کچھ سری لنکا کے بارے میں



اس کرہ ارض پر سات بڑے خشکی کے قطعے (براعظم ) موجود ہیں جو اس سیارہ زمین کا صرف 29 فی صد خشک حصہ ہے باقی 71 فیصد سیارہ پانی ہی پانی (سمندر) ہے۔ یہ سات ٹکڑے دنیا کے اس بڑے 71 فی صد سمندر پر دراصل سات جزیرے ہیں۔ ان میں سے چھ آباد اور ایک انٹارکٹیکا غیر آباد برفانی ہے۔ جو حالات گلوبل وارمنگ کے جا رہے ہیں عین ممکن ہے کہ بہت جلد انٹارکٹیکا بھی آباد ہونے والا ہے۔ برصغیر یا انڈین سب کونٹینٹ دراصل دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا کا دو تہائی سے بھی زائد حصہ بنتا ہے جسے جنوبی ایشیا بھی کہا جاتا ہے۔ اس خطے میں سارک کے ممالک آباد ہیں۔

اس خطے کو یہ نام دراصل بحر ہند میں موجود انڈین ٹیکٹونک پلیٹ کے باعث دیا گیا ہے جو کئی لاکھ سال پہلے ایک بڑے براعظم ”گوندوانا“ سے الگ ہوا تھا۔

برصغیر اس وقت آٹھ ممالک پر مشتمل ہے۔
ہندوستان۔
پاکستان۔
نیپال۔
بنگلہ دیش۔
سری لنکا۔
بھوٹان۔
مالدیپ۔
انڈونیشیا/افغانستان۔ (ان دو پر جغرافیہ دانوں کا اختلاف ہے ) ۔

ان آٹھ ممالک میں سے اس وقت سب سے زیادہ شرح خواندگی سری لنکا اور مالدیپ کی ہے جو کہ 92 فیصد سے زیادہ ہے۔ مالدیپ چونکہ فقط 300 مربع کلومیٹر اور چار ساڑھے چار لاکھ آبادی کا ملک ہے جبکہ سری لنکا 65610 مربع کلومیٹر کے ساتھ دو کروڑ اکیس لاکھ آبادی کا ملک ہے لہذا خواندگی کی شرح میں سری لنکا کا نمبر برصغیر میں سب سے اوپر ہے۔

سری لنکا میں خواندگی کا معیار بھی کم از کم بارہ جماعت پاس کرنا ہے یعنی اس سے کم پڑھے ہوئے کو وہاں ان پڑھ کی فہرست میں ڈالا جاتا ہے۔ جبکہ ہندوستان اور پاکستان میں خواندگی کا معیار سرکاری تعریف کے مطابق یہ رکھا گیا ہے کہ

”جو اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہو خواندہ کہلاتا ہے۔“

سری لنکا کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ وہاں ریڑھی والے یا خوانچہ فروش سے بھی خریدوفروخت کریں گے تو آپ کو سنہالہ اور تامل زبانیں (سری لنکا کی لنگوا فرانکا) سیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ خوانچہ فروش بھی آپ سے اچھی معیاری انگریزی میں گفتگو کر سکتا ہے۔

اب آخر میں ایک سچا واقعہ سنیئے۔

ہمارے فارن فیکلٹی کے کچھ اساتذہ تعلیمی و تفریحی دورے پر پندرہ روز کے لئے سری لنکا گئے۔ واپسی پر بھرے ہوئے کلاس روم میں انہوں نے یہ واقعہ سنایا۔

”ہم سب سری لنکا کے مختلف علاقوں اور جنگلوں میں محظوظ ہوتے پھر رہے تھے۔ اس دن موسم گرم مرطوب تھا۔ ہم ٹرین میں سوار ہوئے۔ اس ٹرین میں سری لنکا کے مقامی لوگوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں کی کثرت تھی۔ ہم نے ریل کی پٹری پر دیکھا تو تاحد نگاہ ہمیں کوئی کچرا کوئی خالی لفافہ یا کوڑا نظر نہ آیا۔ ریل گاڑی میں ایک مقامی سری لنکن تازہ کچے ناریل کے اوپر سٹرا لگا کر بیچ رہا تھا۔ ہمیں پیاس لگی تو ہم سب نے ایک ایک ناریل لے لیا اور پینے لگے۔

ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی ہم نے ناریل خریدے وہ مقامی سری لنکن ناریل بیچتے بیچتے ہمارے سروں پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ ہم حیران ہوئے لیکن کچھ نہ بولے۔ تھوڑے بے چین ضرور ہوئے کہ ہمارے گھونٹ کیوں گنتا ہے۔ آخر ناریل پانی ختم ہوا تو ہم نے کھڑکی کھولی اور جیسے ہی ناریل باہر پھینکنے لگے اس ناریل والے نے لپک کر ہمیں آواز دی اور انتہائی ادب سے ہمارا شانہ ہلا کر ایک پٹ سن کی بوری کا منہ کھول کر ہمارے سامنے کر دیا۔ یہ بوری خالی ناریلوں سے آدھی بھری ہوئی تھی۔

”سر پلیز یوز دس بیگ۔“
ہم شرمندہ سے ہو گئے۔
ہم نے خود ہی اندازہ لگا کر پوچھا
”اچھا تو تم اس ناریل کا پانی ختم ہونے کے انتظار میں ہمارے سروں پر کھڑے تھے۔ ؟
وہ تھوڑا سا شرما کر بولا

”سر پلیز ڈونٹ مائنڈ بٹ ویری آفن پاکستانی اینڈ انڈین ٹورسٹس تھرو دس اوئے فرام ونڈو۔ دیٹس وائی آئی ڈو دا سیم ایوری ٹائم۔“

”جناب محسوس مت کیجیئے گا مگر اکثر اوقات پاکستانی اور بھارتی سیاح اسے ایسے ہی اس کھڑکی سے باہر پھینک دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں ہر بار ایسا ہی کرتا ہوں۔ (یعنی اپنی بوری لے کر ان کے سر پر کھڑا رہتا ہوں اور جیسے ہی وہ یہ حرکت کرنے لگتے ہیں تو میں یہ بوری آگے کر دیتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments