سری لنکن شہری کا توہینِ مذہب کے الزام پر قتل: پولیس سیالکوٹ میں ہجوم کو روکنے میں ناکام کیوں رہی؟


پولیس کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔ درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 800 سے 900 کے قریب افراد، جن میں چھ مسلح بھی تھے، ہنگامہ آرائی کر رہے تھے۔
لاہور — پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری مینیجر کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور پولیس نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سیالکوٹ عمر سعید کہتے ہیں کہ معاملہ حساس نوعیت اور دلخراش ہے۔ مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔

پولیس کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔ درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ کچھ مشتعل افراد کی جانب سے سیالکوٹ وزیرآباد سڑک پر ایک شخص کو آگ لگائی گئی جس نے اُن کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ تقریباً 800 سے 900 کے قریب افراد، جن میں چھ مسلح بھی تھے، ہنگامہ آرائی کر رہے تھے۔

درج کیے گئے مقدمے کے مطابق مرنے والا شخص غیر ملکی تھا جس کی شناخت بعد میں سری لنکا کے شہری کے طور پر ہوئی۔ اس پر لوگوں نے توہینِ مذہب کا الزام لگایا۔ اُسے ڈنڈوں سے مارا اور بعد ازاں اُس کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوئے گھسیٹا اور آگ لگا دی۔

واضح رہے گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے صنعتی شہر سیالکوٹ میں مبینہ توہینِ مذہب کے معاملے پر مشتعل ہجوم نے کپڑے بنانے والے ایک کارخانے کے غیر ملکی مینیجر کو قتل کیا۔ اطلاعات کے مطابق مشتعل ہجوم نے غیر ملکی مینیجر کی لاش کو مارنے کے بعد بے دردی سے جلا دیا۔

مبینہ طور پر توہینِ مذہب کا واقعہ سیالکوٹ میں واقع کھیلوں کے کپڑے بنانے والے ایک کارخانے میں پیش آیا تھا۔

مذکورہ واقعہ پر وزیرِ اعظم عمران خان نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔

ڈی پی او سیالکوٹ عمر سعید بتاتے ہیں کہ واقعے مقدمے میں پولیس خود شکایت کنندہ بنی ہے۔ پولیس کا ایس ایچ او اِس میں شکایت کنندہ ہے۔ ریاست خود اِس میں شکایت کنندہ ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقتول کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے جس کی رپورٹ آنا باقی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ پولیس نے 118 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سے 13 افراد وہ ہیں جو کیمرہ فوٹیج میں واضح نظر آ رہے ہیں جن کا کردار سب کے سامنے ہے۔

اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ باقی 105 افراد وہ ہیں جو وہاں پر موجود ہیں جن کے کردار کا تعین کیا جا رہا ہے۔

ڈی پی او کے مطابق 13افراد وہ ہیں جن کی شناخت یوں ہوئی ہے کہ اُنہوں نے غیر ملکی سری لنکن مینیجر کو مارا اور سارا منصوبہ بنایا۔

اُن کے مطابق پولیس نے واقعے کے بعد سے ہفتے کی صبح چھ بجے تک 250 سے زائد چھاپے مارے ہیں۔

عمر سعید کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے افراد نے اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے سری لنکن مینیجر کو مارا ہے۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ اعتراف کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سری لنکن مینیجر نے فیکٹری کے اندر سے کچھ اشتہارات کو ہٹایا باقی تفتیش ابھی جاری ہے۔

ڈی پی او بتاتے ہیں کہ واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس کی پہلی ٹیم نے، جو کہ پانچ سے چھ افراد پر مشتمل تھی، مشتعل ہجوم کو روکنے کی کوشش کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب ہجوم کی تعداد تین ہزار تھی۔ اتنی کم تعداد میں پولیس اہلکار اتنے بڑے ہجوم کو نہیں روک سکتے۔ البتہ اِس کے باوجود اُن پولیس اہل کاروں نے مشتعل ہجوم کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کی۔

عمر سعید کے مطابق پولیس کو پہلی کال اُس وقت آئی جب سری لنکن مینیجر کی ہلاکت ہو چکی تھی۔ پولیس کو یہ بھی چیلنج تھا کہ کہیں لوگ فیکٹری کے دیگر ملازمین اور خاص طور پر گارڈز کو نشانہ نہ بنائیں جس کو پولیس نے اپنے طریقے سے نمٹا اور فیکٹری کو بچایا۔

Absolutely horrified at inhumane murder of #SriLankan Priyantha Kumara accused of #blasphemy-an abhorrent interpretation of Islam. It’s a shameful day for all of us in Pakistan where we’ve failed our minorities. PMIK is overseeing arrests of all involved & justice will be served pic.twitter.com/lXdNeXWtt7

— Mohammad Sarwar (@ChMSarwar) December 3, 2021

اُن کے مطابق ریسکیو 1122 کو جائے وقوعہ پر پہنچنے میں بھی دشواری کا سامنا رہا۔ اُنہوں نے موقع پر پہنچ کر سری لنکن مینیجر کی لاش کو لگنے والی آگ کو بھجایا اور اُسے اسپتال منتقل کیا۔ جس کے بعد اسپتال پر بھی پولیس کی نفری تعینات کی گئی کیوں کہ لوگ زیادہ مشتعل تھے جس کے بعد چار بجے تک شہر کا امن وامان برقرار کیا اور پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔

’پولیس کو ہر صورت ہجوم کو روکنا چاہیے تھا‘

سابق آئی جی پولیس افضل علی شگری سمجھتے ہیں کہ پولیس کو ہر صورت ہجوم کو روکنا چاہیے تھا۔ خاص طور پر اگر وہ پر تشدد ہو جاتا ہے تو پولیس کو ہر صورت اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

افضل علی شگری کہتے ہیں کہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر مشتعل ہجوم کے مقابلے میں پولیس کی تعداد کم ہے اور پولیس متحرک بھی ہوتی ہے تو ایسا مشتعل ہجوم مزید اشتعال میں آ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اُن پولیس اہلکاروں کی بھی جان جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس نے کہا کہ یہ بات اپنی جگہ طے ہے کہ پولیس والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کسی بھی ہجوم کو، اگر وہ مشتعل بھی ہے تو، روکنے کی کوشش کرے۔

سیالکوٹ واقعہ سے متعلق سابق آئی جی پولیس افضل علی شگری نے کہا کہ پولیس اہل کاروں کو ایسا ہی کرنا چاہے تھا۔

اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب مقامی پولیس کے پاس ایسی اطلاعات آ رہی تھیں تو اضافی پولیس کی نفری کو بلایا جاتا اور مناسب حفاظتی اقدامات کیے جاتے۔ اگر پولیس وہاں پہلے سے موجود ہوتی تو یہ واقعہ اتنا بھیانک نہ ہوتا۔

خیال رہے پاکستان میں توہینِ مذہب کے معاملے پر متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں جس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین پر عمل درآمد کے لیے حکومت سے مطالبہ کرتی رہتی ہیں۔

حال ہی میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی تھی۔

ڈی پی او سیالکوٹ عمر سعید بتاتے ہیں کہ کسی بھی ہجوم کی اور خاص طور پر مشتعل ہجوم کی ایک خاص ذہنیت ہوتی ہے۔ ایسے ہجوم میں جس کی تعداد بھی زیادہ ہو وہ اپنے طریقے سے متحرک ہوتے ہیں۔

عمر سعید کے مطابق مشتعل ہجوم کو جائے وقوعہ سے ہٹانے میں 40 منٹ لگے۔ اُس کے بعد جمعے کے دن کی مناسبت سے مزید حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا گیا کہ کہیں نماز کے بعد شہر میں ریلیاں یا توڑ پھوڑ نہ شروع ہو جائے۔

سابق آئی جی پولیس افضل علی شگری سمجھتے ہیں کہ سیالکوٹ والا واقعہ اتنے کم وقت میں ہوا کہ لاہور یا کسی بھی بڑے ضلع سے پولیس فوری طور پر وہاں پہنچتی تو بھی دیر ہوجاتی۔

اُن کے مطابق اُن کی اطلاعات میں سیالکوٹ واقعہ 30 سے 45 منٹ کے اندر ختم ہو گیا تھا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ آئی جی پنجاب پولیس نے واقعہ سے متعلق جو انکوائری کمیشن بنایا ہے اُس میں اہلکار پیش ہوں گے تو مزید حقائق سامنے آئیں گے اور اُن کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر واقعہ اتنا اچانک ہے کہ اِس سے پہلے کچھ نہیں ہوا تو پھر کسی کا قصور نظر نہیں آتا ہے۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مشتعل ہجوم کی جانب سے سیالکوٹ میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری مینیجر کا مبینہ طور پر توہین مذہب پر قتل المناک ہے۔

اِس سے قبل سیالکوٹ ہی میں 2010 میں کھیل کے دوران معمولی تنازع پر مشتعل ہجوم نے دو نو عمر بھائیوں کو ڈنڈے مار کر ہلاک کر دیا تھا اور بعد میں دونوں بھائیوں کی لاشوں کو شہر میں گھمایا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments