پاکستان میں ”برقع“ ٹاپ ٹرینڈ پر چلا گیا


پاکستان دنیا کی واحد ٹرینڈ انڈسٹری بن چکی ہے جہاں پر کوئی بھی ٹرینڈ چند سیکنڈ میں ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے، اہل کفار کو ہمارے اس ٹیلنٹ کو انٹرنیشنل لیول پر تسلیم کر کے ایک منفرد ایوارڈ سے نواز نے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ سیالکوٹ والے المناک واقعہ کا مرکزی ملزم جو میڈیا کے سامنے ببانگ دہل اپنی سفاکی کا اعتراف کرتے ہوئے لبیک کے نعرے لگا رہا تھا جس کا نام ”عمران رضوی“ ہے جو اپنی بہن کے گھر سے برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یہ برقعہ ٹرینڈ بہت پرانا ہے سنا ہے اس کی ابتدا 1953 میں مولانا عبدالستار نیازی سے ہوئی تھی، اس کے بعد لال مسجد والی سرکار مولانا عبدالعزیز نے اس طریقہ پر مہر تصدیق ثبت کی اور اب آج کے دور کا عاشق بھی اسی حلیہ میں فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب یہ ذہنیت منبر پر گرجتی ہے یا ہجوم میں لاٹھیوں کی صورت میں ایک معصوم انسانی جان پر برس رہی ہوتی ہے یا کیمرہ کے سامنے اہل ایمان کے دلوں کو گرما رہی ہوتی ہے وہ شکتی ظلم کا ارتکاب کرنے کے بعد ہوا کیوں ہو جاتی ہے؟

جب بات عدالتی ٹرائل کی طرف بڑھتی ہے؟ ظلم ڈھانے کے بعد علم دین نے بھی جرم کی صحت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب میرے اوپر الزام ہے، اس کے بعد سلمان تاثیر کے قاتل نے بھی آخر میں صدر سے رحم کی اپیل کی تھی۔ لال مسجد آپریشن سے پہلے مفتی عبدالعزیز کی بڑھکیں سن لیں اور پھر اسی تسلسل سے پریانتھا کمارا کے قاتلوں کی سوشل میڈیا پر گرج دار دھمکیاں سن لیں اور آخر میں برقع پہن کر فرار ہونے کا تماشا مشاہدہ کر لیں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ سچا عاشق ہونے کا ڈرامہ کرتے ہیں ورنہ انہیں برقعوں میں چھپنے، عدالتوں میں اپنی جان بچانے کے چکروں میں بھاری فیس کے عوض وکلاء کا بندوبست، جرم کی صحت سے چٹا ننگا انکار اور آخر میں رحم کی اپیلیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

ان کی زندگی کا مقصد تو ناموس مذہب، خالق کی رضا اور جنت کا حصول ہے، اگر ایک ٹکٹ پر یہ تین سہولتیں دستیاب ہیں تو پھر یہ چھپنے چھپانے کا کیا ماجرا ہے؟ سفاکیت کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایک مخصوص رٹے رٹائے جملوں پر مبنی ایک مذمتی ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں چند علماء کی موجودگی میں یوم مذمت کا اعلان اور ”اگر مگر چونکہ چنانچہ“ پر مبنی چند جملوں کے ساتھ سکرپٹ مکمل ہوا۔ ایسے موقع پر مفتی رفیع عثمانی اور مولانا طاہر اشرفی کو ایک شو پیس کے طور پر کسی پریس کانفرنس کے آگے سجا دیا جاتا ہے جو متفقہ اعلامیہ پڑھ کر فرض کفایہ ادا کر دیتے ہیں۔

اس مشترکہ اعلامیہ کے دوران اس تحریک کے بندوں کو بھی ہونا چاہیے تھا جن کی وجہ سے یہ ملک جل رہا ہے۔ مولانا سعد رضوی اگر ان جیسے سفاکانہ واقعات کو حرام اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع سمجھتے ہیں تو انہیں کھل کر ایسے لوگوں سے اعلان لا تعلقی اور توہین مذہب والے قانون کا از سر نو جائزہ لینے کا ”اگر مگر“ سے ماورا ہو کر بیان دینا چاہیے تا کہ ایک لائن واضح ہو سکے۔ مہربانی کر کے اس بندے کو بھی ڈھونڈنے میں حکومت کی مدد کریں جو سیالکوٹ والے واقعہ کے مرکزی ملزمان کی کیمرہ کے سامنے عاشقانہ گفتگو کے دوران نعرے لگا کر ہجوم کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

ہمارے بھولے بھالے عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ لوگ جذباتی نعروں کی بنیاد پر ہمارے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں، بطور عوام ہمارے اندر جرات ہونی چاہیے کہ جب یہ لوگ کوئی بھی حلیہ اختیار کر کے منظر سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم پر ان بانیان مذہب سے یہ پوچھنا لازم ہے کہ اگر ہم حق پر ہیں اور اسی حق کی خاطر جان لینے اور دینے کا جذبہ رکھتے ہیں تو پھر یہ ”برقع بازیاں“ کیسی؟

اور دنیا کے سامنے اپنی سرگرمیوں کے دفاع کی بجائے یہ ”چھپن چھپائیاں“ کیسی؟ اگر ناموس کی خاطر اپنی جان دینے سے ڈر اور خوف آتا ہے تو پھر یہ خوف ایک بے گناہ اور اسٹیکر کی بنیاد پر ایک معصوم کو بے دردی سے جلاتے وقت کہاں چلا جاتا ہے؟ سوچیں اگر یہ رسم چل پڑے کہ ایک دوسرے کے مخالف سوچ رکھنے والے بندوں کو ذبح کیا جانے لگے تو پھر کون بچے گا؟ کیونکہ جب ہم مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی والا ماحول بنائیں گے تو پھر تو کوئی بھی مشتعل ہو سکتا ہے پھر ہم کس کس کو روکیں گے؟

ایک گلوبل شہری ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مہذب دنیا میں فریڈم آف ایکسپریشن اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر ایک صحت مند ڈائیلاگ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ انسانی ذہن میں پلنے والے ہر سوال سے انسانیت آگاہ ہو اور اس پر منطقی حوالہ سے گفتگو ہو تاکہ انسانی سوچ کا ورثہ پھلتا پھولتا رہے اور آنے والی نسلیں اس سوچ پر مزید تحقیق کر کے اس تسلسل کو بڑھائیں۔ اسی لیے وہاں بلاسفیمی کا تصور ہی نہیں ہے چو نکہ وہ بیمار ذہنیت کو مسترد کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

کیونکہ غلط زبانی یا توہین آمیز رویے سے دنیا کی کسی بھی سچائی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی بیمار ذہنیت والا ہمارے مذہب یا نبی پر کوئی بد زبانی کرتا ہے تو اس سے اس کی بیمار ذہنیت سامنے آتی ہے ان شخصیات کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جب ہم اس اصول کو دل سے مان لیں گے تو پھر کوئی بھی برقعہ پوش ہمارے جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہیں کرے گا، ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو لوگ ہمارے سامنے کیے جانے والے دعوؤں کے دفاع کے وقت حیلے بہانے اور مختلف پہناوے پہن کر چھپنے کی کوشش کریں تو ہمیں ایسے بندوں کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔

انسان چاہے کسی بھی مذہب عقیدہ یا سوچ سے تعلق رکھتا ہو اس کی جان کی بطور انسان ایک حرمت ہے جسے ہمیں پامال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس طرح کے جنونی سڑکوں چوراہوں یا چوکوں پر معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے لگے تو ہمیں اس ظلم کے جواز یا تاویلیں نہیں ڈھونڈنی چاہئیں کیونکہ انسانی جان بہت قیمتی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments