پراگ اگروال: آخر انڈین نژاد سی ای اوز سیلیکون ویلی پر راج کیسے کر رہے ہیں؟

نکھل انعامدار اور اپرنا ایلوری - بی بی سی نیوز


پراگ اگروال کو اسی ہفتے ٹوئٹر کے سی ای او کے طور پر مقرر کیا گیا ہے جس کے ساتھ وہ دنیا کی سب سے بااثر سیلیکون ویلی کمپنیوں کے ان درجن بھر سربراہوں میں شامل ہوگئے ہیں جن کا تعلق انڈیا سے ہے۔

اب وہ مائیکرو سافٹ کے ستیہ نڈیلا ہوں یا الفابیٹ (گوگل) کے سندر پچائی یا پھر آئی بی ایم، اڈوبی، پالو آلٹو نیٹورکس، وی ایم ویئر اور ویمو جیسی کمپنیاں ہوں، سب کے سربراہان انڈین نژاد ہیں۔

اگرچہ انڈین نژاد امریکی آبادی کا صرف ایک فیصد ہیں لیکن سیلیکون ویلی کی افرادی قوت کا وہ چھ فیصد ہیں۔ تو پھر وہ سیلیکون ویلی میں اعلیٰ عہدوں پر کیسے پہنچ جاتے ہیں؟

ٹاٹا سنز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور ‘دی میڈ ان انڈیا مینیجر’ کے شریک مصنف آر گوپال کرشنن کہتے ہیں: ‘دنیا میں کوئی دوسرا ملک اتنے زیادہ شہریوں کو اتنے مقابلہ جاتی انداز میں ‘تربیت نہیں دیتا’ جتنا کہ انڈیا دیتا ہے۔’

مشہور انڈین کارپوریٹ سٹریٹجسٹ سی کے پرہلاد کے حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘برتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر موت کے سرٹیفکیٹ تک، سکول میں داخلے سے لے کر نوکری حاصل کرنے تک، بنیادی ڈھانچے کی کمیوں سے لے کر ناکافی سہولیات تک کی جدو جہد کے ساتھ انڈیا میں پروان چڑھنے والے انڈینز کو ‘قدرتی مینیجرز’ بنا دیتا ہے۔’

دوسرے لفظوں میں کہیں تو آگے بڑھنے کے مقابلے اور افراتفری کے درمیان وہ فطری طور پر مسائل کے حل سے مطابقت پیدا کرنے والے بن جاتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ درحقیقت وہ امریکہ کے کام کے دباؤ والے دفتری ماحول میں اکثر پیشہ ورانہ افراد کو ذاتی تعلقات والے لوگوں پر ترجیح دیا جاتا ہے۔

مسٹر گوپال کرشنن کہتے ہیں کہ ‘یہ دنیا بھر میں کہیں بھی سرکردہ لیڈران کی خصوصیات ہیں۔’

انڈین نژاد سیلیکون ویلی کے سی ای او بھی ان چالیس لاکھ مضبوط اقلیتی گروپ کا حصہ ہیں جو امریکہ میں سب سے امیر اور سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔

ان میں سے تقریباً دس لاکھ سائنسدان اور انجینیئر ہیں۔ 70 فیصد سے زیادہ ایچ-ون بی ویزے جو امریکہ جاری کرتا ہے وہ انڈین سافٹ ویئر انجینيئروں کو جاتے ہیں۔

یہ ویزے امریکہ میں بیرون ممالک کے لوگوں کو کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ سیئٹل جیسے شہروں میں تمام غیر ملکی پیدا ہونے والے انجینیئروں میں سے 40 فیصد انڈینز ہیں۔

مائیکروسافٹ کے ستیہ نڈیلا

مائیکروسافٹ کے ستیہ نڈیلا

‘دی ادر ون پرسنٹ: انڈینز ان امریکہ’ کے مصنفین لکھتے ہیں کہ ‘اس کا سبب سنہ 1960 کی دہائی میں امریکہ کی امیگریشن پالیسی میں آنے والی بڑی تبدیلی ہے۔’

شہری حقوق کی تحریک کے نتیجے میں، نیشنل-اوریجن کوٹوں کو ہنر اور خاندانی اتحاد کو ترجیح دینے سے بدل دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ انڈین جن میں سائنسدان، انجینیئر اور ڈاکٹرز وغیرہ شامل تھے وہ امریکہ پہنچے اور پھر بڑی تعداد میں، سافٹ ویئر پروگرامرز امریکہ پہنچنے لگے۔

مصنفین کا کہنا ہے کہ انڈین تارکین وطن کا یہ گروہ ‘کسی دوسری قوم کے کسی دوسرے تارکین وطن گروپ سے مشابہت نہیں رکھتا تھا۔’

وہ تین طرح سے ‘قابل انتخاب’ تھے، نہ صرف وہ اعلیٰ ذات کے مراعات یافتہ انڈینز میں سے تھے جو کسی اہم اور معروف کالج میں جانے کی استطاعت رکھتے تھے، بلکہ ان کا تعلق اس ایک چھوٹے طالب علموں کے طبقے سے بھی تھا جو امریکہ میں ماسٹرز کی ڈگری کا مالی بوجھ برداشت کر سکتے تھے اور سیلیکون ویلی کے بہت سے سی ای اوز کے پاس یہ ڈگریاں ہیں۔

اور ویزا سسٹم کا مخصوص مہارتوں کے حامل افراد تک محدود ہونا موثر رہا جس میں اکثر سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی یا سٹیم میں ترجیحی زمرہ کے طور پر جانا جاتا ہے، جو امریکہ کی ‘اعلیٰ درجے کی لیبر مارکیٹ کی ضروریات’ کو پورا کرتا ہے۔

ٹیکنالوجی کے کاروباری اور تعلیمی ماہر وویک وادھوا کہتے ہیں کہ ‘یہ وہ بالائی طبقہ ہے جو ایسی کمپنیوں میں شامل ہو رہا ہے جہاں وہ ترقی کر کے بلند ترین مقام پر پہنچتے ہیں۔ انھوں نے [سیلیکون ویلی میں] جو نیٹ ورک تیار کیا ہے اس سے بھی انھیں ایک فائدہ پہنچا ہے۔ اس نیٹ ورک کے پس پشت ایک دوسرے کی مدد کا تصور کار فرما تھا۔‘

مسٹر وادھوا نے مزید کہا کہ انڈیا میں پیدا ہونے والے بہت سے سی ای اوز نے کمپنی میں اوپر جانے کے لیے محنت کی ہے۔ اور ان کا خيال ہے کہ ان کی عاجزی اور انکساری ان کو اس مقام تک لے جانے کے لیے بہت سے بانی سی ای اوز سے ممتاز کرتی ہے جن پر متکبر اور حقدار ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

مسٹر وادھوا کا کہنا ہے کہ نڈیلا اور پچائی جیسے لوگ ایک خاص مقدار میں احتیاط اور ایک قسم کے ‘نرم’ کلچر کی عکاسی کرتے ہیں جو انھیں اعلیٰ ملازمت کے لیے مثالی امیدوار بناتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کانگریس کی سماعتوں، دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ جاری تنازعات اور سیلیکون ویلی کے مقابلے باقی امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے خلیج کے دوران بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی ساکھ گر رہی ہو۔

بلومبرگ نیوز کے لیے انڈیا میں ٹیک انڈسٹری کی کوریج کرنے والی صحافی سریتھا رائے کہتی ہیں کہ ان کی ‘مدھم اور ، غیر مخروش قیادت’ بہت بڑی افادیت ہے۔

سندر پچائی

سندر پچائی سنہ 2015 میں جب گوگل کے سی ای او بنائے گئے تو ان کی عمر 43 سال تھی

انڈیا نژاد امریکی ارب پتی تاجر اور وینچر کیپیٹلسٹ اور سن مائیکرو سسٹم کے شریک بانی ونود کھوسلہ کا کہنا ہے کہ بہت ساری رسوم و رواج اور زبانیں، انڈیا کا متنوع معاشرہ ‘انھیں [انڈیا پیدا ہونے والے مینیجرز] کو پیچیدہ حالات میں کام کرنے کی صلاحیت بخشتی ہیں، خاص طور پر جب بات تنظیموں کی آزمائشوں کی ہو۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘یہ اور اس کے علاوہ ان کی ‘محنت’ کی اخلاقیات انھیں اچھی طرح سے اس کام کے لیے تیار کرتی ہے۔’

اس کے علاوہ مزید ظاہر وجوہات بھی ہیں۔ بہت سارے انڈینز کا اچھی طرح سے انگریزی بولنا ان کے متنوع امریکی ٹیک انڈسٹری میں ضم ہونے کو آسان بناتا ہے۔ اور انڈیا میں تعلیم کے نظام میں ریاضی اور سائنس پر زور نے ایک فروغ پذیر سافٹ ویئر انڈسٹری کو جنم دیا ہے، طلبہ کو صحیح ہنر کی تربیت دی ہے، جسے امریکہ کے اعلیٰ انجینیئرنگ یا مینجمنٹ سکولوں اور کالجوں میں مزید نکھارا جاتا ہے۔

روپا سبرامنیا نے حال ہی میں فارن پالیسی میگزین میں لکھا کہ ‘دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں انڈین نژاد سی ای اوز کی کامیابی اس بات پر بھی منحصر ہے کہ امریکہ کو کیا صحیح ہے چاہیے، یعنی جو نائن الیون سے پہلے کم از کم صحیح ہوا کرتا تھا وہ بعد میں امیگریشن کی سختی کے بعد محدود ہو گیا۔’

امریکی گرین کارڈز کے لیے درخواستوں میں بہت زیادہ بیک لاگ اور انڈین مارکیٹ میں بڑھتے ہوئے مواقع نے یقینی طور پر بیرون ملک کیریئر کی رغبت کو مدھم کر دیا ہے۔

رائے کہتی ہیں: ‘امریکی خواب کی جگہ اب انڈیا میں سٹارٹ اپ خواب دیکھنے کو مل رہا ہے۔’

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ‘یونیکورن’ کمپنیوں کا حالیہ ظہور جن کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ ملک میں بڑی ٹیک کمپنیاں تیار ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، یہ بتانا ابھی قبل از وقت ہے کہ ان کے عالمی اثرات کیا ہوں گے۔

کھوسلا کہتے ہیں کہ ‘انڈیا کا سٹارٹ اپ ایکو سسٹم نسبتاً کم عمر ہے۔ کاروباری اور ایگزیکٹو دونوں صفوں میں کامیاب انڈینز کے رول ماڈلز نے بہت مدد کی ہے لیکن رول ماڈل کو پھیلنے میں وقت لگے گا۔’

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر رول ماڈل مرد ہی ہیں، جیسا کہ سیلیکون ویلی کے سی ای اوز کی فہرست میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریباً تمام مرد ہیں۔ اور ان کے کیریئر میں تیزی سے اضافہ صنعت سے مزید تنوع کی توقع کرنے کی کافی وجہ نہیں ہے۔

رائے کہتی ہیں: ‘خواتین کی نمائندگی [ٹیکنالوجی کی صنعت میں] کہیں بھی اس کے آس پاس بھی نہیں ہے جو اسے ہونی چاہیے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments