خط: میکسیم گورکی کی ایک کہانی


میں نیا نیا ماسکو یونیورسٹی میں پہلے سال میں داخل ہوا تھا۔ اتنے بڑے شہر میں رہائش ڈھونڈنے میں خاصی دقت پیش آ رہی تھی۔ بہت تگ و دو کے بعد ایک کمرے والا اپارٹمنٹ ملا جہاں سے میں دس منٹ میں پیدل چل کر یونیورسٹی پہنچ سکتا تھا۔

ساتھ والا کمرہ ایک عورت کا تھا۔ ہمسایوں میں اس کے چال چلن کے بارے میں افواہیں اڑاتیں۔ کھسر پھسر ہوتی۔ وہ پچیس، چھبیس سال کی ہو گی۔ رنگ خاصا سانولا تھا۔ قد مردوں کے برابر اور مرد بھی وہ جو طویل قامت ہوں۔ چہرے کے نقوش ایسے جیسے انہیں کسی سنگسار نے چھینی کی بجائے کلہاڑی سے تراشا ہو۔ بھنویں گھنی جھاڑی دار قسم کی۔ اس کی بھاری آواز، مزدوروں جیسے ڈیل ڈول اور جنگلی جانوروں کی طرح چمکتی آنکھوں نے مجھے پہلے دن ہی سے اس سے خوفزدہ کر دیا تھا۔

وہ روسی تو بالکل نہیں لگتی تھی۔ ہمسایوں کا خیال تھا کہ پولینڈ سے آئی ہے۔ اس کا نام تریزا تھا۔

جب مجھے پتہ ہوتا کہ وہ گھر پر ہے تو میں کمرے کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا تھا۔ لیکن وہ گھر پر کم ہی ہوتی۔ کبھی وہ مجھے راہداری میں یا نیچے کے صحن میں مل جاتی۔ ایسی موقعوں پر وہ شراب کے نشے میں دھت ہوتی اور مسٹر سٹوڈنٹ کہہ کر مجھ سے مخاطب ہوتی۔ اس کی کرخت ہنسی مجھے سخت ناپسند تھی۔ میں کوشش کے باوجود اس سے پیچھا نہ چھڑا سکتا اور مجبوراً چند منٹ کے لئے اس کی باتیں خاموشی سے سن لیتا۔

ایک دن صبح کے تقریباً دس بجے کے قریب میں ابھی تک بستر ہی میں تھا اور گیارہ بجے ہونے والی کلاس میں حاضری سے بچنے کے بہانے سوچ رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور بغیر میرے جواب کا انتظار کیے تریزا کمرے میں داخل ہو گئی۔

”آپ خیر خیریت سے تو ہیں مسٹر سٹوڈنٹ؟“
”کیا بات ہے، کیوں کمرے میں گھسی چلی آ رہی ہو؟“
میں نے سختی سے پوچھا۔

اس کے چہرے پر شرمندگی اور بے چارگی کے آثار تھے جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ جیسے ہاتھ پھیلا رہی ہو کوئی التجا کرنے کے لئے۔

میری آواز میں کچھ نرمی آ گئی۔
”کیا ہوا؟ کیا کام ہے؟“
میں نے دوبارہ پوچھا۔

”جی، سٹوڈنٹ صاحب، جی بات یہ ہے، اگر آپ مہربانی کریں۔ آپ پڑھے لکھے ہیں۔ میں بالکل جاہل۔ میں ایک خط گھر بھجوانا چاہتی ہوں۔ مگر مجھے لکھنا نہیں آتا۔ آپ لکھ دیں گے؟ مہربانی کر کے۔ آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ کا بہت احسان ہو گا۔“

میں خفت کے احساس سے اٹھا۔ میز پر ایک نیلے رنگ کا پیڈ رکھا تھا۔ قلم دوات بھی وہیں تھے۔ میں نے قلم کو روشنائی میں ڈبویا۔ اسے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور پوچھا،

” اچھا بتاؤ، کیا لکھوانا ہے گھر والوں کو ؟ کس کے نام؟“
”اس کا نام بلازوف ہے۔ وہ میرا منگیتر ہے۔“
پھر اس نے مجھے وارسا کی ایک گلی کا پتہ دیا۔ اور خط لکھوانا شروع کیا۔

” میرے پیارے بلازوف۔ ڈارلنگ۔ میرے وفادار محبوب۔ تم پر مریم اور عیسی کی رحمتیں نازل ہوں۔ تم نے مدت سے خط نہیں لکھا۔ تمہاری اس غم زدہ ننھی فاختہ کی رات کی نیند اور دن کا چین لٹ چکے ہیں۔ “

میں نے ہزار ضبط کرنے کی کوشش کی لیکن غم زدہ ننھی فاختہ سن کر ضبط نہ کر سکا اور بے ساختہ ہنس پڑا۔ اب اس نے واقعی ایک زخمی پرندے کی طرح مجھے دیکھا۔ میں نے شرمندہ ہو کر معافی مانگی مگر پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔

”بلازوف تمھارا منگیتر ہے؟“
” جی، ہے تو نہیں، لیکن ہو جائے گا۔“
کہانی کچھ پیچیدہ ہونی شروع ہو گئی تھی۔
”تو وہ صرف تمہارا آشنا ہے؟“

”تو اس میں کیا گناہ ہے؟ کیا میرے جیسی جوان لڑکی کو حق نہیں کہ وہ کسی سے محبت کر سکے؟ ہاں وہ میر آشنا ہے۔“

وہ اب غصے اور جوش سے بول رہی تھی۔
”ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ دنیا میں ہر چیز ممکن ہے۔ کب سے؟“
میں کچھ متجسس ہو گیا تھا۔
”پانچ سال سے۔“
”اچھا، چلو خط لکھاؤ۔ آگے کیا کہنا چاہتی ہو۔“

میری اپنی زندگی ہر قسم کی رومانیت سے خالی تھی۔ اور سچی بات بتاؤں کہ میں بلازوف پر رشک تک کرنے کے لئے تیار تھا اگر اس کی محبوبہ تریزا کی جگہ کوئی اور ہوتی۔

اب تریزا نے دوبارہ خط لکھوانا شروع کر دیا تھا۔ جو اسی قسم کے مبالغہ آمیز مکالمات میں بلازوف کو آخری سانس تک اپنی وفا داری کی یقین دہانی پر ختم ہوا۔

” بہت مہربانی سٹوڈنٹ صاحب۔ آپ کا احسان میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔ “

میں ابھی اسی مخمصے میں تھا کہ یہ کس قسم کی خدمت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اس نے میرے مشکل آسان کر دی۔

”کبھی پھٹی ہوئی جرابوں کو رفو کروانا ہو یا کپڑے استری کروانے ہوں اور یا کمرے کے فرش پر پوتا لگوانا ہو تو مجھے حکم کریں۔ جو خدمت کہیں گے میں کردوں گی۔ آپ کا بہت احسان ہے۔ “

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔

ایک دو ہفتے کے بعد میں اپنے کمرے میں بیٹھا کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ طبیعت پر اکتاہٹ سی طاری تھی۔ کچھ کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور بغیر اجازت لئے تریزا کمرے میں داخل ہو گئی۔

”سٹوڈنٹ صاحب، امید ہے آپ بہت مصروف نہیں ہیں۔ میں آپ کو پریشان تو نہیں کر رہی؟“
”نہیں، کیا بات ہے؟“
” میں آپ کو ایک اور خط لکھنے کی تکلیف دینا چاہتی ہوں۔“
”کس کو ؟ بلازوف کو ؟“
”نہیں، سٹوڈنٹ صاحب، اس کی طرف سے۔ “
” کیا مطلب؟ بلازوف کی طرف سے؟ کسی اور کو ؟ کس کو ؟“ ’
میں نے یکے بعد دیگرے کئی سوال داغ دیے۔
”آپ سوچیں گے کہ شاید میں پاگل ہوں۔ یا پاگل نہ سہی بے وقوف تو ضرور ہوں۔ “
اس نے التجائی آواز میں میری طرف دیکھا۔

” لیکن یہ خط میں اپنے ایک دوست کے لئے لکھوانا چاہتی ہوں۔ دوست نہیں، بس ایک آدمی جس سے میری تھوڑی بہت واقفیت ہے۔ یہ آدمی ایک لڑکی سے ایسے پیار کرتا ہے۔ جیسے بلازوف مجھے چاہتا ہے۔ اس لڑکی کا نام بھی تریزا ہے۔ بالکل میرے نام کی طرح۔ آپ تریزا کے لئے ایک خط اس کی طرف سے لکھ دیں۔ “

میری سوچ گڈ مڈ ہو رہی تھی۔ میں نے تریزا کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ بہت پریشان اور بے چین لگ رہی تھی۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔ پھر اچانک ہر بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں نے غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،

”یہ تم جھوٹ کے پلندے کس لئے باندھ رہی ہو؟ کس کو دھوکہ دے رہی ہو؟ مجھے یا اپنے آپ کو ؟ میں سمجھ گیا ہوں تمہارا جھوٹ۔ کوئی بلازوف نام کا تمہارا منگیتر یا عاشق نہیں ہے۔ کوئی آدمی تمہارا واقف نہیں جو کسی فرضی تریزا کو چاہتا ہے۔ مجھے تمہاری ان کہانیوں سے نہ دلچسپی ہے نہ غرض۔ اور نہ ہی تم آئندہ ایسے بے تکے خط لکھوانے کے لئے میرے پاس آنا۔ سمجھ گئی ہو؟“

تریزا کی آنکھوں میں ایک خوف جھلک رہا تھا۔ وہ ہاتھ باندھے میری میز کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ لڑکھڑا رہی ہے۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن الفاظ نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ وہ کچھ کہہ نہ پائی۔

پھر اچانک تیز تیز قدموں سے تقریباً بھاگتی ہوئی وہ میرے کمرے سے نکلی۔ مجھے اس کا دروازہ زور سے بند ہونے کی آواز آئی۔ اور پھر ایک ایسی آواز جیسے کوئی چیخ کا گلا دبانے کی کوشش کر رہا ہو۔

کاش میں اپنے الفاظ واپس لے سکتا۔ میں نے اس غریب عورت کا دل دکھا دیا تھا۔ میں تیزی سے اٹھ کر اس کے دروازے کی طرف لپکا۔ تریزا بستر پر بیٹھی ہاتھوں میں سر تھامے زار و قطار رو رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر بالکل حیران نہیں ہوئی۔

” میری بات سنو تریزا۔“
میں شرمندہ اور نرم لہجے میں اس سے مخاطب ہوا۔
لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ میرے دل پر آج تک ایسے نقش ہے جیسے کل کی بات ہو۔

تریزا میری جانب بڑھی۔ اس کی آنکھوں سے شعلے برس رہے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر رکی رکی ہچکیوں سے بھری ہوئی آواز میں کہا،

”نہیں۔ تم میری بات سنو سٹوڈنٹ صاحب۔ ٹھیک ہے کہ میری زندگی میں کوئی بلازوف نہیں ہے۔ مانتی ہوں کہ میں نے خیالوں میں اسے گھڑا ہے۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ تمہارے ہاتھ ٹوٹ جاتے اگر تم دو لفظ لکھ کر کسی مظلوم کا دل رکھ لیتے؟ سنو نیلی آنکھوں، سنہری بالوں والے سٹوڈنٹ صاحب، ہاں کوئی بلازوف نہیں۔ کوئی تریزا بھی نہیں۔ اب خوش ہو؟“

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ حیران و ششدر کھڑا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ پھر سراسیمہ ہو کر میں نے پوچھا۔

”تم یہ کیا کہہ رہی ہو کہ بلازوف کا کوئی وجود نہیں؟“
” نہیں۔“
”اور تریزا؟“
” نہیں۔ کوئی تریزا بھی نہیں۔“

میں حیرت سے جیسے اپنی جگہ پر منجمد ہو گیا تھا۔ تریزا مجھے چھوڑ کر میز کے قریب پہنچی۔ چیزوں کو ادھر ادھر کیا جیسے کچھ ڈھونڈھ رہی ہو۔ ایک کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ وہ خط تھا جو میں نے بلازوف کو لکھا تھا۔ وہ طیش بھری آواز میں گویا ہوئی۔

”یہ لو۔ تمہیں اگر اتنی ہی تکلیف ہوئی تھی لکھتے ہوئے۔ یہ لو۔ سنبھالو اپنا خط۔ مجھے نہیں چاہیے۔ میں کسی اور سے لکھوا لوں گی۔“

میں پھر مخمصے میں پڑ گیا تھا۔

”اس کا کیا مطلب ہے تریزا؟ تم دوسروں سے وہ خط کیوں لکھواؤ گی جو میں نے پہلے سے ہی لکھ کر تمہیں دے دیا ہے؟ اور تم نے یہ خط بھجوایا بھی نہیں؟“

” کہاں بھجوانا تھا؟“
” کہاں؟ اپنے بلازوف کو ، اور کہاں؟“
” مسٹر سٹوڈنٹ۔“
اس نے طنز کے زہر میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔

”مسٹر سٹوڈنٹ، تم ویسے تو پڑھے لکھے ہو لیکن تمہاری سنہری بالوں سے ڈھنپی کھوپڑی میں یہ سادی سی بات نہیں آئی کہ بلازوف کا کوئی وجود نہیں ہے۔ “

اب میں مکمل طور پر چکرا گیا تھا۔ لیکن مزید گفتگو بیکار تھی۔ میں واپس جانے کو مڑا ہی تھا۔ کہ اس نے بڑھ کر میرا ہاتھ تھام لیا اور پر شدت جذبات کے غلبے میں کہنے لگی۔

”دیکھو مسٹر سٹوڈنٹ، بلازوف نام کا میرا کوئی آشنا اگرچہ نہیں ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ وہ ہو۔ میں بھی آخر انسان ہوں۔ گوشت پوست کی بنی ہوئی ہوں۔ باقی سب کی طرح۔ میری رگوں میں بھی خون دوڑتا ہے۔ میرے بھی جذبات ہیں۔ اور کسی کا کیا بگڑ گیا اگر میں نے اس کو خط لکھوا دیا؟“

” کس کو ؟“
میرا دماغ بالکل چکرا کر رہ گیا تھا۔
” کس کو ؟ بلازوف کو ۔ اور کس کو ؟“
” لیکن وہ تو ہے ہی نہیں۔“

اب میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے کامل طور پر محروم ہو چکا تھا۔ تریزا کی آواز میں کچھ نرمی آ گئی تھی۔ وہ مجھ سے یوں مخاطب تھی جیسے کوئی استاد کسی طفل مکتب کو ایک دقیق مسئلہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو۔

”دیکھو مسٹر سٹوڈنٹ، میری بات سنو۔ تم ٹھیک کہتے ہو کہ وہ موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کا ہونا ناممکن تو نہیں۔ وہ ہو تو سکتا ہے۔ میں اس کو خط لکھتی ہوں۔ پھر وہ اس کا جواب تریزا کو ، یعنی مجھے، بھجواتا ہے جو میں کسی تمہارے جیسے پڑھے لکھے شخص سے لکھوا لیتی ہوں۔ اور پھر اس کا جواب۔ تو اس طرح، سٹوڈنٹ صاحب میری مشکل زندگی میرے خیالوں میں تھوڑی سی آسان ہو جاتی ہے۔ “

اب مجھ پر ہر ایک بات آشکار ہو گئی تھی۔ میری ندامت اور شرمندگی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ میں اپنی ہی نظروں میں خود کو حقارت سے دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے ایک مظلوم، معاشرے کی دھتکاری ہوئی ہستی کھڑی تھی۔ جس کا زمانے میں کوئی نہیں تھا۔ میں نے اس کی غربت، معمولی شکل و صورت اور نچلے طبقے سے تعلق کی بنیاد پر ایک رائے قائم کر لی تھی جس میں میں نے اس کی انسانیت کو تصور تک میں لانے سے انکار کر دیا تھا۔

پوری دنیا میں تن و تنہا یہ عورت صرف محبت کی بھوکی تھی۔ کسی حقیقی شخص سے نہ سہی، خیالی شخص ہی سے سہی۔ اور میں اتنی سیدھی سادھی بات سمجھنے سے قاصر رہا تھا۔ اس نے تصور میں ایک مجسمہ تراش لیا تھا۔ وہ کسی کا کیا بگاڑ رہی تھی۔

اس دن کے بعد سے میرا یہ معمول بن گیا تھا کہ ہفتے میں دو مرتبہ میں بلازوف کو خط لکھتا۔ پھر تریزا کو اس کا جواب، جن کو پڑھ کر ، بلکہ سن کر ، وہ روتی بھی تھی، ہنستی بھی تھی۔ روٹھ بھی جاتی اور مان بھی جاتی تھی۔ جیسے بلازوف اور تریزا خیالی نہیں، حقیقی ہوں۔

تریزا میرے منع کرنے کے باوجود میری جرابیں رفو کر دیتی، میرے کپڑوں پر استری کرتی اور کمرے کے فرش پر پوتا لگا دیتی تھی۔

اس واقعے کے تقریباً تین مہینے کے بعد ہمسائیوں کے گھر چوری کے شبہے میں پولیس اسے گرفتار کر کے لے گئی جس کے بعد مجھے اس کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

خیر اس بات کو مدت دراز گزر گئی۔ اب میں اسی سال کا ہونے والا ہوں۔ وہ بیچاری خدا جانے زندہ بھی ہو گی یا نہیں۔ تنہائی کے عالم میں کبھی اس کا خیال آ جاتا ہے تو سوچتا ہوں کہ انسان کو زندگی میں جتنی تلخیاں اور کڑواہٹیں ملتی ہیں اتنا ہی وہ مٹھاس کو ترستا ہے۔ اور ہم جو خود کفیلی اور خوشحالی کے لبادے میں لپٹے ہوئے ہیں اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ہم حماقتوں کے ہی نہیں سفاکی کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں۔

ہم گرے ہوئے اور گھٹیا طبقوں کی بات کرتے ہیں۔ لیکن گرے ہوئے اور گھٹیا لوگ کون ہیں؟ کیا تریزا گری ہوئی اور گھٹیا تھی؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایسے ہی گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنے ہیں جیسے ہم۔

اگر دیکھا جائے تو ہم، جو اپنی دولت اور حشمت پر ناز کرتے ہیں، خود اپنے احساس برتری کی تحت الثری میں گرے ہوئے ہیں۔ تریزا جیسے ’گرے ہوئے‘ لوگوں کا خون ہمارے ہاتھوں پر بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments