”تندی باد مخالف“ قسط۔ 5


لاہور جنرل ہسپتال کے ایم ایس (میڈیکل سپرنٹنڈنٹ) سے ملاقات بے سود رہی۔ جب پروفیسر اعجاز احسن سے رابطہ ہوا تو جو فضائل انہوں ایم ایس کے بیان کیے، ان کا لب لباب یہ تھا جو کوئی ان کی بزم سے نکلا پریشان بلکہ پشیماں نکلا۔ آج تک وہاں سے کوئی فیض یاب نہیں ہوا، آپ کو وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی، سیدھے میرے پاس چلے آتے۔ انہوں نے میری درخواست پر دستخط کر دیے اور میں کشاں کشاں ہیلتھ سیکریٹیریٹ میں جا پہنچا۔ ایڈیشنل ہیلتھ سیکریٹری، ڈاکٹر عبد الرشید سے ملاقات ہوئی۔

انہوں نے مجھے سیکشن افسر گریڈ ٹو کے پاس بھیج دیا۔ میرا خیال تھا کہ میں آرمی میں جانے سے پہلے پبلک سروس کمیشن کا امتحان، نومبر 1976ء میں، پاس کر چکا ہوں، آرمی سروس مکمل کر چکا ہوں، لاہور جنرل ہسپتال میں آسامی خالی ہے اور پروفیسر صاحب میری درخواست پر صاد بھی کر چکے ہیں، لہذا مجھے ایک دو دن میں تقرری کا پروانہ مل جائے۔ لیکن سیکشن افسر نے جب یہ کہا کہ درخواست آپ چھوڑ جائیں، دو دن بعد آ کر پتہ کر لیں، میں دیکھوں گا کہ آپ کے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں جتنا میں سمجھ بیٹھا تھا۔ دو دن بعد حاضر ہوا تو فرمایا: آپ کی تقرری ہم نے مارچ 1976ء میں راولپنڈی میڈیکل کالج میں کی تھی، لیکن آپ نے وہاں رپورٹ ہی نہیں کی، کیوں؟

جنوری کے دوسرے ہفتے میں تو میں فوج میں دھر لیا گیا تھا۔ مارچ میں، میں ایبٹ آباد میں ٹریننگ کے سلسلے میں گیا ہوا تھا اور جب اپریل کے دوسرے ہفتے گھر آیا تو آپ کا خط ملا تھا۔ ایک تو میں آرمی سروس میں تھا، اوپر سے آپ کا خط بھی زائد المیعاد ہو چکا تھا۔ میں ایسی صورت میں کیا کر سکتا تھا، میں نے کہا۔

کہنے لگے اب آپ کا پبلک سروس کمیشن کا امتحان زائد المیعاد ہو چکا ہے، جائیے، دوبارہ سے امتحان پاس کر کے میرے پاس آئیے، آپ کی تقرری ہو جائے گی۔ میں انہیں قائل کرنے کی اپنی سی کوشش کر دیکھی مگر ان صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا۔

میں دس دن در بدر ہوتا رہا، پتہ نہیں کتنے لوگوں سے سیکشن افسر کے حضور سفارشیں کروائیں۔ بڑی مشکل سے ان کا دل پسیجا اور مجھے یہ مژدہ سنایا کہ کہ آپ کی درخواست، میں نے ڈپٹی سیکریٹری کو بھیج دی ہے۔ ان سے بات کر لیں۔ ان سے ملا۔ یہ بڑے صاحب مردم بے بیزار اور متلون مزاج دکھائی پڑے۔ انہوں نے میری درخواست میں نقص نہیں نکالے بلکہ درخواست گزاری میں، میرے جرائم کی ایک فہرست جاری فرما دی۔ سر فہرست جرم، میری جائے پیدائش تھی اور آخری جرم راولپنڈی میڈیکل کالج میں رپورٹ نہ کرنا تھا۔ میں نے صدق دل سے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا

اور عرض کیا، ان جرائم کا ارتکاب تو میں فوج میں جانے سے پہلے کر چکا تھا اور آخری جرم تو آرمی سروس کے دوران ہوا۔ حیرت کی بات ہے کہ فوج جیسا منظم ادارہ میرے ان جرائم سے آگاہ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہ کر پایا۔ بہت بد مزہ ہوئے۔ کہنے لگے میں اس درخواست پر دستخط نہیں کر سکتا۔ میں کیا کر سکتا تھا، اٹھ کر آ گیا۔ عقل و دانش کی بات ہے کہ ان جرائم، یعنی جائے پیدائش، والدین، قبیلہ، رنگ، نسل اور مذہب جیسے جرائم، جن کی وضاحت بھی نہیں کی جا سکتی، کے ہم سبھی مرتکب ہوتے ہیں کہ یہ ہمارا ذاتی انتخاب نہیں ہوتے۔ میرا خیال یہ ہے کہ جو شخص اپنی جائے پیدائش، والدین، قبیلہ، رنگ اور نسل کی ودیعت پر نالاں اور اپنے مذہب پر پشیمان ہو، اسے زندہ رہنے کوئی حق نہیں۔ اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ کسی اور دنیا میں جا بسے یا پھر بابا بھلے شاہ کے الفاظ میں :

چل بھلیا، چل اوتھے چلیے، جتھے سارے انہے۔ نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے، نہ کوئی سانوں منے

جون کے دن تھے۔ گرمی شباب پر تھی۔ چند دن بعد میں گرمایا ہوا، افسروں کا ستایا ہوا اور جھنجھلایا ہوا، ایڈیشنل سیکریٹری کے دفتر میں جا داخل ہوا اور کہا : میں آپ کے دفتروں کا دو ہفتے سے طواف کر رہا ہوں، ہسپتال میں آسامی بھی ہے، پبلک سروش کمیشن کا امتحان بھی پاس کر چکا ہوں، آرمی سروس کا پہاڑ بھی سر کر چکا ہوں، پھر بھی مجھے دفتروں کے چکر کیوں لگوائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور دربان کو بلا کر ٹھنڈا پانی لانے کا کہا۔

مجھے پانی پلا کر انہوں نے سیکشن افسر کو میری فائل کے ساتھ اپنے دفتر میں بلا لیا۔ وہ آ تو گیا مگر فائل کے بغیر۔ کہنے لگا، ان کی فائل ڈپٹی سیکریٹری کے دفتر میں ہے۔ کہا جاؤ اور فائل پر ان کے دستخط کروا کر لے آؤ۔ جب ڈپٹی صاحب نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو انہیں فائل سمیت ہی وہاں بلوا لیا۔ اور انہیں اپنے سامنے دستخط کرنے کا کہا۔ ان صاحب نے کچھ پس و پیش کے بعد دستخط تو کر دیے مگر اس طرح جیسے کوئی پستول دکھا کر آپ کی رقم ہتھیا لے۔ مجھے تقرری کا پروانہ تو مل گیا مگر معلوم نہیں سہواً یا عمداً، ہسپتال میں کسی شعبہ میں تقرری کو ایم ایس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔

ایک دو دن بعد میں پھر لاہور جنرل ہسپتال کے ایم ایس، ساجد سیف اللہ کے دفتر میں جا پیش ہوا۔ فرمایا، کون سے وارڈ میں جانا چاہتے ہو؟ سرجیکل وارڈ میں، میں نے کہا۔ تم فی الحال ٹی بی وارڈ میں چلے جاؤ۔ میں بعد میں تمہیں سرجیکل وارڈ میں بھیج دوں گا۔

میرا پہلے ہی بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے، میں وقت کے مزید ضیاع کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آپ برائے مہربانی، مجھے سرجری کے شعبہ میں بھیج دیں۔ سر دست تو تمہیں ٹی بی وارڈ میں ہی جانا پڑے گا۔

مجھے یاد آیا کہ پروفیسر اعجاز احسن صاحب نے کہا تھا کہ ’آج تک وہاں سے کوئی فیض یاب نہیں ہوا‘ ۔ میں کان لپیٹ کر ٹی وارڈ میں چلا گیا۔ ٹی بی وارڈز، 8، 9 اور 10 پر مشتمل اور مسائل کی آماجگاہ تھے۔ یہ کوئی علٰیحدہ سے شعبہ نہیں تھا، یہ وارڈ، میو ہسپتال کے ’شعبہ امراض سینہ‘ کے اضافی مریضوں کے لئے قیام گاہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ مریضوں کا داخلہ، میو ہسپتال سے پروفیسر عزیز اور اسسٹنٹ پروفیسر نیازی کرتے تھے اور وہی ہفتے میں تین مرتبہ آ کر وارڈ راؤنڈ کر جایا کرتے تھے۔ جنرل ہسپتال سے ان تین وارڈوں، یعنی نوے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک ڈاکٹر مقرر کیا جاتا تھا۔ یہ ڈاکٹر، مریضوں کی سہولیات تو کیا ان کی ضروریات بلکہ ادویات کا بندو بست بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سب انتظامات، ہسپتال کی انتظامیہ، جو ان وارڈوں کو اپنے ہسپتال کا حصہ نہیں سمجھتی تھی، کے پاس تھے۔ یہ تو ایک جنرل کو ، بغیر سپاہ کے، چھرے والی بندوق ہاتھ میں تھما کر ٹینکوں کے سامنے کھڑا کرنے والی بات تھی۔

ان وارڈوں میں مریض، ہفتوں نہیں مہینوں رہنے اور طبی عملہ کی کمزوریوں اور ان کے محدود اختیارات کی علتوں سے واقف ہونے کے باعث، ان سے نالاں رہتے تھے۔ یہاں تک کہ چند مریضوں نے، منہ زبانی، مزدور یونین کی طرز پر ’انجمن بہبود مریضاں‘ بنا رکھی تھی۔ یہ انجمن مریضوں کی سہولیات کی بہم رسانی کے لئے کم اور دھونس جمانے اور نرسوں کو ہراساں کر نے کے لئے زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ چناں چہ ہسپتال کا عملہ بجا طور پر ان سے سر گرداں رہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی ڈاکٹر ان وارڈوں میں کام کرنا نہیں چاہتا تھا۔

میری ڈیوٹی صبح 8 سے دوپہر 2 بجے تک ہوتی تھی۔ 2 بجے کے بعد اگلے دن کی صبح تک، کاغذوں میں، ایمرجنسی کی صورت میں میڈیکل وارڈ کا آن کال (On Call) عملہ مریضوں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ لیکن عملی طور پر اس طرح کی کبھی کوئی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔ انہیں کبھی وارڈ میں بلایا نہ انہوں کوئی مریض دیکھا۔ میں خود ہی رضا کارانہ طور پر ہر شام 8 سے 9 بجے تک وارڈوں کا چکر لگایا لیا کرتا تھا۔ مریضوں کے لئے ادویات کی فراہمی، ایک حل طلب مسئلہ تھا۔

روز کے روز ہر وارڈ سے ایک کتابچہ جسے انڈنٹ بک (Indent Book) کہا جاتا تھا، پر ادویات کی مقدار لکھ کر ڈی ایم ایس کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ ڈی ایم ایس، سیاہ روشنائی سے، سو گولیوں کو کاٹ کر پچھہتر اور ایم ایس مزید کٹوتی کے بعد انہیں سرخ روشنائی سے ساٹھ کر دیتے تھے اور کچھ ادویات پر سرے سے ہی لکیر پھیر دیتے تھے۔ اس طرح کٹ کٹا کر ، یہ ادویات تیس مریضوں کی بجائے صرف اٹھارہ مریضوں کی رہ جاتی تھیں اور وہ بھی پوری نہیں۔

نرسیں ادویات کی مقدار کم کر کے سب مریضوں میں برابر برابر تقسیم کر دیتی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ ادویات ملتی ہی نہیں تھیں کہ ان پر تو ایم ایس نے لکیر پھیر دی ہوتی تھی۔ اس معاملے میں ایم ایس سے متعدد مرتبہ بات ہو چکی تھی لیکن ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ ہمارے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں۔ مریض اس بات پر برہم ہو کر لڑنے مارنے پر اتر آتے تھے۔

جولائی 1979ء کے وسط کی بات ہے، مجھے یہاں کام کرتے ہوئے ابھی ایک ماہ گزرا تھا کہ ایک دن گورنر کے مشیر صحت، برگیڈیئر عطا محمد، ہسپتال کا دورہ کرنے آ پہنچے۔ اس طرح کے دورے صرف سیاسی شعبدہ بازی کے لئے ہوتے ہیں۔ مقصد، محکمہ صحت کے عملہ پر اپنی طاقت، اہلیت اور اہمیت کو جتلانا اور عوام کے سامنے سیاسی کار کردگی دکھانا ہو تا ہے۔ کام کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہوتا۔ میں وارڈ نمبر دس میں راؤنڈ کر رہا تھا کہ مجھے وارڈ نمبر نو میں بلا یا گیا۔ وہاں ایک بارات سی اتری ہوئی تھی۔ بریگیڈیئر صاحب ایک مریضہ کے پاس کھڑے تھے، فرمایا، یہ مریضہ شکایت کر رہی ہے کہ تین دن سے اسے متلی ہے لیکن اسے کوئی دوائی نہیں دی گئی؟

یہ مریضہ پانچ دن قبل داخل ہوئی تھی۔ اسے ٹی بی کی ادویات دی جا رہی ہیں۔ ٹی بی کی ادویات خاصی مقدار میں دی جاتی ہیں۔ اگرچہ ابتداء میں ان کی خوراک مجوزہ مقدار سے کم رکھی جاتی ہے اس کے باوجود یہ ادویات چند مریضوں میں متلی کا سبب بنتی ہیں، جو آہستہ آہستہ چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے۔ یہ مریضہ پچھلے تین دن سے متلی کی شکایت کر رہی ہے۔ میں ہر روز اسے سمجھاتا رہا۔ کل شام آٹھ بجے، جب میں وارڈ میں آیا تھا تو اس نے پھر مجھے بتایا تھا تو میں نے ایک انجیکشن اس کے لئے تجویز کیا تھا، میں نے انہیں تفصیلات بتا دیں۔

تو کیا یہ انجیکشن مریضہ کو لگا؟
رات کو جو نرس ڈیوٹی پر تھی، وہ اس وقت یہاں نہیں ہے۔ اس لئے میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

مریضہ سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اسے انجیکشن نہیں لگایا گیا۔ مریضہ کا چارٹ دیکھنے کی بجائے نرسز کے وارڈ راؤنڈ کا رجسٹر دیکھا گیا، وہاں سوائے کل کی تاریخ کے اور کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ آگے چلے تو ایک اور مریضہ نے شکایت کی کہ وہ کل تین بجے سے اس وارڈ میں داخل ہے مگر اسے کوئی دوائی نہیں دی گئی۔ یہ نرسوں کے معاملات تھے، مگر ایم ایس یا ڈی ایم ایس نے مجھے دھکیل کر آگے کر دیا۔ میں نے بتایا کہ یہ مریضہ کل میری ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد تین بجے آئی تھی۔

میں شام کو یہاں آیا تھا تو اس کی ادویات اس کے چارٹ پر لکھ گیا تھا۔ یہ تو کوئی نرس ہی بتا سکتی ہے کہ اسے ادویات کیوں نہیں ملیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب روز کے روز طلب کی گئی ادویات کٹ کٹا کر آدھی مقدار میں دن کے دس گیارہ بجے وارڈ میں پہنچیں گی تو ایک دن پہلے داخل ہونے والے مریض کو اس دن کی دوائی کہاں سے ملے گی؟ اس مریضہ کی ادویات آج مہیا کیے جانے کا امکان ہے۔ مشیر صاحب خاموش ہو کر آگے کو چل دیے۔

وارڈ نمبر نو سے نکل کر ہم سبھی وارڈ نمبر آٹھ میں آ پہنچے۔ یہ وارڈ سیاست کی آماج گاہ تھا۔ یہ ’انجمن بہبودی مریضاں‘ کے کارکنان اور ترجمانوں سے بھرا پڑا تھا۔ انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ سب نے شکایت کی کہ ادویات بر وقت یا بالکل نہیں ملتیں۔ ایم ایس نے فرمایا کہ وارڈ سے جو ادویات ہم سے طلب کی جاتی ہیں، ہم وہ مہیا کر دیتے ہیں، اب پتہ نہیں ان مریضوں کو ادویات بروقت کیوں نہیں ملتیں۔ یہ سن کر بریگیڈیئر صاحب آگے چل دیے۔

اس وارڈ کے آخری دو تین مریض، سب مریضوں کے خود ساختہ ترجمان تھے۔ انہوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ اول تو دوا ہمیں ملتی نہیں، اگر ملے تو خوراک پوری نہیں ہوتی۔ مجھ سے پوچھا گیا تو میں، جو انتظامیہ کے منافقانہ رویے سے بھرا بیٹھا تھا، پھٹ بڑا اور نرس سے کہا کہ وہ موجودہ اور پچھلے ہفتے کی انڈنٹ بکس (Indent Books) لے آئے۔ ان کتابچوں کا ایک ایک ورق بریگیڈیئر صاحب کو دکھاتے ہوئے کہا، جب گولیوں کی مقدار سو سے کم کر کے ساٹھ کر دی جائے اور کچھ ادویات پر سرخ لکیر پھیر دی جائے تو وارڈ کی نرسیں اور ڈاکٹر ادویات کہاں سے لائیں؟

ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ انجمن کے ترجمان بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ ان ترجمانوں کی دوسری شکایت یہ تھی کہ ڈاکٹر انہیں بر وقت دیکھتا نہیں۔ میں نے کہا جب مریض بستر پرہی نہ ہو تو ڈاکٹر مریض کو کیسے دیکھے۔ یہ تینوں مریض میرے منع کرنے باوجود، جب ان کا جی چاہے، وارڈ سے نکل جاتے ہیں۔ باہر پھرپھرا کر جب اپنی مرضی سے واپس آتے ہیں تو میں وارڈ راؤنڈ ختم کر کے دوسرے کاموں میں مصروف ہوتا ہوں۔ اس طرح، میں انہیں دیکھ نہیں پاتا۔ بریگیڈیئر

صاحب نے پوچھا تو کیا ان تین وارڈوں آپ اکیلے ہی کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا، جی ہاں، میں یہاں اکیلا ہی کام

کرتا ہوں، ۔ ایم ایس صاحب آگے بڑھے اور کہا، نہیں یہ غلط کہ رہا ہے، ان وارڈوں میں چار ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔ میں ہکا بکا ایم ایس کے منہ کو دیکھنے لگا اور کہا کہ میرے علاوہ اور کوئی بھی یہاں کام نہیں کرتا۔ ایم ایس نے دفتر میں ٹیلیفون کر کے ایک نوٹس منگوا لیا جو دو ہفتے پہلے جاری ہوا تھا۔ اس میں واقعی چار ڈاکٹروں کے نام لکھے ہوئے تھے، ایک سینیئر رجسٹرار، دو میڈیکل آفیسرز اور ایک ہاؤس فزیشن۔ میں نے پھر کہا، میں یہ نوٹس آج پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں، اس کے باوجود میں پھر کہوں گا کہ میرے علاوہ اور کوئی ڈاکٹر ان وارڈوں میں کام نہیں کرتا۔

بریگیڈیئر صاحب کچھ بوکھلا سے گئے تھے۔ انہوں نے سینیئر رجسٹرار سے پو چھا، کیا آپ یہاں کام کرتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ میں یہاں کام نہیں کرتا، مجھے تو صرف یہ کہا گیا تھا کہ یہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی راہنمائی کر دیا کروں، لیکن آج تک کسی ڈاکٹر نے مجھ سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ مشیر صاحب نے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ ایک تو مجھے آج پتہ چل رہا ہے یہاں کسی کو میرا راہنما مقرر کیا گیا ہے، دوسرے راہنمائی تو مجھے پہلے سے ہی پروفیسر صاحبان کی میسر ہے، مجھے راہنمائی نہیں، ہاتھ بٹائی چاہیے۔

دوسرے میڈیکل افسر ، جس کا نام لسٹ میں تھا، کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ شامل بارات نہیں ہیں۔ اب ہاؤس افسر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہاں کام کرتا ہے تو اس نے کہا کہ مجھے تو ابھی پتہ چلا ہے کہ میرا نام یہاں کام کرنے والوں کی لسٹ میں ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے محفل کو خوش گوار بنانے کے لئے کہا، اچھا ہوا پتہ چل گیا، تو کیا آپ کل سے یہاں کام کرنا شروع کر دیں گے؟

ہر گز نہیں، اس نے کہا۔
کیوں؟

میں نے جنرل میڈیسن میں ہاؤس جاب کی درخواست دی تھی۔ میں جنرل میڈیسن میں کام کر رہا ہوں، ٹی بی وارڈ میں، میں ہر گز کام نہیں جاؤں گا۔ بے شک آپ مجھے ملازمت سے بر طرف کر دیں۔ (میں نے الفاظ کو ذرا نرم کر دیا ہے۔ اس ہاؤس افسر نے نہایت گستاخانہ الفاظ کہے تھے ) ۔ مشیر صاحب سکتے میں چلے گئے اور سر جھکائے وارڈ سے نکل گئے۔

مشیر کے جانے کے بعد میں وارڈ نمبر نو میں گیا اور اس مریضہ کا چارٹ نکال کے دیکھا تو نہ صرف ادویات کے سیکشن میں انجیکشن کا اندراج تھا بلکہ کل شام کے راؤنڈ میں اسے دیکھنے اور اس کے معائنے کی مکمل تفصیلات بھی درج تھیں۔ وارڈ نرس میرے پاس کھڑی یہ دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا، کیا میں نے اس چارٹ میں ابھی کچھ لکھا؟ کہنے لگی، نہیں۔ میں نے کہا، میری تحریر کے نیچے لکھیں ’مشیر صحت کے راؤنڈ کے بعد جب مریضہ کا چارٹ دیکھا گیا تو اس میں مندرجہ بالا تحریر کا اندراج پہلے سے موجود تھا‘ ۔

شام کو وارڈ میں آیا۔ سٹاف نرس سے پوچھا کہ آپ نے کل شام اس مریضہ کو انجیکشن کیوں نہیں لگایا؟ کہنے لگی، میں سرنج میں دوائی بھر کر جب اس کے پاس گئی تو اس نے انجیکشن لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔ جب مریضہ سے پوچھا کہ اس نے ٹیکہ کیوں نہیں لگوایا تو اس نے کہا، مجھے ٹیکہ لگنے سے درد ہوتا ہے۔ اتنے میں اس کے ساتھ والی بستر کی مریضہ جو پڑھی لکھی تھی، جسے میں ہر وقت کچھ پڑھتے یا لکھتے ہوئے دیکھتا تھا، نے کہا، ڈاکٹر صاحب! میں اس بات کی گواہ ہوں کہ کل شام آپ وارڈ میں آئے تھے۔ ہم سب سے حال احوال پوچھا تھا۔ اس مریضہ کے پاس تو آپ بہت دیر تک کھڑے رہے تھے۔ اس کا معائنہ بھی کیا تھا اور دوا بھی تجویز کی تھی لیکن آپ کے جانے کے بعد اس نے ٹیکہ لگوانے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے دو کورے کاغذات اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ ایک کاغذ پر آپ اپنے دستخط کے ساتھ لکھ دیں جو آپ نے دکھایا سنا اور دوسرے کاغذ پر اس مریضہ کے دستخط یا انگوٹھے کے ساتھ، اس کے اپنے الفاظ میں وہ لکھیں جو یہ بیان کرے۔ دوسرے کاغذ پربھی آپ اپنے دستخط کر دیں۔ میں خود وہاں سے چلا گیا۔ دوسرے دن میں نے وہ کاغذات اور چارٹ کے آخری صفحے کی فوٹو کاپی کروا کر اپنے پاس رکھ لیے۔

ہفتے عشرے میں ایم ایس کی طرف سے وضاحت طلبی کا نوٹس آن پہنچا: ’بیان کیا جائے کہ اس مریضہ کو بر وقت دیکھا اور اس کا علاج کیوں نہیں کیا گیا‘ ۔ میں نے اس نوٹس کا بڑا دل چسپ جواب لکھا۔ ہسپتال کے دفتر سے میں نے ایم ایس کے اس نوٹس کی کاپی لے کر اپنے پاس رکھ لی تھی، جس کے مطابق ان وارڈوں میں ڈاکٹر مظہر بطور راہنما یا سربراہ، دو میڈیکل آفیسرز اور ہاؤس افسر کام کرتے تھے۔ میں نے لکھا: ’جناب ایم ایس صاحب! آپ کے نوٹس مؤرخہ۔

کے مطابق ڈاکٹر مظہر ان وارڈوں کے راہنما یا سربراہ ہیں۔ اصولی طور پر آپ کو ڈاکٹر مظہر سے وضاحت طلب کرنی چاہیے تھی کہ وہ ان وارڈوں کے سربراہ ہیں۔ یا پھر ہاؤس افسر سے، جس کی ڈیوٹی آپ کے نوٹس کے مطابق ہر روز چوبیس گھنٹے ہوتی ہے۔ میں سردست آپ کو آپ کا اپنا بنایا ہوا، ڈاکٹروں کا ڈیوٹی روسٹر، (Duty Roster) چارٹ کی فوٹو کاپی، مریضہ اور اس کی پڑوسی مریضہ کا بیان بھیج رہا ہوں۔ اگر معاملہ پھر بھی وضاحت طلب رہے تو میں مزید وضاحت دینے کو تیار ہوں۔ اس کے بعد ایم ایس صاحب نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔

(جاری ہے )
ڈاکٹر جمیل احمد میر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments