آج والے انتہا پسند کل والوں سے زیادہ خطرناک ہیں


ایک بار پھر پاکستان کے خو بصورت شہر میں توہین کے نام پر ظلم و بربریت کی نئی مثال قائم کی گئی کہ جب جمعہ کے با برکت دن کے روحانی ماحول میں ظلم کی ایسی داستان رقم کی گئی کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد کانپ اٹھی۔ اس کانپنے کی کئی وجوہات تھی، سب سے بڑی وجہ تو وہ ظلم تھا جسے دیکھ کر کروڑوں آنکھیں انسانیت کے ناتے روئی اور دوسری وجہ پاکستان کا دنیا بھر میں تشخص تھا جس پر ایک بار پھر کالک لگ گئی کیونکہ قتل ہونے والے شخص پاکستانی نہیں سری لنکن تھا لیکن ان سب سے بڑھ کر وہ انسان تھا، جیتا جاگتا انسان۔

چند لوگوں کی ذاتی دشمنی نے ایک انسان کو پتھروں سے کچل دیا، لکڑیوں سے توڑ دیا، لاتوں سے مسل دیا، ساری ہڈیاں توڑ دی اور پھر اس انسان کو دھواں میں اڑا دیا۔ لیکن جب یہ منظر دیکھا تو ذہن میں اس انتہا پسند ٹولے سے متعلق ایک خیال آیا کہ ان کا نعرہ تو یہ تھا کہ گستاخ کی سزا، سر تن سے جدا! یہ لوگ تو جھوٹے نکلے کہ سر تن سے جدا سر تن سے جدا کا نعرہ لیکن یہ اپنے نعروں کے خلاف جاتے ہیں اور سر تن سے جدا نہیں کرتے، بلکہ کبھی بھٹی میں ڈالتے ہیں تو کبھی آگ لگا دیتے ہیں۔

اس اسکول آف تھاٹ کے گزشتہ جرائم پر نظر ڈالے تو ان کا طرز ظلم کچھ یوں ہو گیا ہے ۔ یہ انتہا پسند ٹولہ زبردستی گستاخ بناتا ہے اور پھر اس گستاخ کو برہنہ یا نیم برہنہ کرتا ہے۔ پھر اس کو سلسلہ وار مارتے ہیں، طرح طرح کے ہتھیار سے، لکڑی سے، اینٹوں سے، لوہے کی راڈوں سے اور جس کو کچھ نہیں ملتا وہ اپنے پاؤں سے لاتیں مارتا ہے۔ اس کے بعد کوئی ظالم پیٹرول لاتا ہے اور اس گستاخ کو آگ لگادی جاتی ہے۔

انتہا پسندانہ فکر کا یہ ٹولہ پرانے والوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ والے انتہا پسند دہشت گردی کرنے کے بعد چھپتے نہیں ہیں بلکہ کھل کر اور زور سے للکارتے ہیں کہ دم ہے تو کالعدم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایک نعرے کے ساتھ نہیں دو دو نعروں کے ساتھ قتل کرتے ہیں۔ یہ یکمشت نہیں تفصیل سے قتل کرتے ہیں، یہ پہلے مارتے ہیں، لکڑی سے، اینٹوں سے، پھر ہڈیوں کو چکنا چور کر دیتے ہیں، پھر آگ بھی لگاتے ہیں۔ یہ چھپ کر ویڈیو نہیں بناتے بلکہ کھل کر ویڈیو بناتے ہیں اور گستاخ کی لاش کے ساتھ سیلفی بھی لیتے ہیں۔ یہ پہاڑیوں پر نہیں رہتے ہیں یہ شہروں میں رہتے ہیں۔ یہ عام سے انسان نظر آتے ہیں مگر ان کے اندر درندے پلتے ہیں۔

یہ ہمہ وقت ایمان کی تازگی لئے تیار ہوتے ہیں۔ بس جیسے ہی کسی گستاخ کا پتا چلتا ہے تو یہ بغیر تصدیق کریں اس گستاخ کی جانب دوڑ پڑتے ہیں۔ یہ فکر محافظ کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، یہ فکر بینک کے گارڈ کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، یہ مسجد کے مولوی کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، یہ صحافی کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، یہ پروفیسر کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، یہ فیکٹری ملازم میں بھی ہو سکتی ہے۔

یہ انتہا پسند ٹولہ کسی گاؤں میں ہوتا ہے تو زندہ میاں بیوی کو بھٹی میں جلا دیتا ہے۔ یہ یونیورسٹی میں ہوتا ہے تو مشال خان کو مار دیتا ہے۔ یہ ٹولہ حفاظت کا حلف اٹھانے کے باوجود سلمان تاثیر کو مار دیتا ہے، ان کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے یہ پولیس والوں کو بھی مار دیتے ہیں اور آزاد گھومتے ہیں بلکہ سینہ چوڑا کر کے گھومتے ہیں۔

اس ٹولے نے پاکستان کو تو ہندوستان بنا دیا ہے جس میں گستاخ بھی یہ ہی ڈھونڈتے ہیں، فیصلہ بھی یہ ہی کرتے ہیں، تصدیق بھی یہ ہی کرتے ہیں، سزا بھی یہ ہی دیتے ہیں اور پھر سینہ چوڑا کر کے عدالت بھی جاتے ہیں۔ وہاں جاکر ان کا سواگت ہوتا ہے، ان کے ساتھ تصویریں بنائی جاتی ہیں، ان کے حق میں نعرے بازی بھی ہوتی ہے۔ یہ قتل کرنے کے بعد بھی شرمندہ نہیں ہوتے اور پھر دوبارہ سے اس فکر کا پرچار کرتے ہیں۔ نہ جانے کب یہ انتہا پسندانہ سوچیں دم توڑیں گی اور اس وقت تک یہ مزید کتنے انسانوں کو مار ڈالیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments