ترکی بہ ترکی کا محاورہ ایران میں رائج نہیں


ترکی بہ ترکی بھلے فارسی ترکیب ہو لیکن فارسی، خاص طور سے ایرانی فارسی، میں رائج نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ یہ خالص ہندوستانی محاورہ ہے۔

ترک سلاطین اور مغلوں کے دور میں دہلی اور آگرہ والے ہندی بولتے تھے لیکن لکھنے پڑھنے کا کام فارسی میں ہوتا تھا۔ سرکاری زبان فارسی سہی، لیکن شاہی محل میں اور دوسرے مغل امراء کی حویلیوں میں بچوں کی پرورش ترک مامائیں کرتی تھیں اور انھیں ترکی زبان سکھائی جاتی تھی۔ کم از کم جہانگیر کے عہد تک تو ضرور ایسا تھا۔

اس طرح اشرافیہ کا ایک محدود طبقہ ترکی میں گفتگو کر سکتا تھا۔ جو چیز اشرافیہ سے متعلق ہوتی ہے، قابل رشک ہو جاتی ہے۔ مثلاً سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک امیر کبیر بڑے لوگ ولایت سے پڑھ کر لوٹتے تھے اور انگریزی بولتے تھے۔ معاشرہ امیروں کے عیب و ہنر اور دیگر خصوصیات کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگ امیروں کی نقل کھانے پینے پہننے میں کرتے ہیں۔ ان خصوصیات میں ایک زبان بھی ہے۔ اگر کسی غریب کا بچہ انگریزی کا جواب انگریزی میں دے لیتا ہو تو یہ اس کے اور اس کے والدین کے لئے باعث فخر ہوتا ہو گا اور دوسروں کے لئے رشک کی بات تھی۔

پہلے کسی زمانے میں جب انگلستان میں انگریزی صرف جاہل گنوار بولتے تھے اور اشرافیہ کی زبان فرانسیسی تھی تو لوگوں کو فرانسیسی سیکھنے بولنے پر فخر کا احساس ہوتا تھا۔ حیثیت والے اپنے بچوں کو فرانس بھیجتے تھے۔ انگریزی کے بابائے شعر و سخن چاسر نے میڈم ایگلنٹائن پر اس حوالے سے بھی طنز کیا ہے کہ وہ فخریہ فرانسیسی بولتی پھرتی ہے لیکن دراصل اس کے لہجے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس نے فرانس جا کر زبان کی تعلیم نہیں لی ہے بلکہ مقامی گرامر سکول میں ہی تھوڑی بہت سیکھ لی ہے۔

میرے سکول جانے کا چوتھا سال تھا اور قالینوں کے کاروبار کے سلسلے میں بیلجیئم سے کچھ انگریز (کہیں کا گورا ہو ہم اسے انگریز ہی سمجھتے تھے۔ جس طرح ابن الاثیر الشیبانی نے صلیبی جنگوں کی تاریخ میں سارے عیسائیوں کو فرنج کہا ہے ) میرے گھر آئے تھے۔ پینتیس چالیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں طالب علم تو چھٹی جماعت کا تھا، لیکن ابا کے ایک دوست شیخ عبدالجبار شیرازی اللہ یرحمہما جنھوں نے ولایت سے وکالت کی تعلیم مکمل کی تھی، مجھے اپنے گھر بلا کر انگریزی پڑھاتے تھے۔

گھر کیا تھا، سینکڑوں کمروں اور باغات پر مشتمل پورا محلہ تھا۔ آج بھی میرے شہر مرزا پور کی عدالت میں ان کی آدم قد تصویر لگی ہوئی ہے۔ بڑے عابد زاہد اور اردو فارسی کے عالم تھے۔ ترجمہ کے ذریعہ انگریزی سکھاتے جو اب ناقص طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ چھٹی جماعت کے بچے کو ”اگر ہم باغباں ہوتے تو گلشن کو لٹا دیتے“ قسم کے جملوں کا ترجمہ کرنے کو کہتے جو میں نہ کر پاتا۔ لیکن روزمرہ جملے بنا لیتا تھا اور ہر وقت اس چکر میں رہتا تھا کہ گھر میں کسی کو نیا جملہ سناؤں اور وہ میری تعریف کرے اور ایک آدھ روپیہ دے دے۔

آپ کو انگریزی (یا کوئی بھی زبان) تب تک بہت آتی ہے جب تک سامنے والے کو نہ آتی ہو۔ ایک گاؤں میں ایک لڑکا بابو بڑا انگریزی داں تھا۔ گاؤں والوں سے ہر وقت انگریزی بگھارتا رہتا تھا۔ ایک دن ایک گورا مسافر راستہ بھٹک گیا اور لوگوں سے راستہ پوچھنے کی کوشش کی لیکن جن سے پوچھتا وہ انگریزی نہ سمجھ پاتے۔ ایک نے انگریز کا ہاتھ پکڑا اور گاؤں میں لے گیا کہ آؤ بڑی انگریزی جھاڑ رہے ہو، ہمارے ببوا سے بات کرو۔ وہ تم سے بھی زیادہ انگریزی جھاڑ سکتا ہے۔

بھولے بھالے گاؤں والوں کے لئے بات راستہ پوچھنے بتانے تک محدود نہ تھی، بلکہ مقابلہ تھا، عزت کی بات تھی۔ خیر انگریز نے گاؤں کے بابو کو اپنی پریشانی بتائی اور راستہ پوچھا۔ بابو نے کہا یس یس، گڈ گڈ۔ اس نے پھر پوچھا۔ کہا یس یس بٹ تھینک یو تھینک یو۔ پھر پوچھا۔ پھر یس نو بکاز ویری ویری گڈ۔ انگریز حیرت سے پریشان اور گاؤں والے فخریہ اپنے بابو کو دیکھ رہے تھے۔ اتنی انگریزی بول رہا تھا کہ انگریز کو بھی پسینہ آ گیا تھا۔

آخر کار انگریز نے ایک طمانچہ رسید کیا اور چلتا بنا۔ اب حیرت کے پتلے گاؤں والے تھے۔ پوچھا بابو تم بول تو رہے تھے انگریزی، مارا کیوں اس نے؟ بابو نے کہا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ تم ایسی اچھی انگریزی بولتے ہو، یہاں کیا کر رہے ہو۔ چلو میرے ساتھ انگلستان۔ وہاں انگریزی پڑھانا۔ میں نے منع کر دیا تو ناراض ہو گیا۔

ابا کی کمپنی میں ایک ملازم انور بھائی تھے جو کسی سوشلسٹ سیاسی جماعت سے وابستہ تھے اور رکشہ تانگہ والوں کے لیڈر تھے۔ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن انہیں تقریر کرنے کا بڑا ہیضہ تھا۔ خود کو اچھا مقرر سمجھتے تھے۔ اسی طرح میری ’انگریزی دانی‘ کے بھی قائل تھے۔ انہوں نے مجھے اکسایا کہ انگریزوں سے انگریزی میں کچھ بات کروں۔ تو صاحبو، مجھے بھی بیلجیئم سے آئے ’انگریزوں‘ سے بات کرنی پڑی۔ میں بہت خوش تھا کہ صرف ابا ہی نہیں ملازمین اور آٹھ دس دوسرے تاجران شہر مجھے انگریزی داں سمجھ رہے ہوں گے اور میری تعریفیں کریں گے۔ آخر میں بھی انگریزی کا جواب انگریزی میں دے سکتا تھا۔

اب آپ سلاطین کے عہد کا تصور کیجئے۔ کوئی ترکی بول رہا ہو تو بڑا آدمی ہو گا۔ اور اگر آپ ترکی کا جواب ترکی میں دے سکیں تو یہ بھی بڑی بات ہوئی۔ اور ایسے موقع پر ترکی نہ جاننے کا افسوس بھی ہوتا ہو گا کہ من ترکی نمی دانم۔ یہ فقرہ ترکی بہ ترکی اسی طرح شروع ہوا ہو گا۔ دھیرے دھیرے معنی میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی کو اسی کی زبان میں اسی لہجہ میں جواب دینا، جیسے کو تیسا وغیرہ۔ لیکن جب دو ترک، دو ہم پلہ افراد ایک ہی زبان و لہجہ میں گفتگو کریں تو اس میں ایسی کوئی خاص بات نہیں کہ اس کو ترکی بہ ترکی کہا جائے۔

ترک فاتح تھے، بڑے تھے، اس لئے ترکی کا رعب ہونا فطری بات ہے۔ تو بات تو تب ہوئی جب غیر ترک ترک کا ترکی میں جواب دے۔ یعنی مرعوب راعب سے، چھوٹا بڑے سے اسی لہجے میں تڑا تڑ جواب دے تو کہتے ہیں ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اس لئے مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرا جی کے یہاں بہو کے بجائے ساس ترکی بہ ترکی کیوں بول رہی ہے :

بہو کہے جی جو آتا تھا ساس کے سامنے بول رہی تھی
ساس بھی لیکن ترکی بہ ترکی بھید بہو کے کھول رہی تھی

لغت نویسوں نے ترکی کے معنی مردانگی، بہادری، غرور و گھمنڈ وغیرہ بھی درج کیے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں سنا کہ وہ بڑی ترکی سے لڑا یا اس نے بڑی ترکی دکھائی۔ البتہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ سامنے والا سوا پڑ جاتا ہے اور آپ کا گھمنڈ چور ہو جاتا ہے، بھرم ٹوٹ جاتا ہے۔ سب ختم ہو جاتا ہے۔ جب بیلجیئم سے آئے گوروں سے میں نے چند انگریزی جملے کہے تو انھوں نے اپنے مخصوص لہجہ میں نہ معلوم کیا کیا کہا، میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔

میری سٹی پٹی گم ہو گئی، شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا۔ میں گاؤں کا بابو تھا نہ حاضرین گاؤں والے، اس لئے خاموش رہا۔ جتنے جملے جانتا تھا سب کہہ چکا تھا۔ میری انگریزی تمام ہو گئی تھی۔ پہلے ایسی صورت میں انگریزی نہیں ترکی تمام ہوتی ہوگی۔ پھر وہی معنی میں وسعت۔ الفاظ کم پڑ جائیں، فن عاجز ہو جائے یا بہادری اور ہیکڑی نکل جائے تو کہتے ہیں ترکی تمام ہو گئی۔

نگہ ناز کام کرتی ہے
دم میں ترکی تمام کرتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments