ناصر کاظمی کی ”پہلی بارش“


(3)
وہ کوئی اپنے سوا ہو تو اس کا شکوہ کروں
جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے
(دیوان)

’پہلی بارش‘ کے شاعر کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ انسان اس دنیا میں نہ صرف اکیلا آتا ہے اور یہاں سے اکیلا جاتا ہے، بلکہ وہ یہاں رہتا بھی اکیلا ہی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد ، اپنے اندر جھانک کر، اپنی ذات کی مسلسل نشوونما (یا زکا) کرتے رہنے سے ہی وہ سکون کی منزل (یا جنت) تک پہنچ سکتا ہے۔ انسان کی ضرورتیں اسے دوسروں کے پاس بھی لے جاتی ہیں اور ان سے جدا بھی کرتی ہیں۔ ہر تعلق اور دوستی کی ایک میعاد ہوتی ہے۔ یہ میعاد تمام عمر پر بھی محیط ہو سکتی ہے، بشرطیکہ فریقین ایک دوسرے کی نشوونما میں اضافے کا باعث بنتے رہیں (اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اپنی نشوونما کے لیے بھی کوشش کرتے رہیں۔ ظاہر ہے جو خود رک گیا، وہ کسی کو کیا آگے بڑھائے گا) ۔ لیکن جب روز کے ملنے والے دوست ایک دوسرے کی نشوونما میں مزید کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے تو ان کا ملنا کم ہونے لگتا ہے۔ انھیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں یا ہوچکے ہیں :

دوست بچھڑتے جاتے ہیں
شوق لیے جاتا ہے دور
(برگ نے )
———-
اب ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ناصر
وہ ہم نوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے
(دیوان)
محبت کا معاملہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔ محبوب کے بغیر ایک پل نہ جی سکنے والا، یوں بھی سوچتا ہے :
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
(دیوان)
———-
شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے
(دیوان)
اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ:
رشتہ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں
(برگ نے )

وہ رشتہ جو ازخود، بتدریج اور غیر محسوس طور پر ٹوٹے ؛ وہ دوستی جو اپنے تمام امکانات کو چھان ڈالے، Explore اور Exhaust کر لے، اس کا دکھ یا ملال نہیں ہوتا، لیکن جو تعلق ادھورا رہ جائے ؛ درمیان میں کسی حادثے، رنجش، بدگمانی، غلط فہمی، رقابت یا ’ظالم سماج‘ کی وجہ سے منقطع ہو جائے، بہت تڑپاتا ہے :

کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
(برگ نے )
————-
یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
(برگ نے )

’پہلی بارش‘ کے آغاز میں کیفیت ’تو من شدی، من تو شدم‘ کے مصداق نظر آتی ہے۔ دو روحوں کا پیاسا بادل گرج گرج کر برستا ہے، دو یادوں کا چڑھتا دریا ایک ہی ساگر میں گرتا ہے اور دل کی کہانی کہتے کہتے رات کا آنچل بھیگ جاتا ہے۔ سفر کی رات خوشبو کے جھونکے کی مانند گزر جاتی ہے۔ دن کی ٹھنڈی دھوپ میں، ”تیری ہلال سی انگلی پکڑے / میں کوسوں پیدل چلتا تھا“ اور پچھلے پہر کے سناٹے میں، ”تیرے سائے کی لہروں کو / میرا سایا کاٹ رہا تھا“ ، غرض، ”وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر / ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا“ ، لیکن فراق کی منزل دور نہ تھی:

کیسی اندھیری شام تھی اس دن
بادل بھی گھر کر چھایا تھا
رات کی طوفانی بارش میں
تو مجھ سے ملنے آیا تھا
بھیگی بھیگی خاموشی میں
میں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا
ایک طویل سفر کا جھونکا
مجھ کو دور لیے جاتا تھا

یہ کیسی خاموشی ہے؟ کیا باتیں ختم ہو گئیں؟ کیا تمام یادوں اور سپنوں کا تبادلہ ہو چکا؟ یا یہ باتوں کے درمیان محض ایک وقفہ ہے؟

یہ کیسا سفر ہے؟ غم روزگار کی مجبوری، زمانے کی عائد کردہ پابندی یا ذات کی داخلی احتیاج؟ اگلی غزل میں ان سارے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ مطلع میں ’دوبارہ‘ کا لفظ بہت اہم ہے۔ یہاں اس کا مطلب دوسری بار نہیں بلکہ ایک بامعنی (significant) وقفے کے بعد آنا ہے۔ گھر وہی، شام کا تارا وہی، رات وہی، سپنا وہی، مگر اب ’تیرے‘ لیے لمبی تان کر پہروں سونا ممکن ہے ]اس کے برعکس ”تیری نیند بھی اڑی اڑی تھی“ (غزل نمبر 2 ) [۔ ’مجھ‘ سے بے نیاز ہونے کے عمل میں یہ مقام آ چکا ہے۔ پھر اس نیند کو بھی ”ایک انوکھے وہم کا جھونکا“ اڑا اڑا دیتا ہے اور ایک دن یہ، وہم ’تجھ‘ کو گھیر لیتا ہے اور ’تو‘ ، ’مجھ‘ کو سوتا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

لیکن یہ وہم کیا تھا؟ ایک نظر یہ یہ ہے کہ ہر خیال وہم ہوتا ہے۔ ”یہ توہم کا کارخانہ ہے / یاں وہی ہے جو اعتبار کیا“ ۔ جبکہ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو وہم بھی ایک خیال ہی ہوتا ہے۔ دراصل ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر بات کے دو رخ ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی سے دور ہونا چاہتے ہیں تو اس کی باتوں کے وہی معانی ہماری سمجھ میں آتے ہیں جو ہمارے اور اس کے درمیان فاصلہ بڑھاتے ہوں (چاہے وہ ہمیں دل و جان سے چاہتا ہو) بصورت دیگر وہ معانی جو ہمیں اس کے قریب لے جاتے ہوں (خواہ وہ ہم سے کتنا ہی بیزار ہو) ۔ اس کے دل کی بات ہمیں بہت بعد میں پتا چلے گی۔ ’پہلی بارش‘ میں بھی آخری غزل میں ایک ایسا ہی انکشاف ملتا ہے :

تیرا قصور نہیں میرا تھا
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
————-
اب میں سمجھا اب یاد آیا
تو اس دن کیوں چپ چپ سا تھا

سو یہ اہم نہیں کہ یہ وہم کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ربط ٹوٹ چکا ہے۔ اس کا علم ابھی پوری طرح اس لیے نہیں ہوا کیونکہ جسمانی فاصلہ ابھی کم ہے۔ ایک مثال اس بات کی وضاحت کرسکے گی۔ اگر دو برابر کے پہیے، ایک ٹائی راڈ (tie۔ rod) سے جڑے، ایک ہموار اور سیدھے راستے پر چلے جا رہے ہوں اور یہ ٹائی راڈ ٹوٹ جائے (بغیر جھٹکے کے ) تو تب بھی وہ ساتھ ساتھ اسی طرح چلتے جائیں گے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ ان کا آپس میں تعلق منقطع ہو چکا ہے۔ ذرا کہیں ناہموار سطح آئی اور یہ دونوں یا تو آپس میں ٹکرائے یا پھر مخالف سمتوں میں لڑھک کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ اگرچہ گھومتے گھومتے وہ دوبارہ بھی ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں لیکن ملنے کے لیے نہیں بلکہ پھر بچھڑنے کے لیے۔

دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ ’میری‘ کیفیت میں ہنوز کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ’تو‘ نے ممکن ہے خوب تجزیے اور غور و فکر کے بعد رخت سفر باندھا ہو لیکن میرے خیال میں تجھے وہم ہی ہوا ہے۔ تیرے آنے پر میں ’تیرا‘ منتظر تھا اور ’وہی‘ سپنا دیکھ رہا تھا۔ تو سو جاتا تو پہروں تجھے تکتا رہتا، تیری ایک صدا سنتے ہی گھبرا کر جاگ اٹھتا اور جب تک تجھ کو نیند نہ آ جاتی، تیرے پاس کھڑا رہتا؛ ماحول کو دلچسپ بنانے کی خاطر اور تیرے بیزار ہو جانے کے ڈر سے، نئی انوکھی بات سنا کر تیرا جی بہلاتا، اس آرزو میں اور اس امید پر کہ تیرے دل میں جانے کا خیال نہ آئے۔ میرے لیے وقت اتنی تیزی سے گزر گیا کہ ایک مہینہ ایک پل کے برابر محسوس ہوا۔ میرے لیے ابھی اس تعلق میں بہت کچھ باقی تھا، تیری طلب کم نہ ہوئی تھی، اسی لیے :

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پا کر
میں کتنا بے چین ہوا تھا
———-
آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی
کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا
اگلی غزل ’میری‘ اور ’تیری‘ ان کیفیات کو مزید نمایاں کرتی ہے :
تجھ بن گھر کتنا سونا تھا
دیواروں سے ڈر لگتا تھا
بھولی نہیں وہ شام جدائی
میں اس روز بہت رویا تھا
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہا تھا

’تجھ‘ سے بچھڑ کر ’میری‘ حالت غیر ہوجاتی ہے۔ طرح طرح کے خیال ستاتے ہیں۔ سناٹے میں کوئی دور سے آوازیں دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ باہر کے مناظر کچھ کے کچھ دکھائی دیتے ہیں۔ نیند بھی خوف اور وسوسوں سے خالی نہیں ہوتی۔ بارہویں غزل میں ایسے ہی ایک فریب خیال (hallucination) یا ڈراؤنے خواب کا بیان ہے۔

تیرہویں غزل میں کہانی کا مرکزی کردار یا ’ہیرو‘ تنہائی کے آتش دان میں لکڑی کی طرح جلتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی خوشی اور تسکین کے لیے وہ اپنے سے باہر دیکھنے کا عادی اور محتاج ہے۔ ابھی اس نے اپنے اندر جھانکنا شروع نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ دوزخ اس مقام کو بھی کہتے ہیں جہاں فرد یا معاشرے کی نشوونما رک جائے۔ اس وقت ’ہیرو‘ کی یہی کیفیت ہے۔ اسے جینا محال نظر آتا ہے۔ ”دم ہونٹوں پر آ کے رکا تھا / یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا۔“ زندگی میں اس کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ اب اسے باہر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا:

میری آنکھیں بھی روتی تھیں
شام کا تارا بھی روتا تھا
گلیاں شام سے بجھی بجھی تھیں
چاند بھی جلدی ڈوب گیا تھا
لیکن خوش قسمتی سے اس کا دم نکل نہیں جاتا بلکہ حیات سے اس کا رشتہ بحال ہو جاتا ہے :
قیامت رہا اضطراب ان کے غم میں
جگر پھر گیا رات ہونٹوں تک آ کر
(میر)

جاں کنی کے عالم میں اسے دوزخ کی ایک واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ’آگ کے سپنے‘ سے ’ایک رسیلے جرم کا چہرہ‘ نمودار ہوتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ زندگی جیسی نعمت سے لاپروائی برتنے کا مجرم بن رہا ہے۔ اسے اپنی وہ امکانی حالت نظر آتی ہے جو مسلسل، بے مقصد جلتے کڑھتے رہنے سے ہو سکتی ہے :

پیاسی لال لہو سی آنکھیں
رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا
بازو کھنچ کر تیر بنے تھے
جسم کماں کی طرح ہلتا تھا
ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی
پیٹ کمر سے آن ملا تھا
وہم کی دیمک نے چہرے پر
مایوسی کا جال بنا تھا
جلتی سانسوں کی گرمی سے
شیشہ ¿ تن پگھلا جاتا تھا

مایوسی جہنم کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ لفظ ابلیس؛ ’بلس‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں، مایوسی۔ ’ابلیس‘ وہ جو مایوس ہو گیا۔ وہ آدم کے ارض پر خلیفہ بنائے جانے پر مایوس (disappoint) ہوا؛ اور جو خود مایوس ہو جائے وہ دوسروں کو بھی مایوس کرتا ہے، ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ؛ اور جنھیں اس سے پناہ نہ مل سکے، جو اس کے بہکاوے میں آجائیں، ان کا مقدر بھی دوزخ ہے۔

’پہلی بارش‘ کا ہیرو اس انجام سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں جسمانی زندگی کی حدیں ختم ہونے لگتی ہیں اور موت دکھائی دینے لگتی ہے۔ سزا اور جزا کی منزل آجاتی ہے۔ اسے حیات بعد الموت کا وجود محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ ڈر جاتا ہے۔ اسے زندگی کا وقفہ بہت غنیمت نظر آتا ہے۔ اس کے اندر جینے کی شدید خواہش اور طلب پیدا ہوتی ہے۔ ”پیاسی کونجوں کے جنگل میں / میں پانی پینے اترا تھا۔“

کونج یا قاز ایک ایسا پرندہ ہے جو موسم سرما میں گرم خطوں میں چلا آتا ہے۔ ان کے غول کے غول دریا کے کناروں پر ملتے ہیں اور یہ قطار باندھ کر اڑتے ہیں۔ گویا یہ حرارت اور پانی یعنی حیات کے لیے ناگزیر عناصر کا طالب اور متلاشی رہتا ہے۔ ایک تخلیقی آدمی کی زندگی بھی تلاش اور جستجو سے عبارت ہوتی ہے۔ نادیدہ کے درشن کی پیاس اور ناآفریدہ کی تخلیق کی لگن اسے سرگرداں پھراتی ہے۔ یہ دنیا اس کے لیے ’پیاسی کونجوں کا جنگل‘ ہے۔ کونجوں اور تخلیقی انسانوں کی ہم سفری اور ہم نوائی کا ذکر، ناصر کاظمی اور انتظار حسین کے مکالمے، ’نیا اسم‘ (مطبوعہ ’سویرا‘ ) کے پیش لفظ میں نہایت واضح اور بھرپور طور پر ملتا ہے :

”جب چلتے چلتے ہنگام زوال آیا، دل نڈھال ہوا اور حال بے حال ہوا۔ ایک سوار نے سمند عزم کی باگ چھوڑی اور بولا کہ اس بیابان میں سفر بے اثر ہے، خاک پھانکنا بے ثمر ہے۔ خیال ترک کریں اور پلٹ کر بچھڑوں سے جا ملیں۔

ہم سفر بولا کہ جس راستے کو ہم نے چھوڑا وہ ہم پر بند ہوا۔ آگے کی راہیں کھلی ہیں، شوق سفر شرط ہے اور ہر قدم راستہ بھی ہے اور منزل بھی۔

انھوں نے باگیں سنبھالیں اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ اوپر تانبا آسمان، نیچے چٹیل میدان، سنسان بیابان، دھوپ میں جلتے بلتے پتھریلے ٹیلے، ریت کے رستے، اکا دکا بے برگ درخت، کوئی راہ گیر نظر نہ آیا کہ سراغ منزل کا لیتے اور پتا پانی کا پاتے۔ دور کبھی دھول اڑتی نظر آتی تو خیال گزرتا کہ اس دشت بے آب میں اور مسافر بھی ہیں کہ اپنے طور کڑے کوسوں کا سفر کرتے ہیں۔

دن ڈھلنے لگا تو دل فزوں نڈھال ہوا۔ گلا پیاس سے خشک ہوا اور ابلق پسینے میں شرابور اور تھکن سے چور ہوئے کہ اتنے میں سر پہ پیاسی آوازوں کی لکیر ہویدا ہوئی۔ دیکھا کہ قازوں کی ایک قطار ہے کہ قائیں قائیں چیختی ہے اور فضا میں تیرتی جاتی ہے۔ اس آواز کو انھوں نے غیب کی ندا جانا اور پانی کا پیغام سمجھا۔ گھوڑوں کو ایڑ دی اور قازوں کی ندا کے ہم رکاب یوں سرپٹ دوڑے کہ ابلقوں کی ٹاپوں سے دشت گونجا اور چنگاریاں اڑیں۔ ”

یہ پیش لفظ مذکورہ غزل میں داخلے کا راستہ بن سکتا ہے۔ اس غزل میں آگ کے مقابلے میں پانی دکھائی دیتا ہے۔ جھلستے اور جلتے رہنے کے بعد یہ پانی اسے اتنا ٹھنڈا لگتا ہے کہ اس کے ہاتھ دیر تک کانپتے رہتے ہیں۔ وہ پانی میں جھانکتا ہے تو اسے اپنے بھیتر کی گہرائیاں اور وسعتیں نظر آتی ہیں۔ اس کی آنکھیں جھانکتی ہی چلی جاتی ہیں۔ زندگی کے تقاضوں اور مرحلوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ پانی اسے للکارتا ہے۔ پانی اتنا چپ چپ اور گم سم ہے گویا باتیں کر رہا ہو ] (مجھ سے باتیں کرتی ہے / خاموشی تصویروں کی (دیوان) [۔ وہ پہلی بار اپنے آپ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

اب وہ ایک نئے دیس میں اترتا ہے جہاں کا ’رنگ‘ (اس کے لیے ) نیا ہے۔ یہاں ’دھرتی سے آکاش ملا تھا‘ ، جس کے معنی یہ ہیں کہ یہاں ارض و سما کے قوانین میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے ؛ وہ ایک دوسرے میں سرایت (interpenetrate ) کرتے ہیں (انسانوں نے ارض و سما کو ہمیشہ بالکل الگ الگ اور ایک دوسرے سے لاتعلق قرار دیا ہے، حالانکہ ارض و سما کے بہت گہرے رشتے ہیں۔ ہر طرح کی نعمتوں کا نزول سما سے ارض پر ہوتا ہے ) ۔ یہاں انسانوں کے لیے نہ صرف افقی بلکہ عمودی یا ارتفاعی ترقی کے لا متناہی اور لا مسدود امکانات کھلے ہیں۔ وہ جس حد تک چاہیں آگے جا سکتے ہیں اور جتنا چاہیں بلند ہوسکتے ہیں۔

یہاں دور کے دریاؤں کا ’سونا‘ ، ہرے سمندر میں گرتا ہے۔ چلتی ندیاں ہیں اور گاتے نوکے۔ پانی کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ سارا شہر گویا نوکوں ہی میں بسا ہے۔ یہاں پانی اور زندگی واضح اور مکمل طور پر ایک ہو جاتے ہیں۔ شاید ’پانی‘ ہی کی طلب اسے یہاں لائی ہے۔ وہ ابھی تک تشنہ ہے۔ ”ہنستا پانی، روتا پانی / مجھ کو آوازیں دیتا تھا۔“ نئے دیس میں اترنا ایک نئے جیون کا آغاز کرنے کے مترادف لگتا ہے۔ ’وہ گھر‘ ، ’وہ رات‘ اور ’وہ سپنا‘ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ ’تیرا دھیان‘ مفلوج کرنے کی بجائے سہارا دیتا ہے۔ اسے زندگی کے دریا کی لہروں کا مقابلہ کرنے کی جرات اور شکتی دیتا ہے۔ ”تیرے دھیان کی کشتی لے کر/میں نے دریا پار کیا تھا۔“

اس کے بعد وہ اک بستی میں اترتا ہے جو غالباً اسی نئے دیس میں ہے۔ سرما ندی کے گھاٹ پہ جاڑے کا پہلا میلہ ہے۔ رقص و سرود کی محفل سجی ہے۔ کچھ یادیں اور کچھ خوشبو لے کر وہ اس بستی سے نکلتا ہے۔ لیکن:

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا

اگلی غزل میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا ’تیرے‘ شہر سے پھر گزر ہوتا ہے۔ ہوا اتنی تیز اور اداس ہوتی ہے کہ اس کا چراغ دل بجھا جاتا ہے۔ اس کا دل ہنوز سونا ہے اور تنہائی پیاسی۔ جنت ابھی دور ہے۔ اسی عالم میں ’تجھ‘ سے مشابہ ایک مسافر ریل چلنے پر اس کے مقابل آ بیٹھتا ہے۔ یہ مشابہت کچھ دیر کے لیے وجہ تسکین بنتی ہے لیکن جدائی کا موڑ ہر سفر میں ہوتا ہے۔ ’تیری‘ طرح تیرا ’بدل‘ بھی بچھڑ جاتا ہے :

کوئی بھی ہمسفر نہ تھا شریک منزل جنوں
بہت ہوا تو رفتگان کا دھیان آ کے رہ گیا
(دیوان)

وہ شخص جس سے تعلق اپنی فطری انجام کو پہنچ کر ٹوٹا ہو، جس سے دوستی اپنے تمام امکانی مراحل طے کرچکی ہو، عرصہ دراز کے بعد ملے تو ایک انجانی سی خوشی ہوتی ہے :

پھر ایک طویل ہجر کے بعد
صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر
(برگ نے)

کوئی نیا موضوع نہ بھی چھڑے، کوئی نئی بات نہ بھی ہو، یادیں ہی تازہ ہو کر نئی بہار دکھا دیتی ہیں۔ ماضی اتنی قوت اور شدت سے رگ و پے میں داخل ہوتا ہے کہ مردہ لمحے زندہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا کوئی کھوئی ہوئی قیمتی متاع پھر مل گئی ہو۔ حالانکہ دل نے کبھی اس سے دوبارہ ملنے کی تمنا نہیں کی ہوتی، پھر بھی اس سے ملاقات ہونے پر ایسی خوشی ہوتی ہے جیسے کوئی خواہش پوری ہو گئی ہو۔ ظاہر ہے، اس سے جدا ہونے پر کوئی زخم لگا ہوتا تو اب ہرا ہوتا۔ یادوں کے پھول ہوتے ہیں، مہک اٹھتے ہیں۔

اس کے برعکس، عجیب بات ہے کہ ایسا شخص جس کے فراق میں آدمی ماہی ¿ بے آب کی طرح تڑپتا رہا ہو، جس کی ایک جھلک دیکھنے کو آنکھیں پتھرا گئی ہوں، مل جائے تو رنج کم نہیں ہوتا۔ بقول حفیظ ہوشیار پوری:

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
’دیوان‘ میں بھی ایک شعر ہے :
تجھ سے مل کر بھی دل کو چین نہیں
درمیاں پھر وہی سوال پڑا

Heraclitus نے کتنا درست کہا ہے : ”ہم ایک ہی دریا میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے۔“ وقت ہر لحظہ ہم میں اور کائنات میں تبدیلیاں لاتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں پرانی قیود سے رہا کر کے نئے تقاضوں کی زنجیروں میں باندھ دیتا ہے۔ ہمارے شوق، حاجتیں، پسند ناپسند بدلتے رہتے ہیں مگر وہ تعلق جو ادھورا رہ جاتا ہے، ویسے کا ویسا رہتا ہے۔ جو دوست بچھڑ جاتا ہے، ہمیں اسی طرح یاد رہتا ہے جیسا کہ وہ تھا۔ وہ ہمارے ذہنوں میں پروان نہیں چڑھتا۔ چنانچہ جب ہم اس سے ملتے ہیں تو وہ حقیقت میں تو کچھ کا کچھ ہو چکا ہوتا ہے لیکن ہماری نظریں اسی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جس سے ہم جدا ہوئے تھے۔ وہ کہیں ہو تو ملے۔ رنج اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ملنے کی جو ایک موہوم سی امید ہوتی ہے وہ بھی دم توڑ دیتی ہے۔ وہ مل کر بھی نہیں ملا:

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے
(دیوان)
اب یہ اور بات ہے کہ ہم اس ملاقات میں دل کی تسلی کے لیے بھی کوئی پہلو ڈھونڈ لیں :
دیار دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا
(دیوان)

مگر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آمنا سامنا ملاقات نہیں کہلا سکتا اور اگر اسے ملاقات کہا بھی جائے تو بھی:

چاند نکلا تھا مگر رات نہ تھی پہلی سی
یہ ملاقات ملاقات نہ تھی پہلی سی
(دیوان)
اور دو چار بار ایسا ’آمنا سامنا‘ اور ہو جائے تو کیفیت بالآخر یہ ہوجاتی ہے :
برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا
بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں
(برگ نے )

’پہلی بارش‘ کے مرکزی کردار کو بھی ایسی ہی ایک اتفاقی اور غیرمتوقع ’ملاقات‘ کا بھرپور تجربہ ہوتا ہے :

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کسی پرانے وہم نے شاید
تجھ کو پھر بے چین کیا تھا
میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
———–
تیرے ساتھ ترے ہمراہی
میرے ساتھ مرا رستا تھا
رنج تو ہے لیکن یہ خوشی ہے
اب کے سفر ترے ساتھ کیا تھا

وہ ملاقات کی بدلی ہوئی نوعیت سے نہ صرف پوری طرح واقف ہو جاتا ہے بلکہ اسے قبول کر لیتا ہے اور محض کچھ دیر کی جسمانی ہمراہی کو غنیمت جانتا ہے۔ وہ جان چکا ہے کہ ہم سفری کی آرزو نہ صرف بے سود بلکہ باعث رنج بھی ہے۔

تعلق کی اصل نوعیت کا شعور، اپنی داخلی اور خارجی تبدیلیوں کا علم اور قبولیت اسے دوزخ سے مکمل طور پر نکال لیتے ہیں۔ اس آگہی کی بدولت اسے ”جنت کا نقشہ“ دکھائی دیتا ہے جہاں ہریالی ہی ہریالی ہے، نور ہی نور، رس ہی رس، مٹھاس ہی مٹھاس؛ جہاں کوئی وسوسے پیدا کرنے والا نہیں بلکہ ”سایا سایا راہ نما“ ہے۔ جہاں ”گاتے پھول“ ہیں اور ”بلاتی شاخیں“ ہیں اور ”پتا پتا دست دعا ہے“ ۔

اور یہ جنت اسے جلد ہی مل بھی جاتی ہے۔ تنہائی میں دریا دریا روتے ہوئے اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ ”تنہائی کا تنہا سایا“ دیر سے اس کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اسے خیال آتا ہے کہ جب سارے ساتھی چھوڑ گئے تھے تو تنہائی کا پھول کھلا تھا۔ تنہائی میں یاد خدا بھی تھی اور خوف خدا بھی۔ تنہائی محرب عبادت بھی تھی اور منبر کا دیا بھی؛ اس کا پائے شکستہ بھی تھا اور دست دعا بھی۔ غرض اس کا سب کچھ تنہائی میں تھا، اس کا سب کچھ تنہائی تھی۔ وہ جنت جسے وہ باہر ڈھونڈ رہا تھا، اس کے دل میں چھپی تھی۔ وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ وہ تنہا تھا اور تنہا ہے۔ اس کے دل کی جنت تنہائی ہے۔

جنت کی دریافت اور حصول کے بعد وہ ’تجھ‘ سے اپنے تعلق کا ایک بار پھر جائزہ لیتا ہے۔ اب اسے یہ رشتہ اپنے صحیح رنگوں میں نظر آتا ہے۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ قصور اس کا ہی تھا جو وہ ’تجھ‘ کو اپنا سمجھا تھا۔ اب پتا چلا کہ ”وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا،“ حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ آخر میں وہ اپنی ’تقدیر‘ کو قبول کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے :

وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی
وہی ملا ہے جو لکھا تھا
دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا
کس کس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ہی اتنا تھا

لیکن اس سے یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ کائنات میں ازل سے ابد تک جو کچھ ہونا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے، لکھا جا چکا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی یا ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے پہلی ہی غزل میں کہا تھا، اور وہ بھی خدا کو مخاطب کر کے کہ وہ ایسا صبر صمیم ہے جس نے اپنی مرضی سے، اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے بار امانت سر پہ لیا تھا۔ وہ جانوروں کی طرح ایک ہی بات کرنے پر، ایک ہی راہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں۔ اسے انتخاب کرنے کا استحقاق (privilege) حاصل ہے۔ وہ ایسا اسم عظیم ہے جس کو جن و ملک نے سجدہ کیا تھا۔ اور جب وہ یہ کہتا ہے کہ ”جو پایا ہے وہ تیرا ہے / جو کھویا وہ بھی تیرا تھا“ ، تو اس سے لاچاری کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ وہ تو صرف یہ کہنا چاہتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے ؛ انسان اس میں سے کچھ پا لیتا ہے، کچھ کھو دیتا ہے۔ اس کی خواہشوں کی تکمیل کا دار و مدار اس کے اپنے فیصلوں اور اپنی کوششوں پر ہے :

دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا
———-
نئی انوکھی بات سنا کر
میں تیرا جی بہلاتا تھا
———–
تجھ کو جانے کی جلدی تھی
اور میں تجھ کو روک رہا تھا
——–
ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا

انسان کے خیالات، اس کا انداز نظر، اس کی زندگی کو دوزخ بنا سکتے ہیں اور جنت بھی۔ جنت تلاش کرنے پر ملتی ہے :

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

اس کا نظریہ تقدیر یہ ہے کہ ہر شے کی حدود ہوتی ہیں اور ان حدود سے جھگڑنا، انھیں توڑنے کی کوشش کرنا نہ صرف بے سود بلکہ مضر بھی ہے اور ان کو جاننے اور تسلیم کر لینے ہی میں فلاح ہے :

ان سے الجھ کر بھی کیا کرتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
———-
میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
———-
اب تجھے کیا کیا یاد دلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
———
دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

”وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی“ سے مراد ہے کہ جو کچھ ہو سکتا تھا وہی ہوا ہے۔ علت اور معلول میں ایک ناگزیر رشتہ ہوتا ہے۔ ”وہی ملا ہے جو لکھا تھا“ اور ”اپنا لہنا ہی اتنا تھا“ کے معنی ہیں کہ جو بویا تھا وہی کاٹا، جو کیا تھا اس کاہی صلہ ملا۔ انسان کو ملی ہوئی صلاحیتوں کے کئی (مگر تعداد میں مقرر) امتزاجات ممکن ہیں، مگر وہ ان میں سے ایک ہی کا انتخاب کر سکتا ہے اور کچھ چننے کے لیے بہت کچھ چھوڑنا بھی پڑتا ہے۔ انسان کا اختیار اس کی مجبوری بھی ہے اور اس کی مجبوری ہی میں اس کا اختیار مضمر ہے۔ زندگی ہر لحظہ چننے اور مسترد کرتے رہنے کا نام ہے لیکن انسان ایک بار فیصلہ کر لے اور اس کے مطابق عمل پیرا ہو تو پھر اس عمل کے عواقب کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ انتخاب سے پہلے آدمی کے سامنے کئی راہیں کھلی ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک پر چل نکلنے کے بعد باقی تمام اس کے لیے بند ہو جاتی ہیں۔ اب اگر بعد کو اسے یہ علم یا احساس ہو کہ اس کا فیصلہ غلط تھا، یا اسے چھوڑی ہوئی راہوں میں کشش محسوس ہونے لگے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجبور اور بے بس ہے۔ انسان ہر وقت ہر جگہ نہیں ہو سکتا۔ وہ سب کچھ کر نہیں سکتا، وہ سب کچھ ہو نہیں سکتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments