ہمارے ہاں روڈ انجینئرز نہیں ہوتے


لاہور کے ایکسپو سینٹر میں ایک نجی تعلیمی ادارے کے زیر اہتمام پاک چائنہ بزنس کانفرنس جاری تھی جس میں چائنہ کی مختلف کمپنیوں نے اپنے کاروباری سٹالز لگائے ہوئے تھے اور ڈیلر شپ کے حوالے سے بھی کافی کمپنیاں پیش پیش تھیں جہاں بیشتر چینی کمپنیاں کاروباری تشہیر کے لیے سٹالز لگائے کھڑی تھیں وہیں پاکستانی چند نوجوان بھی سٹالز پر موجود تھے قریب سےدیکھنے پر معلوم ہوا کہ ٹرانسلیٹرز جن کو قومی زبان میں مترجم کہا جائے گا موجود تھے (مزے کی بات اِس سے اگلی کانفرنس میں چائنیز نے اپنی زبان کو چھوڑ کر انگریزی سیکھ لی اور وہ مترجم حضرات بھی ان ایک کروڑ لوگوں کی فہرست میں آگئے جن کو لگتا ہے عمران خان صاحب نوکریاں دیں گے:تفصیلی بات اس پر پھر کبھی) خیر معاملہ یہ نہیں یہ تو ٹریلر تھا اب آپ کو لیے چلتے ہیں اسی ایکسپو میں موجود ایک کانفرنس پر جس کا ریکٹر کانفرنس تھا سٹیج پر بہت سی کرسیاں لگی ہوئیں تھی جن پر پاکستان کی تمام نجی و سرکاری بڑی یونیورسٹیوں (کرسیاں بہت زیادہ لگ بھی نہیں سکتی تھیں کیونکہ سٹیج بھی چھوٹا تھا اور فائدہ یہ ہو گیا کہ یونیورسٹیاں بھی بہت زیادہ نہیں تھیں نا!) کے وی سی صاحبان براجمان تھے ایک دو یونیورسٹیوں کی نمائندگی خواتین بھی کر رہیں تھیں جو کہ خوش آئند بات تھی خیر اتنے وی صاحبان کے جھرمٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین جنابِ نظام الدین بھی موجود تھے سب نے بیشتر روائتی کم نئی باتیں کیں ہم بھی مدعو تھے اور کچھ نیا تلاش رہے تھے کہ لاہور گیریژن یونیورسٹی کے وی سی صاحب نے گویا ہوئے فرمانے لگے سی پیک جب شروع ہو رہا تھا تو چند چائنیز ہمارے پاس آئے تھے کہ ہمیں روڑ انجینئرز چاہیے ہیں تو میں بہت پریشان ہوا  اور انکو بتایا ہمارے ہاں روڈ انجینئرز نہیں ہوتے تو وہ چلے گئے یہ بات سُن کر میں بھی سوچ میں پڑا ہمارے ہاں تو ایک ہی ہوتا ہے سول انجینئر جو سڑکیں ،پلیں اور اگر کام نا مل رہا ہو تو نالیاں سولنگ یہ سب کام کرتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو کسی بڑے آدمی کی وفات پر قبر کا ٹھیکہ بھی نکلے تو وہی کرتے ہیں یہ روڈ انجینئرز کس بلا کا نام ہے میں ہوتا تو گزارش کرتا اگر آپکو سول انجینئرز چاہیے ہیں تو وہ وافر مقدار میں بے روزگار ہیں شاید انکا بھلا ہی ہوجائے (وہ تو بھلا ہو کال سینٹرز والے گوروں کا جو پاکستان میں سستی لیبر کی غرض سے کال سینٹر بنا لیتا ہے جہاں ڈاکٹرز،انجینئرز ،صحافی ،آئی ٹی ایکسپرٹ و دیگر باعزت طریقے سے برسرِ روزگار آتے ہیں)
اب چیئرمین ایچ ای سی موجود تھے اور سب یونیورسٹیوں کے سربراہان بھی مجھے ایک اچھا گمان طاری ہو گیا کہ یار! سب صاحبانِ قدر و منزلت ہیں فیصلے کا قلم بھی موجود ہے شاید کوئی بہتری آجائے لیکن قارئین وہ کچھ عرصہ وہ رہے سالوں گزر گئے آج بھی ہمارے پچھلے سالوں کی طرح کوئی لگ بھگ بیس ہزار کے انجینئرز کا انتظار ہماری تعمیراتی  انڈسٹری کر رہی ہوگی بڑے پراجیکٹس پر ہم لوگ ہائیر کر لیں گے اور ان شاء اللہ کانفرنسوں میں ایسے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہے گی اسی کے ساتھ تقریب کے اختتام پر مہمانانِ ذی وقار کو اعزازی اسناد دی گئیں اور ہال میں بیٹھے ہائیر ایجوکیشن کے ہزاروں طلباء نے تالیاں بجا کر شکریہ ادا کیا۔۔۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments