سانحہ سیالکوٹ سے سانحہ سیالکوٹ تک!


ایک دہائی بعد سانحہ سیالکوٹ نے سانحہ سیالکوٹ کی یاد تازہ کردی۔ 4 دسمبر کو سیالکوٹ کی فیکٹری سے انسانیت کا جنازہ جس دھوم سے نکلا اور جس بربریت کا مظاہرہ دیکھا گیا، جس درندگی سے انسانیت کو آگ لگائی گئی بالکل اس ہی طرح اکتوبر 2010 میں بھی سیالکوٹ کے گاؤں بٹر میں ایک جنونی جتھے نے دو سگے بھائیوں پر ڈکیتی کا الزام لگا کر ان کو مار مارکر ہلاک کر کے لاشوں کو لٹکا دیا۔ دل دہلانے دینے والے اس واقعہ نے نہ صرف ملک میں صدمے اور وحشت کو جنم دیا بلکہ ملکی، غیر ملکی خبروں کی بھی زینت بنا رہا، بالکل اس ہی طرح جس طرح 4 دسمبر کو سیالکوٹ میں پریانتھاکمارا کے ساتھ کیا گیا انسانیت سوز سلوک سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گیا۔

عین ممکن ہے کہ اس واقعے کو بالکل اس ہی طرح مین اسٹریم میڈیا سے غائب کر دیا جاتا جس طرح کچھ روز قبل چارسدہ میں توہین مذہب کے الزام میں زیر حراست ایک شخص کو حوالے نہ کرنے پر مشتعل ہجوم نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ مگر پریانتھاکمارا پر کیا گیا وحشیانہ تشدد اور بے ہیمانہ قتل واقعے کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے نہ روک سکا۔

انسانیت کو وحشت اور درندگی کی بھینٹ چڑھائے جانے کا پاکستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل سیالکوٹ ہی کے گاؤں بٹر میں ’جوشیلے نوجوانوں‘ نے دو بے گناہ بھائیوں کو ذاتی رنجش کے نتیجے میں ڈکیتی کا الزام لگا کر پولیس کی موجودگی میں بے دردی سے قتل کیا اور لاشوں کو سرعام لٹکا دیا گیا۔ کیا مجرموں کو عدالت نے پھانسی دی؟ حقیقت سے سب ہی آگاہ ہیں! عین ممکن ہے پریانتھاکمارا کے خلاف مشتعل ہجوم میں ان مجرمان میں سے بھی ’جوشیلے نوجوان‘ شامل ہوں جنہوں نے 2010 میں دو ’ڈکیت‘ بھائیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ ماضی میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام میں مشتعل ’جوشیلے جوانوں‘ کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے اور بے دردی سے قتل کیے گئے مشعل خان اب بھی قوم کو بھولے نہیں۔ کیا مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا؟

2010 سے 2021 تک کے سفر میں انسانیت سوز دل دہلانے دینے والے ایسے بہت سے واقعات شامل ہیں جن میں جگہ، کردار، محرکات، الزامات، قاتل اور مقتول تبدیل ہو گئے لیکن واقعے کے پیچھے ’نفسیات‘ ایک ہی ہے۔ ’عدم برداشت‘ کی نفسیات، ’اختلاف رائے‘ نہ سننے نہ ماننے کی نفسیات، ’نظریات، مزاج کے خلاف بات کرنے والے‘ پر الزام لگا کر مار دینے کی نفسیات، ’اصولی موقف اپنانے پر زندگی تنگ کردینے‘ کی نفسیات۔ ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں کبھی مذہب کے نام پر، کبھی ذاتی دشمنی یا اختلاف رائے پر انسانی زندگی کو موت کی گھاٹیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔

جہاں انسانیت سوز خونی کھیل کے آگے ریاست، ادارے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری بھی بے بسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ جہاں مشتعل، جنونی جتھے خود ہی مدعی، خود ہی وکیل، خود ہی گواہ اور خود ہی منصف بن جاتے ہیں۔ اور انسانیت سوز واقعات کے ہجوم میں شامل افراد بے حسی کا افسوس ناک مظاہرہ کرتے ہوئے مشتعل افراد کو روکنے کی کوشش کرنا تو دور ساتھ ویڈیوز لیتے، سیلفیز بناتے اور باقی خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں۔ غرض ایسے واقعات جن کو سن کر انسان کی روح تک کانپ جانیے اب تواتر سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کسی پر بھی کوئی بھی ’الزام‘ لگا کر قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی نفسیات اب شدت اختیار کرچکی ہے اور یہ سلسلہ اب خیبر سے کراچی تک پورے پاکستان میں کسی کے بھی ساتھ کسی بھی وقت کسی بھی شہر میں سر اٹھا سکتا ہے۔

ہر واقعہ پر حکمرانوں، سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں اور ریاست کی جانب سے حیرانی، غم و غصے اور دکھ کا اظہار ایسے کیا جاتا ہے جیسے کہ یہ واقعہ پہلی بار ہوا ہو۔ لیکن نفرت، انتہا پسندی، عدم برداشت کا جو بیج سالوں پہلے بویا گیا اور جس طرح ان کی آبیاری کی گئی اور ان ننھے پودوں کی پرورش کی پرورش کی گئی وہ اب اکر دار دار تن آور درختوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

جس طرح سیالکوٹ شہر کو بین الاقوامی معیار کی اسپورٹس انڈسٹری کا درجہ حاصل کرتے سالوں لگے بالکل اس ہی طرح تشدد اور انتہاپسندی کو ملک میں پروان چڑھانے کے لیے بہت محنت کی گئی۔ جگہ جگہ انتہا پسندی، شدت پسندی کی فیکٹریاں اور کارخانے لگائے گئے جن میں ڈبل شفٹوں میں کام کیا گیا۔ ریاست نے باقاعدہ سہولت کاری کی۔ اب جب یہ انڈسٹری پھل پھول رہی ہے تو اس پر حیرت کیسی؟

ایک جنون ہے، غصہ ہے ہر کسی کو ٹارگٹ کی تلاش ہے، کسی کو تاویل یا شواہد کی ضرورت نہیں۔ چوری، ڈکیتی، اختلاف رائے، معمولی سی تکرار کسی بھی ذاتی رنجش کو توہین مذہب یا توہین رسالت کا نام دے کر قانون ہاتھ میں لینے کا لائسنس حاصل ہے۔ اس واقعے نے ہمیں یہ بتایا کہ جب ملک میں افراتفری اور دھرنوں کی سیاست کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ان کو شاباشی دی جاتی ہے، تواتر کے ساتھ ریاست جتھوں اور گرہوں کی نفسیات کی آبیاری کرتی نظر آتی ہے اور حکومتی عہدیداران جب ایسے واقعات کی منطق پیش کرنے لگیں، درندگی اور سفاکی کو ’نوجوانوں کا جوش‘ قرار دیا جانے لگے تو اس طرح کے انسانیت سوز واقعات پر حیرت کیسی؟

ہم سب کو اب ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ جب کوئی بھی کسی کو کسی بھی ایسی صورتحال سے دو چار کر سکتا ہے جس سے منیب، مغیث، مشعل خان، عمران حنیف، پریانتھاکمارا اپنے آخری لمحات میں دوچار ہوئے۔ ہم نے لوگوں میں غصہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔ کیونکہ ہمارا خیال ہے کہ غصے کو استعمال کرنے سے مخالفین کو نیست و نابود کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے جان بوجھ کراس ’نفسیات‘ کی پرورش کی کہ فیصلوں اور انصاف کے لیے شواہد کی ضرورت نہیں۔ جو آپ کے نظریات اور مزاج کے خلاف بات کرے اس پر ’الزام‘ لگا کر سر تن سے جدا کر دیا جائے یا آگ لگا دی جائے۔

افسوس کہ ہم نے سانحہ سیالکوٹ سے سانحہ سیالکوٹ تک کچھ نہیں سیکھا۔ ہم چاہتے تو عقل کا دامن پکڑ سکتے تھے، تدبر اپنا سکتے تھے اور ریاست اور ملک کو ان تمام روایت اور اقدار کے ساتھ چلا سکتے تھے جو مہذب دنیا میں زندہ رہنے کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments