حکومتی امداد


میرے جیسے بے نشاں، بے نام، بے پیسہ لوگ اول تو بیماری کی عیاشی کرتے نہیں، کر لیں تو پڑوسن سے مشورہ کر لیتے ہیں، چند ٹوٹکے بتانے کے ساتھ وہ ادرک لونگ اور لیمو بھی مفت دے دیتی ہے۔

دو دن افاقہ نہ ہوتو میڈیکل اسٹور والے کو حال بتا کے گولیاں اور سیرپ لے لیتے ہیں۔ آرام گھر پر تو جب ملے گا جب فرصت ملے گی، سو گھر میں کم ہی ملتی ہے۔ کام پر جا کر کچھ آرام مل جا تا ہے۔ بیماری بھی اس نو لفٹ میں کچھ انسلٹ محسوس کر کے اپنی راہ لیتی ہے۔ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ٹائفائیڈ کے بعد پورے ایک ماہ کے لیے بستر پر پڑ گئے۔

شوہر، بچوں اور بہنوں نے علاج، غذا، دوا، پرہیز سب کا ایسا خیال رکھا کہ جلد ہی ہم بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

شوہر نے کہا کمزور ہو گئی ہو۔ فی الحال نوکری مت کرو، بچوں اور بہنوں نے صحت کے واسطے دیے۔

لیکن نوکری ہمارے شوق کی مجبوری ہے۔ سب نے ہار مان لی اور کچھ دنوں بعد ہماری ساری انرجی بھی واپس آ گئی۔ خوب چین کی نیند سوتے۔

ہم نے گانوں کے مقابلے میں حصہ لیا۔ اول انعام ملا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے تمام چینلز اور باہر سے بڑے بڑے اسپانسرز نے ہمیں بڑے بڑے پروگرامز کے لیے بک کر لیا۔ ایڈوانس کی رقم لاکھوں میں تھی۔

چھ ماہ میں ہمارے پاس دو کروڑ جمع ہو چکے تھے۔ ہم نے پوش علاقے میں ایک پلاٹ بک کیا، ہر بچے کو گاڑی دلائی۔ اور یورپ کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ مزید چھ ماہ میں ہمارے پاس بے شمار شہرت و دولت تھی۔ ہمارا ایک پیر پاکستان میں دوسرا پیر دنیا کے دوسرے ممالک میں ہوتا تھا۔ ہم نے اپنے بڑے بیٹے کو بنگلہ بنانے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔

ایک روز جہاز سے اترتے پیر پھسلا جانے کس ڈھب سے گرے کہ بے ہوش ہو گئے۔

آنکھ کھلی تو دو ڈاکٹرز آپس میں بات کر رہے تھے۔ میری امریکہ میں ڈاکٹر جانسن سے بات ہو گئی ہے۔ وہاں ان کی ری کوری کے سو فی صد چانسز ہیں۔

تو پھر کیا مشکل ہے۔

بچے کہہ رہے تھے کہ ماما ہوش میں آئیں گی تو گورنمنٹ سے اپیل کریں گی۔ گورنمنٹ امداد کرے گی۔ وہ بے چارے ان کے علاج کے لیے اتنے پیسے کہاں سے لائیں۔

مگر حکومت کی امداد تک جانے کتنی دیر ہو جائے۔ ڈاکٹر کے لہجے میں تشویش تھی۔
ہم نے کروٹ لی اور بستر سے نیچے گر پڑے۔ دھپ کی آواز سنتے ہی سب دوڑے چلے آئے۔
شوہر نے ڈانٹنا شروع کر دیا
بیٹے نے خون بہتا دیکھا تو چھوٹے بھائی سے ڈاکٹر کو فون کرنے کو کہا۔
ہم نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
میری ویڈیو بناؤ میں حکومت سے امداد کی اپیل کرتی ہوں۔ وہ مجھے علاج کے لیے باہر بھیج دیں گے۔
امی معمولی چوٹ لگی ہے، حکومت آپ کو نہیں جانتی۔
بیٹا جھنجھلا کر بولا۔
اوہ ہو تو یہ سپنا تھا۔
ہم نے ایک گہری سانس لے کر بیٹے کی طرف دیکھا۔
اچھا! تو ذرا سامنے دراز میں سے سرما نکال کر میرے زخم پر لگاؤ، خون رک جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments