تقسیم ہندوستان کے وقت کشمیر کا حصول کسی ملک کی ترجیح نہ تھا


تاریخ مسخ کرنے کا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا ٹھیک سے تخمینہ نہیں لگا پاتے۔ کشمیر کے مسئلے نے ہمیں 75 سال سے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی اس پہ کھل کر اپنی غیر سنجیدگی کو تسلیم نہیں کیا۔ نہ ہی مطالعہ پاکستان نئی نسل کو یہ بتا پائی کہ کشمیر کو مسئلہ بنانے میں ہم نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر پہ بھارتی قبضہ کی داستان کے پیچھے ہماری عدم دلچسپی کارفرما تھی۔ ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت کیا کشمیر ہماری ترجیح تھا؟ کیا کشمیر کو میدان جنگ کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پہ ہم نے کھو دیا؟ مسئلہ کشمیر کی ناکامی میں سب سے متحرک کردار کون سا ہے؟

بھارتی صحافی کلدیپ نئیر اپنی کتاب
Beyond the Lines-An Autobiography
میں لکھتے ہیں کہ سردار پٹیل کا یہ مسلسل نقطہ نظر رہا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نیئر لکھتے ہیں کہ میرا تاثر یہ ہے کہ اگر پاکستان صبر کرتا تو اسے کشمیر خود بخود مل جاتا۔ ہندوستان اسے فتح نہیں کر سکتا تھا، اور نہ ہی کوئی ہندو مہاراجہ آبادی کی ساخت کو نظر انداز کر سکتا تھا جس میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ جب کہ پاکستان نے اس کے برعکس بے چینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کے دنوں میں ہی قبائلیوں کو باقاعدہ فوج کے ساتھ کشمیر بھیج دیا۔

کلدیپ نیئر آگے کہتے ہیں کہ دوسری طرف یہ سچ ہے کہ نہرو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے خواہشمند تھے اور پٹیل اس کے مخالف۔ یہاں تک کہ جب نئی دہلی کو مہاراجہ کی ہندوستان سے الحاق کی درخواست موصول ہوئی تو پٹیل نے کہا تھا ”ہمیں کشمیر کو اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہیے ہمارے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے“ ۔ وہ اسی بات کے قائل تھے کہ پاکستان کو حیدر آباد کی بات نہیں کرنی چاہیے اور کشمیر پاکستان کو جانا چاہیے۔

اسی سلسلے میں سابق پاکستان کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی اپنی کتاب The Emergence of Pakistan میں ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں۔ ”پارٹیشن کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے سردار پٹیل جو کہ پاکستان کے ایک تلخ دشمن لیکن نہرو سے زیادہ حقیقت پسند تھے۔ دونوں وزرائے اعظم (لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو) کے درمیان ہونے والی بات چیت میں سے ایک میں جس میں وزیر داخلہ سردار پٹیل اور میں بھی موجود تھے لیاقت علی خان نے جونا گڑھ اور کشمیر کے حوالے سے ہندوستانی موقف کی عدم مطابقت پر بات کی۔ اگر جونا گڑھ اس کے مسلم حکمران کے پاکستان سے الحاق کے باوجود اس کی ہندو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کا تھا تو کشمیر اس کی مسلم اکثریت کے ساتھ اس کے ہندو حکمران کے ہندوستان سے الحاق کے مشروط دستاویز پر دستخط کرنے کی وجہ سے ہندوستان کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟ اگر جونا گڑھ کے مسلمان حکمران کے دستخط شدہ الحاق کا دستاویز درست نہیں تھا تو کشمیر کے ہندو حکمران کے دستخط کردہ الحاق کا دستاویز بھی باطل تھا۔ اگر عوام کی مرضی جونا گڑھ میں غالب آنی تھی تو کشمیر میں بھی غالب آنی چاہیے۔ بھارت جونا گڑھ اور کشمیر دونوں پر دعویٰ نہیں کر سکتا۔

چوہدری محمد علی لکھتے ہیں ’جب لیاقت علی خان نے یہ ناقابل تردید نکات پیش کیے تو پٹیل خود پر قابو نہ رکھ سکے اور پھٹ پڑے ”آپ جونا گڑھ کا موازنہ کشمیر سے کیوں کرتے ہیں؟ حیدرآباد اور کشمیر کے بارے میں بات کریں جہاں ہم ایک معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔“

چوہدری محمدعلی مزید تبصرہ کرتے ہیں کہ پٹیل کا اس وقت اور اس کے بعد بھی نظریہ یہ تھا کہ ہندوستان کی مسلم اکثریتی علاقوں کو عوام کی مرضی کے خلاف اپنے پاس رکھنے کی کوشش طاقت کا نہیں بلکہ ہندوستان کی کمزوری کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اگر ہندوستان اور پاکستان کشمیر کو پاکستان اور حیدرآباد کو ہندوستان جانے دینے پر راضی ہو جائیں تو کشمیر اور حیدرآباد کے مسائل پرامن طریقے سے حل ہوسکتے ہیں اور ہندوستان اور پاکستان کے باہمی فائدے میں ہیں۔

سردار شوکت حیات جو کہ کشمیر آپریشن کے نگران تھے اپنی کتاب The Nation That Lost Its Soulمیں اسی تسلسل کو آگے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے انہیں ایک ڈنر پہ سردار پٹیل کا پیغام پہنچایا کہ پاکستان کشمیر کو حیدر آباد دکن کے بدلے میں لے سکتا ہے جس کے ساتھ نہ پاکستان کا کوئی زمینی رابطہ ہے نہ فضائی۔

سردار شوکت حیات آگے کہتے ہیں کہ یہ پیغام دینے کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن لاہور کے گورنمنٹ ہاؤس میں سو گئے۔ میں کشمیر آپریشنز کا مجموعی انچارج ہونے کے ناتے لیاقت علی خان کے پاس گیا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ چونکہ ہندوستانی فوج کشمیر میں زبردستی داخل ہو چکی ہے اور ہم کشمیر کو قبائلی مجاہدوں یا اپنی ناکافی مسلح افواج کے ساتھ الحاق کرنے سے قاصر ہوں گے ہمیں پٹیل کی تجویز کو قبول کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔

نوابزادہ (لیاقت علی خان) میری طرف مڑ کر بولے ”سردار صاحب کیا میں پاگل ہو گیا ہوں کہ کشمیر کی چٹانوں کی خاطر پنجاب سے بڑا حیدرآباد چھوڑ دوں؟“ میں وزیر اعظم کے ردعمل اور ہمارے جغرافیہ سے ناواقفیت اور ان کی دانشمندی کی کمی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے اور حیدر آباد حاصل کرنے کی امید میں پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا، جو کہ بہترین طور پر صرف ایک عجیب خواہش مندانہ سوچ تھی۔ اس کا پاکستان سے کہیں تعلق نہیں تھا۔ احتجاج کے طور پر میں نے کشمیر آپریشنز میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

سیف الدین سوز کانگریس کے سابق وزیر اور منجھے ہوئے پارلیمنٹرین ہیں وہ اس واقعہ کو زیاد تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ جب ہماری فوج سری نگر میں اتری تو اسی دوپہر ماؤنٹ بیٹن لاہور گئے۔ پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح، وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان اور پاکستان کے چار وزراء کے ساتھ عشائیہ تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے کہا میں ہندوستان کے طاقتور آدمی سردار پٹیل کا پیغام لایا ہوں۔ کشمیر کو لے لو اور حیدرآباد دکن کو بھول جاؤ یہ تم سے کسی بھی طور جڑا نہیں ہے۔

جہاں تک جناح کا تعلق ہے وہ ایک وکیل تھے۔ انہوں نے جونا گڑھ کے لیے کشمیر کے تبادلے کی تجویز پیش کی کیونکہ دونوں ریاستیں کئی طریقوں سے ایک دوسرے کی آئینہ دار تھیں۔ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے غیر مسلم حکمران نے اپنی ریاست کو ہندوستان میں شامل کر لیا تھا۔ جونا گڑھ ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے مسلم حکمران نے اپنی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کر لی تھی۔ جناح نے دلیل دی کہ چونکہ جونا گڑھ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ہے اس لیے انہیں پاکستان کے گورنر جنرل ہونے کے ناتے ہندوستان کے ساتھ ریاست کے مستقبل پر بات کرنے کا حق ہے۔ لیکن چونکہ حیدرآباد کے حکمران نے اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے اسے ریاست کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے یا حیدرآباد کے حکمران کو اپنی مرضی کے خلاف اپنی ریاست کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔

اے۔ جی نورانی جو ایک تسلیم شدہ اسکالر ہیں اور مسئلہ کشمیر پر کافی علم رکھتے ہیں انہوں نے اپنے ایک مضمون A tale of two states میں لکھتے ہیں کہ ’ایک چوتھائی صدی بعد 27 نومبر 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے لنڈی کوتل میں ایک قبائلی جرگے کو بتایا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ اور ریاستوں کے وزیر۔ سردار پٹیل نے ایک مرحلے پر جونا گڑھ اور حیدرآباد کے بدلے کشمیر پاکستان کو دینے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن پاکستان نے بدقسمتی سے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف تینوں آبائی ریاستیں کھو دیں بلکہ مشرقی پاکستان بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments