گورنمنٹ کالج لاہور کے وائس چانسلر کا ریورس گیئر


وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی کی ”خیر مقدمی یا جی آیاں نوں“ والی تقریر سن رہا تھا جو انہوں نے مولانا طارق جمیل کو دعوت خطاب دینے سے پہلے اپنے ویژن کو متعارف کرواتے ہوئے گوش گزار کی، ہمہ تن گوش ہو کر ان کی زبان سے ادا ہونے والے جملوں کی بصیرت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا اور امید یہی تھی کہ وہ آج طارق جمیل کی موجودگی میں ایک جدید سائنس لیبارٹری جو دنیا کے جدید ترین سائنسی آلات سے مزین ہوگی کا قیام عمل میں لانے کا اعلان کریں گے اور مولانا کی پرکشش شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک باقاعدہ فنڈ ریزنگ سسٹم قائم کیا جائے گا۔ تاکہ کم از کم تیسری دنیا کے طالب علم ہماری اس جدید سائنٹفک لیب سے مستفید ہونے کے لیے کھنچے چلے آئیں مگر اس خوش فہمی کا سحر اس وقت ٹوٹ گیا جب اصغر زیدی نے ایک بہت بڑی جدید مسجد کے قیام کا اعلان فرمایا۔

اس اقدام کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ ”ہمارے اس تعلیمی ادارے نے بہت اچھے اچھے سبجیکٹ سپیشلسٹ پیدا کیے ہیں مگر تربیت میں کسی حد تک کمی رہ گئی ہے“ دوسرے لفظوں میں وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہماری تربیت کا لیول صفر ہے اور اس کمی کو ایک جدید ترین مسجد بنا کر پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ان کی تقریر میں ایک حیران کن انکشاف یہ بھی تھا کہ اس مسجد میں بیٹھ کر یونیورسٹی کے معاملات مثلاً سکالرز شپ دینے کا فیصلہ، سماجی معاملات اور ڈسپلن کمیٹی کی تمام میٹنگز اور اہم فیصلے لئے جائیں گے۔ یہ باتیں سن کر مجھے وہ بات یاد آ گئی کہ ایک بندے پر لڑائی کا مقدمہ ہوا اور اسے عدالت میں جج کے سامنے پیش کیا گیا، وہ چٹا ان پڑھ تھا اور اسے اپنی صفائی میں قرآن کریم سر پر رکھ کر قسم اٹھانے کو کہا گیا۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اس نے کہا کہ جو چیز میں نے سر پر اٹھانی ہے وہ مجھے پہلے دکھاؤ، جب اسے قرآن دکھایا گیا تو دیکھتے ہی اس نے فوراً کہا کہ یہ تو میں ایک ساتھ بہت سارے اپنے سر پر اٹھا سکتا ہوں میں نے سمجھا کہ شاید کوئی وزنی چیز ہوگی جسے میں اٹھا نہ پاؤں گا۔

جناب اخلاقیات یا کردار کوئی فکس یا جامد چیز نہیں ہے جو ہمیں ایک دکان پر ایک پروڈکٹ کے طور پر کہیں سے مل جائے گا۔ عدالتوں میں جھوٹے قرآن اٹھانا، قسمیں اٹھانا حتی کہ خود کو پاک صاف اور متقی ثابت کرنے کے لیے قرآن پر ہاتھ رکھ کر ویڈیو اپلوڈ کرنا جیسا کہ حال ہی میں شیخ الحدیث مفتی عزیز نے کی اور آپ ان کی ویڈیو کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ہماری بد عہدی، بداخلاقی اور ملاوٹی رویوں کا ایک مسجد کچھ نہیں بگاڑ سکتی اس طرح تو ہر گاؤں اور شہر میں مختلف فرقوں کی ہزاروں مساجد ہیں مگر ہمارے اجتماعی اخلاقی رویے کا گھناؤنا عکس سیالکوٹ والے المناک واقعہ میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

کسی بڑے تعلیمی عہدے تک پہنچنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک پروگریسو ویژن رکھنے والے ہوں ناکہ ٹنل ویژن یا ریورس بصیرت کے مالک ہوں۔ وائس چانسلر صاحب جو تجربہ آپ کرنے جا رہے ہیں وہ اب متروک ہو چکا ہے جیسے کسی دور میں ہمارے مکتب سکول ہوا کرتے تھے جہاں پر مذہبی تعلیمات پر زیادہ فوکس کیا جاتا تھا، بالکل اسی طرح قرون وسطی میں یورپ کی مونیسٹری جو کہ کیتھولک تصورات کے زیر اثر تھی وہ بھی یورپی تعلیمی اداروں میں ایک غالب قوت کے طور پر اپنے مذہبی تصورات کو پڑھاتے تھے اور ان کا بھی یہ خیال تھا کہ ہم ایک اچھے انسان پیدا کریں گے۔

مگر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان اخلاق کی بالاتری کا مظاہرہ یورپ نے ایک خوفناک جنگ و جدل کی صورت میں دیکھا اور یورپ کو اس خونی سسٹم سے نکلنے میں صدیاں لگ گئیں۔ تقریباً انیسویں صدی تک انہوں نے آہستہ آہستہ کلیسائی کلاس سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی اور آج ان کا نظام تعلیم سیکولر ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنے بڑے بڑے چرچ کو جدید سہولیات سے آراستہ کر کے ان کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا تاکہ آنے والے طلباء کائناتی حقائق پر غور و فکر کر کے حقیقی روحانیت اور عبادت سے آشنا ہو سکیں اور ہم آج اکیسویں صدی میں ریورس گیئر لگا کر یونیورسٹی کو مسجد میں تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

ہم شاید اپنے ماضی کے رومانس سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ زیدی صاحب ہم تو شروع سے ہی اخلاقیات سیکھتے آرہے ہیں، آپ کے قریب مشہور رائیونڈ کا تبلیغی مرکز واقع ہے جہاں دن رات خانقاہی سسٹم چلتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں بڑی مساجد ہیں جو جدید سہولتوں سے آراستہ ہیں اس کے علاوہ ہمارے قرب و جوار میں اتنی مساجد ہیں کہ جس کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے مگر اخلاقی آؤٹ پٹ کیا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پہلے وقتوں میں مساجد کمیونٹی سنٹر ہوا کرتی تھیں مگر ”تھیں اور آج“ میں بہت فرق ہے اور بدلتے وقت کے تقاضے ہمیں مزید ریفائن کرتے جا رہے ہیں۔

لیکن جدید وقت کے مطابق ریفائن ہونا یا نہ ہونا ہماری اپنی چوائس ہے۔ یورپ نے مذہب کو انسان کی ذاتی چوائس بنا کر اور اسے اس کی مناسب جگہ پر رکھ کر مذہبی ورثہ بھی بچا لیا اور جدیدیت کے تمام تقاضوں کو کھلے دل سے گلے لگا کر دنیا میں بھی سرخرو ہو گئے۔ اس کے بر عکس ہم مذہبی طور پر بھی کئی فرقوں میں بٹ گئے اور دوسری طرف جدید تقاضوں کو نظر انداز کر کے ریورس پوزیشن میں پناہ ڈھونڈنے لگے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ خود کو اعلی اخلاقی معیار والا بنانے کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔

زیدی صاحب ہر بندے کی اپنی اپنی فیلڈ ہوتی ہے مساجد، مدارس، تبلیغی مشن اور خانقاہی نظام میں ہم پہلے ہی بہت خود کفیل ہیں قطع نظر اس بات کے کہ ہماری مذہبی کلاس کیا آؤٹ پٹ دے رہی ہے؟ مگر یہ آپ کا میدان یا کام بالکل نہیں ہے۔ اس کی بجائے آپ کو اس یونیورسٹی کو تحقیق و ریسرچ کی بنیاد پر کفار کے لیول سے بھی آگے کیسے بڑھانا ہے اس کی فکر کرنی چاہیے اور اسی تعلیمی ترقی کی بدولت ہی ہم کفار کی یونیورسٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔

آج کی اکانومی نالج بیسڈ ہے جو بھی علمی میدانوں میں ترقی کرے گا وہی فلسفہ اور سوچ دنیا پر راج کرے گی لیکن اس کے لیے ہمیں جدید دور کی گاڑی کو سامنے دیکھ کر چلانا ہو گا ریورس گیئر میں چلانے سے ہم مزید تنزلی کی طرف جاتے جائیں گے۔ مضبوط معیشت سے انسانی اوزار اور سوچ میں تبدیلی آتی ہے، اگر کسی قوم کی بلندی کے معیار کا جائزہ لینا ہو تو ان کے اوزار دیکھ لیں آپ کو فوراً سمجھ آ جائے گی کہ وہ ذہنی ترقی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔

اس ذہنی بلندی کی وسعت کو پانے کے لیے ہمیں قرون وسطی جیسی ذہنیت سے باہر نکلنا ہو گا۔ جناب آپ ایک اہم عہدہ پر براجمان ہیں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کی ہر جدید تعلیمی سہولت کو اپنی یونیورسٹی میں لانے کے لئے پوری کوشش کیجئے تاکہ ہم تعلیمی میدان میں کفار کو پیچھے چھوڑ دیں۔ جن جدید آلات کی بنیاد پر وہ اترا رہے ہیں ہمارے بچوں کو اس قابل کر دیجیے کہ وہ ان سے اچھے آلات بنانے کے قابل ہو سکیں۔ اس نیک کام کے لیے آپ کے پاس فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ مولانا طارق جمیل کی پرکشش شخصیت کو کیش کروائیے اور یہ بڑا کام اپنی مدت میں ہی سرانجام دے ڈالیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments