عدم برداشت اور ہمارا معاشرہ


سائنس اور فلسفے کے مطابق انسان کے قدیم آبا، بندر، گوریلا وغیرہ ہیں جو ایک کمیونٹی کی صورت میں رہتے تاکہ بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں لیکن جنگل کا قانون جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔ جہاں تک انسانی معاشرے کی بات ہے تہذیب کے ارتقا کے ساتھ ہی جہاں انسان نے مل جل کر رہنے اور بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کا بندوبست کر لیا۔ اس معاشرے کو ایک پرامن معاشرہ بنانے کے لئے اصول و ضوابط بنانے کے ساتھ ساتھ کچھ مصلح اور پیغمبر بھی بھیجے گئے جنہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ معاشرتی اصول و ضوابط میں تحریف کر کے انسانی معاشرے کو ایک منضبط معاشرہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی آمد کے ساتھ ہی جہاں نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا وہاں انسانیت کو ایک مکمل اور جامع دین، دین اسلام کی صورت میں عطا کر دیا گیا۔ ایک ایسا دین جو مذہبی رواداری، مساوات اور امن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ جو ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ چند شرپسند، خود غرض، مفاد پرست اور طاغوتی طاقتوں کے آلہ کار عناصر نے حصول زر کے لئے پاکستانی عوام اور مسلمانوں کے جذبات سے یوں کھیلنا شروع کیا کہ پہلے ان کو مذہب اور لاقانونیت کے نام پر اکسانے کے لئے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا استعمال کیا گیا اور ریاست کے بنیادی ستونوں میں چھپے کردار ان کا بھر پور ساتھ یوں دے رہے ہیں کہ ان کے جائز اور ناجائز مطالبات کو من و عن ہی تسلیم کر لیا جاتا ہے۔

بہاولپور کے مضافاتی علاقے مسافر خانہ کے قریب تین بچوں کے ٹریفک حادثے میں شہادت کے سانحے کے بعد مقامی شدت پسند عناصر نے جہاں پانچ گھنٹے تک قومی شاہراہ پر قبضہ جما لیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نجی سکول کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ ابھی اس سانحے کی باز گشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ سیالکوٹ میں مقامی افراد نے سری لنکن نژاد فیکٹری منیجر کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام واقعات کے پیچھے کون کون سے عوامل اور وجوہات کارفرما ہیں؟

پاکستان میں حالیہ عشرے کے دوران مذہبی انتہا پسندی میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ توہین مذہب کے نام پر نہ صرف عوام کی اکثریت عدم برداشت اور متشددانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں اور ان کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ بعد میں افسران بالا کی انکوائریاں بھگتنے اور عدالت کے دھکے کھانے سے بہتر ہے کہ خاموش تماشائی بن کر اپنے فرائض انجام دیے جائیں جس کی وجہ سے قانون شکن عناصر کو شہ ملی ہوئی ہے اور آئے روز کسی نہ کسی بہانے ملکی اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ قیمتی جانوں کے ضیاع کا بھی سبب بن رہے ہیں۔

کسی فلاسفر نے خوب کہا تھا کہ کوئی معاشرہ غربت اور افلاس کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن نا انصافی کے ساتھ اس کی بقا ناممکن ہے۔ گزشتہ ماہ جب ایک مذہبی تنظیم کے جلاؤ گھیراؤ کے دوران پنجاب پولیس نے آٹھ جوانوں کے لاشے اٹھائے تو ہمیں قوی یقین تھا کہ ایک ایسی حکومت جس کو فوج، عوام اور سیاستدانوں کی مکمل اور بھر پور حمایت حاصل ہے، بھرپور اقدامات کرتے ہوئے ان شر پسند عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی اور دھرنے، جلاؤ گھیراؤ اور پر تشدد مظاہرین سے عوام کو نجات حاصل ہو جائے گی۔

لیکن ان تمام پولیس شہداء کا خون پانی کی طرح رائیگاں چلا گیا اور صورت حال دن بدن خراب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اگر ہمارے معاشرتی رویوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھیں گے ہم ایک ایسی معاشرہ بن چکے ہیں جہاں لاقانونیت اپنے عروج پر ہے۔ جرائم میں اضافہ تو دیکھنے میں آ ہی رہا ہے لیکن جرائم پیشہ عناصر اور الزام علیہان کو موقع پر سزا دینے کا رجحان دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔ جب بھی عوام کسی چور، ڈاکو، راہزن یا کسی بھی جرم میں ملوث کسی شخص کو پکڑتی ہے تو موقع پر ہی سزا دینے کی کوشش میں تمام حدود و قیود پھلانگنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتی، جس کی بنیادی وجہ نا انصافی اور عدم مساوات ہے۔

ملک عزیز میں ایک غیر تصدیق شدہ رپورٹ کے مطابق 21 لاکھ سے زیادہ زیر التوا مقدمات موجود ہیں۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایک ایسا ملک جہاں دس تا بیس سال ایک ملزم کو مجرم یا بے گناہ ثابت کرنے میں لگ جائیں وہاں عوام خود ہی منصف بنے گی یا نہیں؟ کبھی آپ نے پاکستانی عدالتوں میں دھکے کھائے ہوں تو اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ عدالتیں ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان جاتا تو اپنی مرضی سے ہے لیکن اس کی واپسی و کلاء، منشیوں، عدالتی اہلکاروں اور ججوں کی مرضی سے ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں نظام انصاف کی خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ منصف کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے لئے دھونس اور دھاندلی کے ساتھ ساتھ سفارش اور رشوت کا چلن عام ہے جو ایک ذہنی طور پر بیمار معاشرے کی خاص نشانی ہے۔

معاشرتی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ افراد کی تربیت کا فقدان بھی عدم برداشت کا باعث بنتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ ایک ایسا فرد جس کو اپنے فرائض ادا کرنے کی تربیت نہ دی گئی ہو اور اس کو صرف یہ سکھایا گیا ہو کہ اپنے حقوق بزور بازو چھین لو، تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں وہ ایک انسانی معاشرہ ہے حالانکہ ہمارے معاشرے کی اکثریت اس وقت یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ جو اپنی مرضی کا انصاف لینا ہو اپنے جیسے چند افراد کا ایک جتھا بنا کر معاشرے کے تمام افراد اور اداروں پر ٹوٹ پڑو۔ گزشتہ دس سال سے دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو اہل سیاست نے تو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ اور طبقہ اشرافیہ نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔

طاہر القادری کے دھرنے سے لے کر ، تحریک انصاف، و کلاء، ڈاکٹروں، کسانوں اور اندھوں کے دھرنے تک، نظر دوڑائیں تو شاید ہمیں بھرے ہوئے بریف کیسوں اور مطالبات کی منظوری کے علاوہ حکومتی رٹ کبھی بھی نظر نہیں آئی جس کی بنیادی وجہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی نا اہلی ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور پنی کرپشن اور کمزوریاں چھپانے کے لئے حکومت میں موجود وزراء اور مشیران کی فوج ہمیشہ اس بھر پور کوشش میں رہی ہے کہ پیالی میں اٹھنے والے دھرنے جیسے طوفانوں کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے تا کہ کوئی ان پہ انگلی نہ اٹھائے کہ دھرنے میں موجود نام نہاد معصومین پر تشدد کیا گیا یا ان کو جیل میں ڈالا گیا۔

اس کے علاوہ مجھے تو ایک بات یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل اور بحرانات کے پس پردہ کچھ ایسے نادیدہ ہاتھ ہوتے ہیں جن کا بنیادی مقصد پاکستان اور مسلم امہ کو بدنام کرنا ہوتا ہے تاکہ عالمی سطح پر ہمیں ایک دہشت گرد، کرپٹ اور بنیاد پرست قوم بنا کر پیش کیا جا سکے۔ ہم ایک ایسی جذباتی قوم ہیں کہ ہم نے بھی کبھی اپنی دماغ پہ زور نہیں دیا اور چند لمحات میں ہی استعمال ہو جاتے ہیں اور ہمیں اپنی غلطی کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے۔

مجھ ناچیز کی رائے میں جب تک ہم اپنے ذاتی اور نظریاتی اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہوتے تو ہمارے ملک میں یہی لاقانونیت اور بد امنی کا راج رہے گا۔ جب عدلیہ اور معاشرہ کسی کمزور کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو لامحالہ کمزور بھی خود کو شہ زور منوانے کی کوشش میں قانون ہاتھ میں لیتا ہے اور اپنی خود ساختہ عدالت میں ہی فیصلہ کر لیتا ہے اور یہ فیصلے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جہاں ملزمان کو ایسا کوئی ریلیف نہ مل سکے تاکہ الزام علیہان کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو آئین اور قانون کے منافی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments