سانحہ سیالکوٹ


سیالکوٹ سانحے کے بعد شدید ترین شرمندگی ندامت اور مایوسی کی گرفت میں رہا۔ تین تک سوچتا رہا اس متعلق کیا لکھا جائے؟ الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ اس سفاکیت اور جہالت سے بھرپور رویے کے بارے اپنے خیالات بیان کر سکوں۔ بطور ایک پاکستانی شہری آج ہماری مجموعی اخلاقیات جس سطح تک پہنچ چکی ہے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی کیا مذمت کی جائے؟ تشویش کی بات یہ ہے کہ آج تک ہم اپنے اعمال سے صرف وطن عزیز کی جگ ہنسائی کراتے رہے ہیں اس بار ہم نے اسلام کو بھی دنیا کی نظر میں بدنام کر دیا ہے۔

کسی کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ روز محشر ہم اللہ پاک اور رسول پاک ﷺ کو اس فعل بد کا کیا جواز پیش کریں گے؟ جس مذہب کا ہم نام لیتے ہیں اس کی تعلیم تو یہ ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ہم ایک نہتے شخص کے بے دردانہ قتل کا یہ جواز پیش کریں گے کہ مبینہ طور پر ایک سٹیکر اتارنے پر ایک فرد نے توہین مذہب کا الزام لگا دیا اور باقیوں نے اس پر آنکھ بند کر کے اس پر اعتبار کر لیا۔ نہ کوئی ایف آئی آر کٹی، نہ مقدمہ چلا، نہ شہادت طلب ہوئی اور نہ کسی منصف نے فیصلہ سنایا خود ہی ہجوم مدعی گواہ منصف اور جلاد بن گیا۔

جس پاک ہستی ﷺ کی حرمت کے نام یہ ظلم ہوا انہوں نے تو پھلدار درخت کاٹنے اور فصلیں تک جلانے کی ممانعت فرمائی تھی۔ ایک جیتے جاگتے انسان کو جلانے والے سیاہ کرتوت سے اس پاک ہستی ﷺ پر کیا گزر رہی ہوگی؟ اب ہم لاکھ اس بدبخت ہجوم کے کار مکروہ کی مذمت کرتے رہیں دنیا اسے ہی ہمارے اجتماعی چہرے کے طور پر دیکھے گی۔ اپنی قومی شہرت سے پہلے ہی ہم واقف ہیں کیا اب دنیا اسلام کو بھی اسی لپیٹ میں نہیں لے گی۔

میرا یقین ہے کہ کسی گرے سے گرے اور گناہگار ترین مسلمان کے لیے بھی نبی کریم ﷺ کی ناموس کی حرمت دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر ہے اور اس کے بغیر کوئی شخص اپنا ایمان مکمل ہونے کا تصور نہیں کر سکتا۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ”اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے، تم میں سے کسی کا ایمان مکمل ہو ہی نہیں سکتا جب تک میں اسے اس کے والدین اولاد اور دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“ ۔ سوچنے کی بات یہ کہ اس کہ باوجود ہمارے ہاں پچھلے کچھ سالوں سے اس قسم کے الزامات کی وجہ سے پیش آنے والے پر تشدد واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

اس کے جواب سے شاید پیشانیوں پر بل پڑ جائیں مگر وجہ یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ناموس رسالت ﷺ سے متعلق پائی جانے والی حساسیت کو سیاسی و گروہی مفادات کی تکمیل کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے اور اسی لیے آج معاشرے میں معمولی باتوں پر توہین مذہب یا توہین رسالت ﷺ کا الزام لگا کر قتل و غارت عام ہو چکا ہے۔ ہمارے قومی شعور کی جو سطح ہے عام آدمی کا نوحہ لکھنا ہی فضول ہے یہاں تو ریاستی اور حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات کی طرف سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے اس کارڈ کے استعمال کا چلن عام ہو چکا ہے۔

کسی کو خیال نہیں آتا کہ وقتی اور معمولی فائدے کی خاطر ہم اپنا کتنا بڑا دنیاوی و اخروی نقصان کر رہے ہیں۔ نہ ہی کسی کو یہ احساس ہے کہ جس طرح توہین مذہب، توہین رسالت ﷺ اور توہین صحابہؓ سنگین جرائم ہیں، جھوٹا الزام لگانا اور اپنی بات ثابت نہ کر سکنا اس سے بڑا جرم ہے۔ اس قسم کے الزامات لگانے والے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی نا واقف ہیں ورنہ انہیں ضرور علم ہوتا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ”اے ایمان والو انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے قرابت داروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی امیر ہے یا فقیر خدا ہر شخص کا خیر خواہ ہے تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ گواہی دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو جان رکھو خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔“ سورۃ نسا ”۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی جگہوں پر جھوٹ بولنے والوں پر لعنت اور جھوٹی گواہی دینے والوں پر وعید بتائی گئی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے ان وعیدوں کے باوجود ہمارے نام نہاد مسلم معاشرے میں ذاتی عناد اور گروہی تعصبات نمٹانے کے لیے توہین رسالت ﷺ کے جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کئی بے گناہ اپنی جانوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہاں میں اپنے ذاتی مشاہدے پر مبنی ایک واقعہ مختصراً عرض کرتا ہوں۔ چند سال قبل ربیع الاول کے مہینے میں ایک منشیات فروش رات کے وقت بائک پر جا رہا تھا۔ سڑک پر لوگ میلاد کے سلسلے میں چراغاں وغیرہ کر رہے تھے اور ان کا سامان بکھرا ہوا تھا جس سے الجھ کر وہ گر پڑا۔ اٹھنے کے بعد وہ بھڑک اٹھا اور چراغاں کرنے والوں سے کہنے لگا کہ یہ کس قسم کی عبادت ہے کہ تم خلق خدا کو اذیت دے رہے ہو اور چوری کی لائٹ استعمال کر کے کتنا ثواب حاصل کرو گے۔ اتنی سی بات کا بتنگڑ بن گیا اور اس شخص کو توہین رسالت ﷺ کا الزام لگا کر جیل بھجوا دیا گیا۔ جیل میں ہی دوران ٹرائل علاقے کے ایک دوسرے منشیات فروش نے جس کا ملزم سے دیرینہ جھگڑا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے گھروں پر حملے تک کر چکے تھے، گلا دبا کر مار دیا۔ کچھ مہینوں بعد چند عینی شاہدین نے تسلیم بھی کیا کہ ملزم نے توہین آمیز الفاظ ادا نہیں کیے تھے اس کے باوجود اسے قتل کرنے والا شخص ہیرو بن کر جیل سے باہر آ گیا اور آج تک آزاد گھوم رہا ہے۔

اس حوالے سے ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس قسم کے واقعات میں آج تک ہماری ریاست اشتعال پھیلانے والوں کی درپردہ سرپرستی کرتی رہی ہے۔ یہ عجیب کلچر بھی شاید پوری مسلم دنیا میں ہمارے ہاں ہی ہے کہ توہین آمیز واقعات کو بنیاد بنا کر گلیاں و بازار بند کر کے غریب غربا کو اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس فقیر کی آنکھوں دیکھی بات ہے کہ ایک مذہبی تنظیم جس پر سے کالعدم کا لیبل اب ہٹا دیا گیا ہے، کا لٹھ بردار جتھہ جب بازار بند کرانے پہنچا تو ایک ٹھیلے والے سبزی فروش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

وہ کہنے لگا، ”پہلے ہی کاروبار ٹھنڈا ہے اور دو دن پہلے ہی چھٹی رہی ہے۔ تم جا کر توہین کرنے والے کو پکڑو مجھ غریب کے بچوں کو بھوکا مار کر تمہیں کیا ملے گا؟ میری سبزی باسی ہو گئی تو اسے کون خریدے گا اور میں یہ نقصان کہاں سے پورا کروں گا“ ۔ ذرا سوچیے جس ہستی کے نام پر ہم یہ ظلم کرتے ہیں وہ تو خود پر کچرا پھینکنے والی عورت کی غیر حاضری پر اس کی عیادت کو چلے جاتے تھے۔ اور ہم اس کی محبت کا نام لے کر ہسپتالوں کے رستے بند اور غربا کے چولہے گل کر رہے ہیں۔

کل روز قیامت اس بابت سوال ہوا تو ہم کیا جواب دیں گے، اور کس منہ سے اس ہستی ﷺ کی شفاعت کے طلبگار ہوں گے۔ معاشرہ آج جس زوال کا شکار ہے اس کی وجہ وقتی اشتعال نہیں بلکہ برسوں کی محنت سے تیار کردہ اجتماعی مائنڈ سیٹ ہے۔ ہماری سوچ اور پالیسیوں سے معاشرہ تو انحطاط کا شکار ہو چکا اب قومی سلامتی بھی سنگین خطرے کی زد میں ہے۔ ہم صرف دہائی دے سکتے ہیں جن کے ہاتھ میں قوم کی مہار ہے خدارا اپنی سوچ تبدیل کر لیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ پچھتانے کا موقع بھی نہ ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments