مینار پاکستان مختار مسعود نے نہیں بنوایا تھا


جاوید چودھری ایک بڑے اخبار میں کالم لکھتے ہیں، جاوید چودھری کمال کے قصہ گو ہیں، ماضی میں بادشاہوں کے درباروں میں قصہ گو ہوا کرتے تھے جو کئی کئی دن ایک ہی قصہ سناتے رہتے ، ان کی مہارت یہ تھی کہ کئی کئی روز گزرنے کے باوجود قصہ گو سامعین کو بور نہیں ہونے دیتے تھے، قصہ میں کہاں مرچ مصالحہ ڈالنا ہے ان کو علم ہوتا تھا اور یہی ان کا فن تھا

جاوید چودھری نے 30 نومبر کو اپنے کالم میں قصہ گوئی کا کمال مظاہرہ کیا، مختار مسعود ادیب، مصنف ہوں گے مگر جاوید چودھری نے ان کی شان بڑھانے کی حد ہی کردی، اپنے قصہ کے آغاز میں لکھا کہ لاہور میں مینار پاکستان مختار مسعود نے بنایا جس کو پڑھ کر میں چونک دیا،کسی کی محبت میں اتنا بھی اندھا نہیں ہونا چاہیئے کہ جس نے اپنے بارے میں جو کچھ کہا یا لکھا اس کو حقیقت مان لیا جائے اور اس کی کوئی تحقیق نہ کی جائے.

مختار مسعود اب دنیا میں نہیں رہے، مگر انہوں نے پاکستان کی ساتھ جو ظلم کیا ہے وہ تاریخ میں کالے حروف کے ساتھ لکھا جا چکا ہے ،جاوید چودھری کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اس لئے ضروری سمجھتا ہوں، لوگوں کے سامنے حقائق لاﺅں تاکہ تاریخ کو مسخ ہونے سے بچایا جاسکے

مینار پاکستان کا ڈیزائن روسی نژاد آرکیٹیک این مرات خان کی فرم نے کیا تھا، میرے والد آرکیٹیک سید اعجاز حسین کاظمی مرحوم نے نیشنل کالج آف دی آرٹس سے آرکیٹیکچر کرنے کے بعد پہلی ملازمت مرحوم این مرات خان کے پاس کی. کچھ عرصہ بعد مینار پاکستان کے ڈیزائن کا کام شروع ہوا، سید اعجاز حسین کاظمی ڈیزائن سیکشن کے ہیڈ تھے جو براہ راست این مرات خان کی زیرسرپرستی کام کرتے تھے

یہ واقعات والد مرحوم کی زبانی سنے ہوئے ہیں، جب مرحوم مختار مسعود نے آواز دوست لکھی تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان مرحوم ایوب مارتھ نے والد مرحوم کو یہ کتاب تحفہ میں دی تھی جس میں مینار پاکستان کا ایک باب تھا، وہ باب پڑھ کر والد مرحوم نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اور حقائق کو سامنے لانے کا عزم کیا

80ء کی دہائی میں کراچی سے آرکیٹیکٹس کا ایک میگزین architime شائع ہوا کرتا تھا (اب علم نہیں کہ شائع ہورہا ہے کہ نہیں) اس میں آرکیٹیک سید اعجاز حسین کاظمی مرحوم نے مختار مسعود کو ایک ایک بات کا جواب دیا تھا، والد مرحوم کے جواب پر مختار مسعود نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور چپ سادھ لی تھی کیونکہ والد مرحوم مینار پاکستان کے بننے کے چشم دید گواہ تھے۔

سید اعجاز حسین کاظمی نے لکھا تھا کہ ایک دن باس مرات خان انتہائی غصہ کے عالم میں دفتر میں داخل ہوئے اور سیدھا ان کے ٹیبل پر آئے اور بتایا کہ کمشنر لاہور مختار مسعود سے آج جھگڑا ہوگیا ہے کیونکہ نے کمشنر نے مینار پاکستان جو کہ اس وقت تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کا ڈیزائن بدل دیا ہے، اب کمشنر خود آرکیٹیک بن رہا ہے اس کا یہ کام ہی نہیں ہے، i am the architect، کمشنر لاہور کا کہنا تھا کہ مینار کے آخر میں گنبد بنایا جائے، اصل ڈیزائن میں گنبد نہیں تھا جس پر مرات خان نے اپنا ڈیزائن تبدیل کرنے سے انکار کردیا تھا

آرکیٹیک این مرات خان نے مینار پاکستان کے ڈیزائن کی فیس نہیں لی تھی اور جب ان کی کمپنی کے ساتھ مینارپاکستان ڈیزائن کرنے کا معاہدہ ہوا تو این مرات خان کی فیس کے خانہ میں تاریخی الفاظ لکھے تھے humble donation for the nation

بیوروکریسی ہر دور میں طاقت ور اور منہ زور رہی ہے، کافی دن یہ معاملہ چلتا رہا بالآخرمختار مسعود اپنی بات منوا کر رہے۔ اس طرح مینار پاکستان اصل ڈیزائن سے ہٹ کر مکمل ہوا، مینار پاکستان کی تکمیل کے بعد کہا گیا کہ اس کا افتتاح صدر مملکت جنرل ایوب خان کریں گے، جنرل ایوب خان نے مینار پاکستان بنانے والوں کو تمغہ حسن کارکردگی دینے بھی اعلان کیا۔

کمشنر لاہور مختار مسعود نے تمغہ حسن کارکردگی کیلئے فہرست تیار کی تو اس میں آرکیٹیک این مرات خان کا نام بھی شامل تھا مگر سرفہرست نام خود کمشنر لاہور مختار مسعود نے اپنا لکھا تھا جس پر این مرات خان نے شدید احتجاج کیا کہ چھ، سات سال سے مینار پاکستان تعمیر ہورہا ہے اس دوران پانچ کمشنر تبدیل ہوئے ہیں سب نے اس منصوبے کے لئے بہت کام کیا ہے پھر ان کے نام بھی فہرست میں شامل کئے جائیں جس پر مختار مسعود نے بیوروکریٹک رویہ اپنایا اور کہا کہ نہیں میں نے مکمل کرایا ہے اس لئے صرف میرا نام ہی ہوگا

این مرات خان کیونکہ غیر ملکی تھے اس لئے انہوں نے مختار مسعود سے اتفاق نہ کیا اور بضد رہے کہ سب سے پہلے اس کمشنر کا نام لکھا جائے جس نے یہ منصوبہ شروع کرنے کے لئے دن رات کام کیا ہے اور بعد میں آنے والے کمشنر حضرات کے نام بھی فہرست میں شامل کئے جائیں، مختار مسعود نے اس کو انا کا مسئلہ بنا لیا جس سے بات بہت زیادہ بڑھ گئی

این مرات خان نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور کہا کہ وہ خود صدر جنرل ایوب خان سے بات کریں گے جس پر مختار مسعود نے ایسا کام کیا جس سے تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی، انہی دنوں میں ملکی سیاست کے حالات انہتائی گھمبیر ہو گئے، محترمہ فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے درمیان سیاسی کشیدگی بہت زیادہ بڑھ چکی تھی

مختار مسعود نے فیصلہ کیا کہ اگر دیگر کمشنر حضرات کو بھی تمغہ حسن کارکردگی ملے گا تو تاریخ میں ان کا نام نہیں آئے گا پھر مختار مسعود نے خراب سیاسی حالات کا فائدہ اٹھایا اور یہ کہہ کر مینار پاکستان کو افتتاح کئے بغیر ہی عوام کے کھول دیا کہ اس وقت ملکی حالات سازگار نہیں ہیں اس لئے یادگار کو عوام کے لئے فوری طور پر کھولا جا رہا ہے جب حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو صدر جنرل ایوب خان مینار پاکستان کا افتتاح کر دیں گے

ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ آج تک مینار پاکستان کا افتتاح نہیں ہوا، این مرات خان کے انتقال کے بعد آرکیٹیک سید اعجاز حسین کاظمی نے اخبارات کے ذریعے حکمرانوں سے بارہا مطالبہ کیا تھا کہ اس یادگار کو لاوارث نہ رہنے دیا جائے اور اس کا افتتاح کیا جائے، سینئر صحافی نعیم مرتضی لاہور میں موجود ہیں جنہوں نے سید اعجاز حسین کاظمی کا انٹرویو کیا تھا اور وہ انٹرویو فیملی میگزین میں شائع ہوا تھا، اس انٹرویو کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد سید اعجاز حسین کا ظمی کا انتقال ہوگیا تھا۔

نعیم مرتضی نے مجھ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا پروگرام تھا کہ وہ اگلے انٹرویو میں میرے والد مرحوم کے ساتھ مینار پاکستان جا کر تصاویر کے ساتھ ایک ایک جگہ کی تفصیل پوچھیں گے اور اس کو سلسلہ وار شائع کریں گے مگر زندگی نے میرے والد کو مہلت نہ دی، نعیم مرتضی نے لاہور پر جو کتابیں لکھی ہیں ان میں این مرات خان اور سید اعجاز حسین کاظمی کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

ان حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد کوئی یہ دعوی نہ کرے کہ مینار پاکستان صرف مختار مسعود نے بنوایا تھا گو کہ وہ اپنی کتاب میں اس کا کریڈٹ لیتے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں، مختار مسعود نے مینار پاکستان کے افتتاح کے موقع پر بھی ڈنڈی ماری اور کتاب لکھ کر خود ہیرو بننے کی ناکام کوشش کی جس کو سید اعجاز حسین کاظمی نے ناکام بنا دیا۔ اس کے بعد مختار مسعود نے زندگی میں مینار پاکستان بنوانے کا دعوی نہیں کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments