پاکستان سری لنکا پر اب بھی مہربان ہے



بات کرنا بلا شبہ ایک ایسا فن ہے جو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔ لیکن اگر آپ کسی ایسے عہدے پر براجمان ہیں جہاں آپ پر متعدد افراد کی نمائندگی کی بھاری ذمہ داری عائد ہے تو پھر یہ فن لازمی آپ کے پاس ہونا ہی چاہیے بصورت دیگر آپ ناصرف اپنی بلکہ اپنے ساتھ ساتھ ان متعدد افراد کی جگ ہنسائی کا باعث بھی بنیں گے جن کی نمائندگی کے آپ دعویدار ہیں۔

پاکستانی قوم کے ساتھ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں جو افراد عوام کی نمائندگی کے ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں بات چیت کے اس فن سے جزوی یا کلی طور پر نا آشنا ہیں۔

پاکستانی جید علماء کا جو وفد سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کی مذمت کی غرض سے اکٹھا ہوا تھا اس میں شامل مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے اس انسانیت سوز واقعے کی مذمت بھی کی، مسلمانوں کو ایک امن پسند قوم اور اسلام کو امن و سلامتی کا دین بھی قراردیا، واقعے کے ذمہ داران کو دین اسلام سے عاق کرنے کا سرسری سا فتوی بھی صادر کیا اور مقتول کے لواحقین کے غم میں برابر کی شراکت داری کا دعوی بھی داغ ڈالا۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے کیونکہ واقعہ واقعی قابل مذمت ہے اور متاثرہ فیملی سے اظہار تعزیت بھی ایک خالص انسانی فعل ہے بھلے مظلومین اور متاثرین کے لئے آپ اپنے دل میں کوئی خاص یا عام درد محسوس نا بھی کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اگر آپ درحقیقت ایک مثبت سوچ کے حامل فرد ہیں یا کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر مثبت سوچ کے حامل نظر آنا چاہتے ہیں، تو قرآن میں موجود امن پسندی سے متعلق متعدد مکی آیات تلاش کر کے ان کی بنیاد پر اسلام کو بڑی ہی کامیابی کے ساتھ امن کا دین ثابت بھی کر سکتے ہیں۔

مزید، مسلمانوں کوایک امن پسند قوم ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس امن پسند مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی بطور مثال پیش کرنے کے لئے موجود ہے (اب یہ اور بات ہے کہ امن پسند مسلمانوں کا یہ جم غفیر اکثر و بیشتر مواقع پر آپ کے نزدیک دینی احکامات سے بے بہرہ اور گمراہ قرار پاتا ہے اور ایک مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے نزدیک بلا تکلف و حیل و حجت کافر بھی قرار پاتے ہیں ) ۔

لہذا، ان تمام باتوں سے قطع نظر، تعجب کی بات یہ ہے کہ ان ذکی و فہیم جید علماء نے پاکستانی عوام کی جانب سے سری لنکن عوام کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ وہ اس واقعے کے بعد بھی پاکستان اور سری لنکا کے دوستانہ مراسم پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے اور پاکستان اور سری لنکا جس طرح ماضی میں دوست رہے ہیں آئندہ بھی دوست ہی رہیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بطور پاکستانی ہم سری لنکن عوام کو یہ یقین دہانی کرانے کا حق رکھتے ہیں؟ درحقیقت علماء کی جانب سے کرائی گئی یہ یقین دہانی کچھ اس قسم کا تاثر دے رہی ہے کہ جیسے پاکستانیوں کے ہاتھوں سری لنکن پر نہیں بلکہ سری لنکنز کے ہاتھوں کسی پاکستانی پر ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہوں اور پاکستانی قوم کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مجرم کو سزا دینے کے بجائے معاف کرنے پر آمادہ ہو۔

آپ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ آپ مظلوم قوم سے نہیں بلکہ ظالم قوم سے ہیں اور معاف کرنے یا نا کرنے کا اختیار ہمیشہ مظلوم کے پاس ہوتا ہے نا کہ ظالم کے پاس۔ اگر واقعی سری لنکا اور سری لنکن قوم آپ کے نزدیک کسی اہمیت کی حامل ہے یا آپ اپنے ملک میں رونما ہونے والے اس انسانیت سوز واقعے کے بعد عالمی برادری کی نظروں سے گرنا نہیں چاہتے یا غالباً شہر خون آشام کی پیدا کردہ اشیاء خاص کر کھیلوں کے سامان کی عالمی مارکیٹ میں ڈیمانڈ کم نہیں کرنا چاہتے تو بلاشبہ آپ کو ملکی سطح پر یوم مذمت تو منانا ہی پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس واقعے میں ملوث افراد کے لئے سخت سزاؤں کا مطالبہ بھی کرنا پڑے گا اور دین اسلام کا دنیا بھر تاثر بہتر بنانے کے لئے قاتلوں کے اس ظالمانہ فعل کو دین اسلام کے منافی بھی قرار دینا پڑے گا، لیکن آپس کی بات ہے، ایسا کرنا اسی وقت پر اثر ہو گا جب آپ اپنا سر شرم سے جھکا کر رکھیں نا کہ غرور سے اکڑا کر۔

اگر اس واقعے کے بعد پریانتھا کمارا کی قوم آپ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم رکھنے پر آمادہ ہو جاتی ہے تو یہ اس قوم کی بڑائی ہوگی نا کہ آپ کی۔ لہذا سری لنکا کے ساتھ کسی بھی وجہ سے دوستانہ مراسم آپ کے نزدیک اہم ہیں تو آپ کو ان مراسم کی بحالی کے لئے اس قوم سے درخواست کرنی ہوگی ان پر احسان کرتے ہوئے مراسم کی بحالی کا یک طرفہ اعلان کسی کام نہیں آنے والا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments