کیا بیوی دوست بھی ہو سکتی ہے؟


یقین مانیے، نئی سوچ کے تو ہم شروع ہی سے مخالف ہیں۔ کوئی بھی تبدیلی ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سیاسی منظر نامے پر لائی گئی ”تبدیلی“ کے ثمرات تو سب کے سامنے آ ہی چکے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ خاندانی ڈھانچے یا سماجی اقدار میں تبدیلی کی کوشش کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے عافیت تو اسی میں ہے کہ مزید تبدیلی کا تجربہ کرنے کی بجائے، جو کچھ جیسا بھی چل رہا ہے اسے ویسا ہی چلتا رہنے دیا جائے۔ مگر شومئی قسمت یہاں ایسے نابغے بھی پائے جاتے ہیں جو ہاتھ دھو کر ہمارے خاندانی نظام اور سماجی ڈھانچے کے پیچھے پڑے ہیں۔ اب میاں بیوی کے رشتے ہی کو لے لیجیے۔ ہمارے جیسا خاندانی نظام اور کس کے پاس ہے بھلا؟ جس کی بنیاد صد ہا برس کی مشرقی دانش پر استوار ہے۔ کبھی ہندوستان کے سماج میں بیویاں شوہر کی چتا کے ساتھ ہی ستی ہو جایا کرتی تھیں۔ پھر ہم مسلمان ہو گئے۔ قبول اسلام کے بعد ستی کی قبیح رسم کا جواز باقی نہیں رہا۔ اسی لیے اب بیویوں کو ستی ہونے کے لیے شوہر کی موت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ یا تو خود جیتے جی مر جاتی ہیں یا پھر خاوند کو مار رکھتی ہیں۔ یوں تو مذہب نے مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے، مگر کچھ خود سر بیویاں مرد پر حاوی رہنے کے لیے ان احکامات کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ خیر وہ آخرت میں خود جوابدہی کریں گی۔ مگر یہ تو طے ہے کہ ہمارے ہاں دونوں میں سے کسی ایک فریق کا ببر شیر اور دوسرے کا بھیگی بلی بن کر رہنا ہی کامیاب شادی کی کلید ہے۔

مگر آج کے دور میں مغربی تہذیب کی یلغار مشرقی روایات کے مضبوط قلعے میں نقب لگانے کے درپے ہے۔ مغربی تہذیب سے مرعوب لنڈے کے لبرل ہمیں سمجھاتے پائے جاتے ہیں کہ میاں بیوی کا رشتہ برابری کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ دونوں ایک ہی گاڑی دو کے دو پہیے ہیں۔ اس لیے دونوں کو ایک دوسرے کا دوست بن کر زندگی گزارنی چاہیے۔ سننے میں یہ سب کس قدر دلفریب ہے۔ نہ تو بیوی خاوند کو مجازی خدا مان کر اس کی پرستش کرنے پر مجبور ہو گی۔ اور نہ ہی خاوند کو بیوی کی بد مزاجی اور چڑچڑے پن کے باعث زیادہ وقت گھر سے دور گزارنا پڑے گا۔ مگر اس ظاہری چکا چوند پر مت جائیے۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اسی روز کے لیے شاعر مشرق ہمیں اپنی ملت پر اقوام مغرب سے قیاس نہ کرنے کا سبق پڑھا گئے تھے۔ اگر مغربی طرز زندگی اتنا ہی معتبر ہوتا تو مغرب کا خاندانی نظام ایسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہر گز نہ ہوتا۔

بھلا خاوند اور بیوی دوست کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ اپنے دوستوں کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ کیا بیوی کے ساتھ ایسی بے تکلفی ممکن ہے؟ ذرا اپنی بیوی کو اپنے معاشقوں کی داستان سنا کر تو دیکھیے۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ کیا آپ دوستوں کی طرح اپنی بیوی کو بھی فحش لطیفے سنا سکتے ہیں؟ یا بیوی کے ساتھ بیٹھ کر ٹوٹے دیکھ سکتے ہیں؟ یا رالیں ٹپکاتے ہوئے اپنی کسی کولیگ کی فگر پر تبصرہ کر سکتے ہی؟ نہیں نا؟ ہماری مشرقی شرم و حیا ہمیں یہ سب کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ سب حرکات دوستوں کے حلقے ہی میں مناسب ہیں۔ اگر پھر بھی آپ بیوی کو دوست بنانے پر مصر ہیں، تو بہتر ہے کہ کسی دوسرے کی بیوی کو دوست بنا لیں۔ آپ کا شوق بھی پورا ہو جائے گا اور مشرقی اقدار بھی پامالی سے بچ جائیں گی۔

اپنی بیوی کو ہمیشہ خود سے ذرا فاصلے پر ہی رکھیے۔ خیال رہے اس سے مراد جسمانی فاصلہ ہرگز نہیں۔ آپ نے صرف اپنی ذات کو ایک خول میں بند کر کے رکھنا ہے۔ ہمارے خاندانی نظام کی یہ بھی ایک خوبصورتی ہے کہ جنسی عمل ذہنی ہم آہنگی کا متقاضی ہرگز نہیں۔ ظاہر ہے آپ بیوی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں تو آپ کو ٹھنڈا کرنا اس کا فرض منصبی ٹھہرا۔ بیوی کو دوست بنانے کا یہی نقص کیا کم ہے کہ جب اس کا موڈ نہیں ہو گا تو کھل کر کہہ دے گی۔ اور جب اس کا موڈ ہو گا تب بھی کھل کر کہہ دے گی۔ توبہ توبہ۔ اب کیا یہی کچھ سننا باقی رہ گیا ہے؟ کسی دوسرے کی بیوی کو دوست بنائیں گے تو اس کا کھل کر کہنا بھی بھلا معلوم ہو گا۔

روز اول ہی سے بیوی کو فاصلے پر رکھیں گے تو وہ سر پر چڑھنے کی بجائے آپ کے رعب میں رہے گی۔ ویسے بھی ہمارے مذہب نے مرد کو عورت پر حاکم بنایا ہے۔ بیوی کو دوست بنانے کی خواہش مذہبی احکامات کی سرا سر خلاف ورزی ہے۔ کون غالب رہے گا؟ اس کا فیصلہ تو شادی کی پہلی رات ہی ہو جاتا ہے۔ اسی لیے خاندان کے سیانے اور سیانیاں، دلہا اور دلہن کو اس معرکے کے لیے تیار کر کے اکھاڑے میں اتارتے ہیں۔ ہماری مشرقی تہذیب انہی سیانوں اور سیانیوں کے بل پر ہی تو قائم ہے۔ یہ نہ ہوتے تو جانے ہم کب سے کھوکھلی مغربی روایات کی چکا چوند کا شکار ہو چکے ہوتے۔ اس لیے نئے جوڑوں کے لیے یہی مشورہ ہے کہ ان سیانوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رہیں اور میاں بیوی کے دوست بن کر رہنے جیسی کوئی خواہش ذہن کے کسی کونے کھدرے میں چھپی بیٹھی ہے تو اس کا پہلی فرصت میں گلا گھونٹ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments