھیں؟ کیا ہمارا مذہب اس قتل کی اجازت دیتا ہے؟ کیا ہمارا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اگر اس نے توہین مذہب کی تھی تو اس کے لیے قانون موجود ہے مگر ایک متشدد ہجوم کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنے فیصلے سڑکوں پر کرنے لگ جائے۔

سیالکوٹ سانحہ کے بعد ہم مذہب ہی نہیں بلکہ انسانیت کے دائرے سے بھی باہر نکل گئے ہیں۔ ہم نے دنیا کو اپنا وہ چہرہ دکھایا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔ اس قتل کا دکھ اپنی جگہ تکلیف یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے ہجوم میں ایک بھی انسان ایسا نہیں تھا جو اس ظلم کو روکنے کی کوشش کرتا۔ ریاستی ادارے کہاں تھے، قانون کیوں غفلت کی نیند سو رہا تھا۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور کب اس کا اختتام ہو گا۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ بہرحال جو ہوا قابل مذمت اور انتہائی افسوسناک ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

رحمت سید لولاک پہ کامل ایمان
امت سید لولاک سے خوف آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments