معاشرے میں لگا ٹائم بم


”اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو، پھر اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے۔“ (سورہ الحجرات۔ آیت 18 )

رب العالمین کے واضح فرمان کے باوجود موجودہ نسل انسانی میں ایسا ٹائم بم لگادیا گیا ہے جس کے اثرات آہستہ آہستہ ہی سہی نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ 2011 ء میں سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائی مغیث اور منیب کو ڈاکو کہہ کر تشدد کیا پھر زندہ جلا دیا گیا۔ 2014 ء میں بھٹہ مالک نے واجبات مانگنے پر شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع مسیح پر توہین قرآن کا جھوٹا الزام عائد کر کے زندہ جلایا گیا۔ 13 اپریل 2017 ء کو مردان میں مشال خان پر یونیورسٹی انتظامیہ اور مخالفین نے توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کیا۔ گزشتہ سال خوشاب کی تحصیل میں بینک منیجر پر الزام لگا کر گارڈ نے قتل کیا اور قاتل کو جلوس کی شکل میں پورے علاقے میں واہ واہ کے لیے گھمایا گیا، اسے کے بوسے لیے گئے اور اب سری لنکن منیجر کو توہین کا الزام لگا کر تشدد کر کے زندہ جلا دیا گیا۔

سب واقعات میں ایک ہی نعرہ تھا، عشق رسولﷺ۔ اس نبی کا عشق جو رحمۃ اللعالمین ہیں، رحمۃ المسلمین نہیں۔ وہ نبی جنہوں نے ظلم کرنے سے منع کیا۔ جنگ میں بھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو امان دینے کا کہا۔ وہ رحمۃ اللعالمین جنہوں نے خود تو تکلیفیں سہی مگر کسی کو ایذا نہ پہنچائی۔ جن کے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے خود تکلیفیں سہ کر اسلام کا پرچم بلند کیا مگر کسی مظلوم کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دیا۔ انہیں کے عشق میں سرشار عشاق بغیر کسی تحقیق کے، مشتعل ہو کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کر رہے ہیں۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ تمام ہی مذکورہ بالا واقعات جھوٹ کا پلندا ثابت ہوئے۔ ذاتی رنجش اور ذاتی تسکین کے لیے جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے۔ جذباتیت، تشدد پسندانہ سوچ، تعصب انگیزی اور تکفیریت کے ناسور نے اس قوم کو بری طرح جکڑ لیا ہے۔ کوئی بھی کسی پر بھی الزام عائد کر دیتا ہے اور مجمع جمع ہوجاتا ہے اور پھر اس بے چارے کی خیر نہیں۔ اب تک کے تمام الزامات میں کوئی بھی سچ ثابت نہیں ہوسکا۔ قرآن مجید فرقان حمید جو تا قیامت راہ ہدایت ہے، اس میں رب العزت فرماتا ہے :

”اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔“ (سورہ ال اسراء :آیت 36 )

قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر شخصیت پرستی کا جو ناسور ہمارے خون میں گھول دیا گیا ہے اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔ خود کو جنتی سمجھ کر دوسرے کو جہنم واصل کرنے کا جو ٹرینڈ ہمارے یہاں مقبول و معروف ہے، وہی حقیقتاً اسلامی معاشرے میں بگاڑ کا سبب ہے۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین انیس الغریبین، رحمۃ اللعالمین ﷺ نے فرمایا: ”ظلم کرنے سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن (کئی) ظلمتوں کا باعث بنے گا۔“ (صحیح بخاری۔ 2299 )

ہمارا معاشرہ اس وقت جس انسانی پستی، اجتماعی فکری تباہی، مذہبی جنونیت اور معاشرتی ذہنی زوال کا شکار ہے، ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ ”دین دار“ بنے پھرنے والے حقیقتاً دین سے کوسوں دور ہے۔ انہیں اسلام کی اصل حقانیت کی پہچان ہی نہیں۔ صرف اور صرف اپنی دکانیں چمکانے میں مصروف ہے۔ شخصیت پرستی کے خول میں بند ہو گئے ہیں۔ عوام حکمرانوں کو کرپٹ کہتے کہتے خود ہی کرپٹ ہو گئی۔ اخلاقی زوال کے وہ کون سے کارہائے نمایاں نہیں جو آج عوام خود نہیں کر رہی۔ دھوکہ، فراڈ، جھوٹ، دغا بازی، چوری، قتل، عزت و آبرو کو اچھالنا، حق غصب کرنا، زکوٰۃ فطرے سے جائیدادیں بنانا، اور پھر سود، رشوت و حرام خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ایسے کون سے کام ہیں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہو اور ہم وہ نہ کر رہے ہوں؟

ایسے میں یہ سوال اہم نہیں کہ بہتر وقت کب آئے گا، اصل سوال یہ ہے کہ بہتر وقت کیوں آئے؟

جو معاشرہ اجتماعی طور پر اس نہج پر پہنچ جائے، وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہوجاتا ہے۔ اور ہمارا معاشرہ اب پوری طرح مردہ ہو چکا ہے۔ ایسے معاشرے میں جہاں پر کسی کی جان و مال، عزت و آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں۔ نہ چار دیواری میں نہ گلی کوچوں میں۔ پہلے صرف ایوانوں میں عزتیں اچھالی جاتی تھیں، الزامات عائد کیے جاتے تھے، فقرے کسے جاتے تھے، اب اس نے جدت اختیار کرلی ہے۔

ریاست اور عدالت کا فریضہ ہے کہ جو اس قانون کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں انہیں تختہ دار پر لٹکا کر نشان عبرت بنایا جائے تاکہ کوئی بھی قانون کا غلط استعمال نہ کرسکے۔

اگر ریاست اور عدالتوں نے اب بھی شریعت اور آئین پاکستان کے عین مطابق سزاؤں کا عمل جاری نہیں کیا تو وہ وقت بہت جلد آئے گا جب چوک پر کھڑے ہو کر کسی پر بھی گستاخی کا الزام لگادیا جائے گا اور پھر تباہی کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments