جب کالعدم ہمدم اور غدار وفادار بنتے ہیں


شاعر مشرق کے شہر میں ایک غیر ملکی نوجوان کا زخموں سے گلزار بنا تن نہیں جلا بلکہ پاکستان کے تشخص کی رہی سہی ساکھ بھی جل گئی۔ اسی بد نصیب شہر میں چند سال قبل بھی مشتعل ہجوم نے ایک گھرانے کے دو نوجوان چراغ بڑی بے دردی سے گل کر دیے تھے مگر اس کے پس پردہ مذہبی جنونیت اور مسلکی حیوانیت کارفرما نہیں تھی۔ جب ہمارے کالعدم راتوں رات ہمدم، غدار وفادار، بھارتی آلۂ کار دلدار سکیورٹی اہلکاروں کے پاگل قاتل جوہر قابل اور بیگانے یک دم یگانے بن جائیں گے تو ملک کے کوچہ و بازار اسی طرح سوختہ ساماں اور شعلہ بداماں ہوں گے۔ یہ سب کچھ انہیں ”فیصلہ سازوں“ کا کیا دھرا ہے جو جمہوری حکومتوں کے خلاف دھرنے کرواتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب لکھا کہ پر یانتھا کمارا کی صد پارہ و برہنہ لاش کو جلانے کے لیے پٹرول ان پیسوں سے خریدا گیا جو کچھ عرصہ قبل ان میں ڈی چوک میں بانٹے گئے تھے۔

ہم تو ابھی مرد مومن مرد حق کی پھیلائی مذہبی و مسلکی جنونیت کی آگ سے ہی جان نہیں چھڑا پائے تھے کہ ہمارے سیاسی لے پالک نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر ہر سو ایک تازہ الاوٴ روشن کر دیا۔ اس الاوٴ میں سوائے مقتدرہ کے ہر طبقے کے مفلوک الحال بھسم ہوتے رہیں گے۔ وحشت اور بر بریت کی پچھل پائی خون خون پیاس پیاس کا نعرہ لگاتی ناچتی رہے گی اور کہیں آسیہ مسیح، کہیں مشال خان، کہیں پروفیسر خالد حمید، کہیں بینک منیجر ملک عمران حنیف اور کہیں بے چارہ پریانتھا کمارا اس کا رزق بنتا رہے گا اور ہمارے خان اعظم اسلامو فوبیا کی دہائی دے کر سستی شہرت حاصل کرتے رہیں گے۔ یہیں تک لکھا تھا کہ ہمارے دوست اور معروف شاعر سید وصی شاہ کے چند اشعار موصول ہوئے، اشعار کیا ہیں ہمارے عہد ستم گر کا نوحہ ہیں۔ تنگیٔ داماں کی وجہ سے محض دو شعر رقم کرنے پر اکتفا کروں گا

زندگی اب کے میرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہو گا
یا یہ نوحہ دیکھیے کیسا حسب حال ہے
خالق ہمیں حساب میں دیجو رعایتیں
ارض وطن میں زندگی دشوار تھی بہت

ہمارا برادر اسلامی ملک مذہبی قانون سازی کے حوالے سے جدت اور ندرت کے گل کھلا رہا ہے اور ہم ادھر وقت و حالات کے تقاضوں سے آنکھیں چرا کر اپنے راستوں کو خاردار بنا رہے ہیں۔ انہوں نے جماعت ہشتم تک تعلیمی اداروں میں طلبا کو کچی عمر میں مذہبی معاملات سے دور رکھنے کے لیے قرآن پر پابندی لگا دی ہے جبکہ ہم پلے گروپ سے ہی بچے کے ذہن میں قرآن و حدیث، ان کے تراجم اور تفسیر کی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ اور ترجمہ و تفسیر بھی ان مفسرین کی جن کا تعلق آج کل سرکاری مسلک سے ہے۔ خدارا! جدید ریاست مدینہ کا ڈھونگ رچانے والو! مذہب کو ریاستی باشندے کا ذاتی مسئلہ رہنے دو ورنہ پورا ملک اس آگ میں جل جائے گا۔

ہمارے ایک درد انسانیت رکھنے والے دوست ہیں عامر فاروق، انہوں نے اپنی وال پر ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو شیئر کی ہے۔ اس میں ایک باریش استاد محترم پرائمری کی کسی کلاس کے طلبہ کو لیکچر دیتے ہوئے ببانگ دہل نعرہ زن ہیں کہ گستاخ نبیﷺ کی ایک ہی سزا، سر تن سے جدا سر تن سے جدا

آپ اندازہ کریں کہ جن نونہالوں کے ننھے قلوب و اذہان میں آج سے ہی حب رسولﷺ کے نام پر نفرت اور انتقام کے بیج بوئے جائیں گے وہ آگے چل کر چراغ مصطفویﷺ لے کر بو لہبی کو فروغ نہیں دیں گے؟

سانحۂ سیالکوٹ کا ایک اور پہلو بڑا دل خراش اور جگر پاش ہے۔ جب جنونی اور وحشی ہجوم پریانتھا کو تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا تو پولیس کی کافی نفری موقعے پر موجود تھی مگر کسی ایک نے بھی اسے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ تحریک لبیک کے پر تشدد مظاہرین کو روکنے کے لیے جن اہلکاروں نے جان ہتھیلی پر رکھی تھی، ریاست نے بعد میں انہیں بے یارو مددگار چھوڑ کر قاتلوں کو گلدستے پیش کر کے گلے لگا لیا تھا۔ پولیس اہلکاروں نے اس بار یہ سمجھا کہ یہ مشتعل لوگ ریاست کے وہی پیارے اور راج دلارے ہیں جن میں پیسے بھی بانٹے گئے تھے اور انہیں قومی سیاسی دھارے میں بھی لایا گیا تھا۔ لہٰذا یہ سوچ کر انہوں نے ان کے کام میں مداخلت نہیں کی کہ ایسا کرنا کار ریاست میں مداخلت کرنے کے زمرے میں نہ آ جائے۔

پاکستان جیسے ملکوں میں ہر ایسا سانحہ کمزور اور نا اہل حکومت کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتا ہے۔ اس سانحے کو حکومتی سازش نہ بھی مانا جائے تو یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس نے وقتی طور پر عوام کی توجہ معیشت کی زبوں حالی، قیامت خیز مہنگائی، سٹاک ایکسچینج میں تاریخی مندی، افراط زر، ہوش ربا تجارتی خسارے، منی بجٹ اور حکومت کی نا اہلی سے ہٹا دی ہے۔ حکومتی ارباب اختیار اب دو چار دن اس سانحے پر ماتم گساری اور گریہ و زاری کی آڑ میں نکال لے گی۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ ہمارے آرمی چیف نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور واقعے میں ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے حکومت کی ہر ممکن مدد کرنے کی پیشکش کی ہے۔ آرمی چیف کے بیان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ فیض آباد دھرنے والوں میں پیسے بانٹنے والوں کو روکتے اور اسی وقت ان شر پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتے تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ کیونکہ بقول شاعر

وقت کرتا پرورش بر سوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments