سانحہ سیالکوٹ:کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں؟


جب بیماریاں زیادہ ہوجائیں تو طبیب بھی کچھ نہیں کر پاتے، مریض مر جاتے ہیں، پاکستانی معاشرہ بھی اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ انتہا پسندی کا مرض لا دوا ہو چکا ہے، یہاں ہر طبقہ انتہا تک پہنچ جاتا ہے، درمیان کا راستہ اختیار کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ مذہبی لوگ جنہیں دائیں بازو کے نام دیا جاتا ہے وہ بائیں بازو والوں کی بات سننے کو تیار نہیں۔ بائیں بازو والے کسی دائیں والے کی بات نہیں سنتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ ہم نے معاشرے میں ٹائم بم لگا دیے ہیں ان بموں کو ناکارہ نہ کیا تو وہ پھٹیں گے ہی اور کیا کریں گے، وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل رہا ہے بہت توجہ چاہیے بہت توجہ۔

سوال یہ ہے کہ اس معاشرے کو اس نہج پر پہنچانے میں کس کس کا کردار نہیں رہا، کیا ان کی حکومت اس ”گناہ“ میں شامل نہیں؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تشدد کا رجحان کیونکر عام ہوا؟ کیا اسلام سیالکوٹ طرز کے واقعہ کی اجازت دیتا ہے؟ ایک طرف سیاحت کو فروغ دینے کی باتیں کی جاتی ہیں دوسری طرف باہر سے آنے والے انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، یہ تضاد کیوں ہے؟

یہ قصہ پرانا ہے، یہ مرض ایسے ہی نہیں لادوا بنا، اس میں سبھی کا حصہ ہے۔ کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ سننے کے لئے بھی حوصلہ چاہیے، اسرائیلی قبضے کے لیے امریکی حمایت، کشمیر میں بھارتی دہشت گردی، افغانستان اور چیچنیا میں روسی جارحیت اور ”تہذیبوں کے تصادم“ کے تحت مغربی اسلام مخالف مہم نے خونریزی کی وحشیانہ ثقافت کو جنم دیا۔ پاکستان میں شدت پسندی افغانستان پر روس کے حملے ( 1989 ) کا نتیجہ ہے، جسے شیعہ سنی پراکسی جنگ نے پروان چڑھایا، پاکستان کی طرف سے ”مجاہدین“ کے لیے امداد کی وجہ سے یہ انتہا پسندی اور شدت پسندی اور بڑھ گئی، آخر کار، نائن الیون کے بعد تیزی آئی۔ مبینہ طور پر ’ڈالر‘ کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے والے مدارس کے سلسلے نے اسلام کی غلط تشریح کی۔ سماجی نا انصافی، ناخواندگی اور دائمی غربت نے آگ کو مزید جلا بخشی۔ ”ڈو مور“ کے امریکی دباؤ نے مزید ناراضگی پیدا کی۔

یہ جو شر ہے جس میں یہ معاشرہ گرفتار ہے، یہ وہاں سے شروع ہوا تھا جب ایک ناحق کا قتل ہوا تھا، ہماری قوم، ہمارا معاشرہ یہ نہیں کہہ سکا تھا کہ یہ ایک ناحق کا قتل ہوا ہے، گولی کہاں سے آئی تھی؟ اس کو کئی طبقات نے رتبہ ”غازی“ پر فائز کر دیا تھا، قانون کے علم برداروں نے پھول کی پتیاں نچھاور کی تھیں۔ پاکستان کی رسوائی پوری دنیا میں ہو رہی ہے، ہمارے اکابرین کو شرم تک نہیں آتی۔ منہ سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ انتہا پسندی آج ایک بڑی سیاسی دکان بن چکی ہے، سیالکوٹ کا واقعہ تو جمعہ کو ہوا ہے، جن کے لئے چناب پل پر خندقیں کھودنا پڑیں ان کو وہاں تک کس نے پہنچنے دیا؟

کہتے ہیں پولیس سیالکوٹ میں بروقت نہیں پہنچی؟ پولیس کے ساتھ جو جی ٹی روڈ پر ہوا کسی کو یاد نہیں۔ لاہور میں حکومتی سینٹر کی طرف سے پہنائے گئے پھولوں ہار یاد نہیں۔ جو پولیس کے شہدا کی لاشوں سے گزر کر کہتے ہیں کہ ”ہم انتخابی اتحاد کریں گے“ جب معاشرے، ریاستیں کمزور ہوجائیں تب ایسے واقعات ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ عدم برداشت نہیں ریاستی اور حکومتی کمزوری ہے۔

یہ دکھ اور سنجیدہ بات ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون پر حاوی ہوجائیں تو ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے جو آج طاری ہے، ہمارا امیج پہلے ہی خراب تھا اس واقعہ سے مزید خراب ہوا ہے، ہم جن اصولوں کی بات کرتے ہیں، بہت ساری کہانیاں ہیں لیکن عمل نہیں۔ معاشرے کی اصلاح کے مستقبل قریب میں آثار نظر نہیں آتے، کوئی اور واقعہ ہو گا اور ہم بھول جائیں گے۔ جیسے پہلے واقعات ہوئے اور ہم بھول گئے، سانحہ ساہیوال، رحیم یار خان، مردان، چارسدہ کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔

اس وقت معاشرے میں دو رجحانات ہیں۔ ایک یہ کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے، دوسرا رجحان ہماری ریاست بنیادی ذمہ داریاں سر انجام دینے میں ناکام ہے۔ ہم اس مقام پر بتدریج پہنچے ہیں، ان کی ذمہ داری ہمارے اداروں کو لینا پڑے گی۔

مذہب کے نام پر مذہب کے استحصال کی بنیاد جنرل ضیا الحق نے رکھی تھی۔ ایک بڑی تحریک گھڑی گئی۔ گستاخی کے مرتکب افراد کے لئے کڑی سزائیں رکھی گئیں لیکن جھوٹے مقدمات قائم کرنے والوں کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی تھی۔ اٹھارہویں ترمیم میں کئی شقوں کو چھیڑا گیا لیکن 295 بی اور سی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ کیونکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے مذہبی جماعتوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے حالات سے سمجھوتہ کیا ہے، جب تک حالات سے سمجھوتہ کرتے رہیں گے تب تک معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ہمارے محکموں، ججوں اور وکلا نے مل ملا کر ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ ہر ایک کو شہ مل رہی ہے، جس کو موقع ملتا ہے اینٹ، پتھر اٹھا کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہا ہے، سزا کا ڈر، سزاؤں پر عمل نہیں ہو گا تب تک مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

پاکستان کی سیاست میں مذہب کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا مخمصہ 1977 سے 1988 کے دوران ضیاء کے دور میں شدت اختیار کر گیا جب وہ اپنی اسلامائزیشن پالیسیاں نافذ کر رہے تھے۔ افغان جنگ کے آغاز کے ساتھ ضیاء کے دور نے نہ صرف اسلام کی مختلف تشریحات کے تحت فرقہ وارانہ خطوط پر نسلی اور مذہبی جماعتوں کے عروج کی حوصلہ افزائی کی بلکہ بالآخر سنی اور شیعہ تصادم کو بھی جنم دیا جس نے معاشرے کو مزید پولرائز کیا۔

مدارس کا نیٹ ورک پورے ملک میں ابھرا اور پروان چڑھا۔ انہوں نے سعودی عرب، دیگر عرب ممالک اور امریکہ کی قیادت میں مغرب کی پشت پناہی میں جہادی عناصر کو افزائش گاہ فراہم کی۔ اس طرح قائم ہونے والے رجحان کو جہاد کی کامیابی سے تقویت ملی اور دنیا بھر کے اسلام پسندوں نے جبر اور سیاسی نا انصافی کے خلاف اپنی جدوجہد میں مذہب کو فیصلہ کن عنصر سمجھا۔

اس انتہا پسندی کے پیچھے ایک وجہ معاشی تقسیم بھی ہے، امیر اور غریب میں اتنا خلا پیدا ہو چکا ہے کہ روٹی اور روزگار سے محروم لوگ امیروں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں، معاشی دباؤ کے شکار لوگ ڈپریشن میں آ کر بھی ”سانحہ سیالکوٹ“ جیسی حرکتیں کرتے ہیں اور اسے مذہب کا رنگ دے کر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سری لنکن شہری اور ملزموں میں معاملہ کچھ اور تھا اور اسے رنگ مذہب کے دے دیا گیا۔ کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ یہ سلسلہ یہیں رک جائے گا تو اس کی بھول ہے، حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ ہم نے جو اپنے ہاتھوں سے گانٹھیں لگائی ہیں انہیں اپنے ہاتھوں سے کھولتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments