پاکستان میں 50 روز
پاکستان میں 50 روز گزارنے کے بعد رواں ہفتے ہماری امریکہ واپسی ہو گئی ہے۔ سیالکوٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ سے امارات کی براستہ دوبئی، نیویارک کے لیے ایک طویل اور تھکا دینے والی ساڑھے اکیس گھنٹوں پر محیط پرواز کے بعد جب نیویارک کے جان۔ ایف۔ کینیڈی (JFK) ائرپورٹ سے باہر نکلے، تو نیویارک کی ان دنوں چلنے والی روایتی یخ بستہ ہواؤں نے پرتپاک استقبال کیا۔
نیویارک کے ’جے۔ ایف۔ کے‘ ائرپورٹ کے ٹرمینل 4 سے ہمارا ”رومانس“ بھی کوئی بیس سال پرانا ہے۔ جب ہم پہلی بار پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے اسی ٹرمینل فور سے امریکہ میں داخل ہوئے تھے۔
پی آئی اے نے 2017 سے نیویارک سمیت امریکہ بھر کے لیے اپنی پروازیں فنانشل کرائسز اور ناکافی سہولیات کے باعث بند کر رکھی ہیں۔
دن رات مصروف رہنے والا ٹرمینل 4 پہلی بار ہمیں غالباً کوڈ۔ 19 اور کم آنے والی پروازوں کی وجہ سے کم مصروف دکھائی دیا۔ اور امیگریشن کا ؤنٹر سے دو منٹ سے بھی کم وقت میں فارغ ہو کر ہم بیلٹ سے اپنا سامان ڈھونڈ رہے تھے، جس کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔
سامان ٹرالی میں رکھا اور ہم سیدھے باہر نکل آئے۔ نا کسی کسٹم کا جھنجھٹ اور نہ ہی کوئی غیر ضروری دیری آڑے آئی۔
زیادہ تر بین الاقوامی پروازوں کے لیے مختص ٹرمینل 4 پر دن رات خوب رونق رہتی ہے۔ روزانہ دینا کی چونتیس سے زائد بین الاقوامی ائر لائنز کی میزبانی یہ ٹرمینل کرتا ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے اسے ”گیٹ وے آف امریکہ“ بھی کہا جاتا ہے۔
جان ایف کینیڈی ائرپورٹ دنیا کا بیسواں اور نارتھ امریکہ کا چھٹا مصروف ترین ائرپورٹ ہے۔ 2019 اس ائرپورٹ سے سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد 62.5 ملین تھی۔
8 اکتوبر کو ہم اہلیہ کے ہمراہ نیویارک کے JFK ائرپورٹ کے ٹرمینل 4 سے ساڑھے چودہ گھنٹے کی پرواز سے دوبئی پہنچے۔ جو ہمیشہ کی طرح ایک تھکا دینے والا سفر رہا ہے۔ تاہم روشنیوں اور رنگ و نور میں نہایا ہوا دوبئی کا وسیع و عریض ائرپورٹ بہت بھلا لگا۔
وہاں فری وائی فائی کی وجہ سے واٹس ایپ پر پیغامات بھیجنے کی سہولت غنیمت لگی۔ دوبئی ائرپورٹ پر دینا کی ہر قومیت کے باشندے جابجا نظر آ رہے تھے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور مڈل ایسٹ سے تعلق رکھنے والے مسافروں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔
دوبئی سے سیالکوٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ کے لیے ہمیں اگلی فلائٹ کے لیے پانچ گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ دوبئی کا ائرپورٹ اتنا بڑا ہے کہ آپ کو ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل تک بذریعہ بس یا ٹرین پہنچنے کے لیے کافی وقت لگ جاتا ہے۔ دو گھنٹے اسی تگ و دو میں گزر گئے۔
اگلے تین گھنٹے ائرپورٹ پر موجود ڈیوٹی فری شاپس میں گھومتے اور شاپنگ کرتے گزرے۔ کئی سال بعد دوبئی ائرپورٹ سے مزیدار حلال ”کے ایف سی“ کھانے کو ملا۔ جو کہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔ رات ایک بجے دوبئی سے ساڑھے تین گھنٹے پر محیط امارات کی پرواز سیالکوٹ کے لیے روانہ ہوئی، جو علی الصبح وہاں پہنچ گئی۔
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر انتظام پرائیویٹ پارٹنر شپ میں بنائے گئے سیالکوٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ کے حسن انتظام نے ہمیں بڑا متاثر کیا۔ اس نسبتاً چھوٹے مگر کارکردگی کے لحاظ سے مثالی ائرپورٹ کے عملے کی پیشہ ورانہ مہارت اور حسن سلوک نے دل خوش کر دیا۔
موقع پر ریپڈ کوڈ۔ 19 ٹسٹ سے لے کر امیگریشن اور کسٹم سمیت سارے معاملات بغیر کسی رکاوٹ کے پینتیس، چالیس منٹ کے اندر سرانجام پا گئے۔ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہم ائرپورٹ کے باہر تھے۔ جہاں لینے کے لیے آئے بھائی اور دیگر فیملی ممبران ہمارا انتظار کر رہے تھے۔
سیالکوٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاؤ الدین، جہلم اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے ایک نعمت اور ”گیم چینجر“ ثابت ہوا ہے۔ ان علاقوں سے ایک کثیر تعداد میں اوورسیز پاکستانی بیرون ممالک مقیم ہیں۔ ان کی اسلام آباد اور لاہور کی نسبت کم وقت میں اپنے علاقوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔
موضع شہباز پور (گجرات) کے مقام پر دریائے چناب پر نیا پل بننے کی وجہ سے سیالکوٹ ائرپورٹ سے گجرات کا فاصلہ 45 کلومیٹر سے بھی کم رہ گیا ہے۔ جو آسانی کے ساتھ ایک گھنٹے کے اندر طے ہو جاتا ہے۔ ائرپورٹ سے گجرات تک دو رویہ سڑک مکمل ہو جانے کے بعد یہ سفر چالیس منٹ تک رہ جائے گا۔
سیالکوٹ ائرپورٹ سے فلائٹ آپریشنز کا باقاعدہ آغاز 2007 سے ہوا۔ ائرپورٹ سے اس وقت پی آئی اے، امارات، قطر ایئرویز، فلائی دوبئی، ائر عریبہ، سلام آئیر اور گلف ائر مختلف ممالک کے لیے اپنی پروازیں چلا رہی ہیں۔
سیالکوٹ ائرپورٹ انتظامیہ کی ویب سائٹ کے مطابق ٹرکش ائر لائنز سے ان کا معاہدہ ہو چکا ہے، جو اگلے سال مارچ یا اپریل سے سیالکوٹ سے استنبول کے لیے اپنی پروازیں شروع کرے گی۔ جبکہ اتحاد ائر لائنز اور عمان ائر بھی عنقریب اپنی پروازیں شروع کر دیں گی۔
سیالکوٹ سے ہماری اگلی منزل مقصود شہر گجرات تھا۔ جہاں ہم مذکورہ روٹ سے چلتے ہوئے ایک گھنٹے کے اندر گجرات پہنچ گئے۔
بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے اپنے وطن آ کر اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب سے ملنے کے علاوہ، شادی بیاہ کی تقریبات اور اپنے دوست احباب کے فوت شدگان کے اظہار افسوس کے لیے ان کے ہاں جانا اہم امور تصور کیے جاتے ہیں۔
روایتی طور پر غمی والے امور عام طور پر پاکستان آنے کے ابتدائی دنوں میں ہی نمٹا لیے جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد دعوتوں اور شادیوں میں شرکت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ہماری پاکستان آمد کے دو دن بعد طے شدہ پروگرام کے تحت انگلینڈ سے ہمارے کزن عدیل خصوصی طور پر ہمیں اور اپنی آنٹی سے ملنے کے لیے دو ہفتے کے لیے پاکستان پہنچ گئے۔ عدیل سے ہماری ملاقات کم و بیش پندرہ سال کے بعد ہوئی۔ اس کی موجودگی کی وجہ سے خوب ہلہ گلہ اور رونق رہی۔
پہلے سے بنے شیڈول کے مطابق اب اگلے دو ہفتے ہم جہاں بھی گئے، عدیل نے نہ صرف فیملی ممبر بلکہ بطور ایک پروفیشنل ڈرائیور بھی ہمارا خوب ساتھ دیا۔ اور مختصر وقت میں ہم اس کے حسن سلوک اور ”ڈرائیوری“ کے مزید قدردان ہو گئے۔
چند دن گجرات میں گزار کر سب سے پہلے ایک روز کے لیے ضلع ننکانہ صاحب میں واقع اپنے آبائی گاؤں گئے، جہاں مرحوم والدین اور دیگر عزیزوں کی قبروں پر حاضری دینے کے علاوہ عزیز و اقارب سے ملاقات کی۔ ان کے اصرار کے باوجود رات گئے ہم واپس گجرات پہنچ گئے۔
انہی دنوں ایک کالعدم جماعت کا لانگ مارچ اور دھرنا پروگرام شروع ہو چکا تھا۔ اور آخر میں وہ وزیر آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ رہے۔ دریائے چناب کا پل اور دیگر راستے بند ہو جانے کے باعث یہ عرصہ کہیں آنے جانے بہت تکلیف رہی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا رہا۔ بلکہ اتنا عرصہ ہم نے بے دلی سے گھر میں بند ہو کر گزارا۔
اسی دوران لاہور قریبی عزیزوں میں ایک شادی تھی جس میں شرکت بھی لازمی تھی۔ اب تقریباً سبھی راستے بند تھے۔ خوش قسمتی رہی کہ گجرات سے براستہ جلال پور جٹاں سیالکوٹ لاہور موٹر وے کھلی رہی۔ تاہم گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں کی وجہ سے منزل پر پہنچنے میں بعض اوقات ڈبل سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا تھا۔ تاہم اکثر لوگ اب لاہور جانے کے لیے سیالکوٹ موٹر وے روٹ ہی استعمال کرتے ہیں۔ جس نے لوگوں کی زندگیوں میں بڑی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ لاہور جانے کے لیے جی ٹی روڈ ہی استعمال کرتی ہے۔
اکتوبر کا آخری ہفتہ ہم نے لاہور میں گزارا۔ جہاں ایک قریبی فیملی کے ہاں شادی کی رنگا رنگ تقریبات میں شرکت تھی۔ لاہور کے چند مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے چند ایک معروف ریستورانوں اور کافی شاپس میں بھی جانا ہوا۔ لاہور اب ہر لحاظ سے بہت بدل چکا ہے۔ لاہور میں رہتے ہوئے ایک دن کے لیے ساہیوال بھی جانا ہوا۔ کوئی دس دن لاہور میں گزار کر پھر گجرات واپسی ہوئی۔
واپس آنے دو ایک روز بعد گجرات میں ہمارے قریبی اور مقامی تاجر رہنما دوست شجاع الدین میر نے اپنی رہائش گاہ پر مجھ سمیت ناروے سے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے اپنے دوست اور معروف کمیونٹی رہنما میر فضل حسین کے اعزاز میں ایک پرتکلف ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ جس میں گجرات کے سینئر صحافیوں بشارت لودھی، ظہیر مرزا، وحید مرزا اور رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ ٹھیکیدار عمران رشید نے بھی شرکت کی۔ میر فضل حسین کے صاحبزادے بھی اس نشست میں اپنے والد کے ہمراہ تشریف لائے۔ میری اپنی اور صحافی دوست ظہیر مرزا کی خواہش کے باوجود دوبارہ ان سے ملاقات کا چانس نہ بن سکا۔
شجاع الدین میر اور ان کے صاحب زادوں احمد شجاع میر اور حمزہ شجاع میر نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے ابو کے دوستوں کا حق میزبانی خوب مستعدی سے ادا کیا۔
اس نشست میں ایک طویل عرصے کے بعد دوستوں سے مختلف موضوعات، خصوصاً اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل، گجرات کی سیاست و صحافت، ضلع میں جاری ترقیاتی منصوبوں، آئندہ ہونے والے انتخابات کے حوالے سے دھڑے بندیوں اور شہر یوں کے مسائل پر دوستوں کے خیالات جاننے کا بھرپور موقع میسر آیا۔
اسی وزٹ کے دوران گجرات کے لکھاریوں، بشارت لودھی، محمد اشفاق ایاز اور یونیورسٹی آف گجرات میں ڈائریکٹر میڈیا پروفیسر شیخ عبدالرشید سے تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔
اشفاق ایاز کی طنز و مزاح پر مشتمل کتاب ”چاند کی گود میں“ اور شیخ عبدالرشید کی تاریخ اور گجرات سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کے حوالے سے کتاب ”مرقع گجرات“ حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔ ملاقات میں دونوں دوستوں نے اس موقع پر اپنی کتب بھی عنایت کیں۔
گجرات کے ڈسٹرکٹ انفارمیشن افسر سید وقار جاوید نقوی (ڈپٹی ڈائریکٹر) سے گجرات کے شب و روز اور خصوصاً یہاں کی مقامی صحافت اور ان کے فرائض منصبی کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔
ماس کمیونیکیشن میں ایم فل اور صحافت سمیت حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے نقوی صاحب نے بتایا کہ ”وہ سرکاری ملازمت میں آنے سے پہلے کئی ایک نامور اخبارات کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ جہاں مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے“ ۔
گجرات کے بعض کالجز اور پرائیویٹ سکولز کے اساتذۂ کرام سے بھی گفتگو کا موقع ملا۔ ان میں پنجاب گروپ آف کالجز گجرات کے پرنسپل رانا محمد یونس، وہیں پاکستان سٹڈیز کے لیکچرر رفاقت گوندل و دیگر اساتذہ شامل تھے۔
لاہور گرائمر سکول گجرات کے او لیول/ اے لیول کوارڈینیٹر اور معروف ماہر تعلیم ندیم شریف، بیکن ہاؤس سکول کے میتھس ٹیچر چوہدری نثار احمد، غزالی سکول گجرات کے پرنسپل احمد سلطان اور وائس پرنسپل چوہدری سجاد سے گجرات کی تعلیمی سرگرمیوں و دیگر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اور پرانی یادوں کو خوب تازہ کیا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ اب اکثر اساتذہ نے مہنگائی کے پیش نظر اپنی ٹیوشن فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ایک بڑے پرائیویٹ سکول کے ٹیچر نے بتایا کہ ”وہ او لیول کے ایک طالب علم سے اس کے گھر جا کر فی مضمون ایک گھنٹہ ٹیوشن پڑھانے کی فیس تیس ہزار روپے لیتے ہیں“ ۔
اتنی زیادہ فیس؟ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ”گجرات میں لوگوں کی ایک خاص کلاس کے پاس بہت پیسہ آ گیا ہے۔ زیادہ تر انہی کے بچے ایسے سکولوں میں پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ انہیں زیادہ فیسوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ زیادہ ٹیوشن فیس دینے کو بھی ’سٹیٹس سمبل‘ کے طور پر لیتے ہیں“ ۔
دوران ملاقات پنجاب کالج گجرات کے پرنسپل رانا یونس نے ایک اہم نقطہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”کسی زمانے میں گجرات کے سکولوں میں زیادہ نمبر لینے والے طالب علم گورنمنٹ کالجز کا رخ کرتے تھے، خصوصاً میٹرک کے امتحان کے ٹاپرز گورنمنٹ زمیندار کالج گجرات میں داخل ہوتے تھے۔ مگر اب گزشتہ کئی سال سے پرائیویٹ کالجز کے آنے کے بعد یہ روش تبدیل ہو چکی ہے۔ اب میٹرک کے امتحانات کے ٹاپرز یا اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کے والدین کی پہلی ترجیح ان کا پنجاب گروپ آف کالج ہوتا ہے۔ ہماری میرٹ لسٹ پر نہ آ سکنے والوں کی طرف سے انہیں بعض اوقات بڑی سفارشیں بھی آتی ہیں کہ بچے کا داخلہ ہر صورت اسی کالج میں کروانا ہے“ ۔
اس بار گجرات شہر بھی ہمیں کافی بدلا بدلا نظر آیا۔ دیر کے بعد آنے والا ہر شخص اب شہر میں خود کو اجنبی سا محسوس کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے پرانا شہر، اس کے باسی، اس کے در و دیوار اور بازار کہیں کھو سے گئے ہیں۔
انہی بازاروں میں چلتے ہوئے مشاہدہ ہوا کہ مصروف زندگی، ہوش ربا مہنگائی اور روزی روٹی کے مسائل نے لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ ہی چھین لی ہے۔
شہر گجرات کے اہم بازار، جیسے جی ٹی روڈ، سرکلر روڈ، کچہری روڈ، بھمبر روڈ، رحمان شہید روڈ، قمر سیالوی روڈ و دیگر بڑے بڑے شاپنگ پلازوں، کمرشل عمارات اور معروف برانڈز کے گارمنٹس سٹورز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے شہر کے بازار تنگ اور پارکنگ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
تین چار شعبوں میں ظاہری طور پر بڑی ترقی نظر آئی۔ ان میں ریئل اسٹیٹ (پراپرٹی بزنس) ، پرائیویٹ شعبے میں بڑے بڑے ہسپتال، کلینکل لیبارٹریاں، میڈیکل سٹورز اور فارمیسی کی بڑی چینز جابجا نظر آئیں۔ جو تعداد کے لحاظ سے تو بہت زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ مگر ان کی کوالٹی اور عام آدمی کے لیے وہاں سہولیات بہت کم کم نظر آتی ہیں۔ سارے نہیں مگر اکثر ڈاکٹر اور فارماسوٹیکل کمپنیاں باہمی گٹھ جوڑ کے باعث خوب مال بنا رہی ہیں۔
جدید میڈیکل سہولیات پہنچ سے باہر ہونے کے باعث عام آدمی پس رہا ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹروں کی بہتات کی وجہ سے میڈیکل کے شعبے میں بہتری آنے کی بجائے علاج معالجے کی کوالٹی مزید کم ہوئی ہے۔
صرف اپنے شہر گجرات میں جہاں کوئی پندرہ بیس سال پہلے گنتی کے چند ہسپتال، چند درجن ڈاکٹرز، اور شہر کی اہم جگہوں پر مخصوص میڈیکل سٹورز ہوتے تھے۔ مگر اس دفعہ مشاہدہ ہوا کہ تقریباً آدھا شہر ہسپتالوں، میڈیکل سٹوروں، بلڈ ورک لیبارٹریوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ گجرات کا بھمبر روڈ تو عملی طور پر ”ڈاکٹرز روڈ“ یا ہسپتال روڈ بن چکا ہے۔ جہاں قائم پرائیویٹ ہسپتال، ڈینٹل کلینک، کلینکل لیبارٹریاں اور ان سے وابستہ دیگر میڈیکل سہولیات کو شمار کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ ہسپتالوں کی بہتات تو یہی ظاہر کرتی نظر آتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں اور مریضوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
گجرات اور اس کے ہمسایہ اضلاع، سیالکوٹ، منڈی بہاؤ الدین، جہلم اور گوجرانوالہ سے ایک کثیر تعداد میں اوورسیز پاکستانی بیرون ممالک مقیم ہیں۔ ان شہروں میں قائم بڑے بڑے شاپنگ پلازوں، برانڈز کے سٹوروں اور ہسپتالوں کی رونق انہی اوورسیز پاکستانیوں کے دم سے ہے۔ جو کثیر تعداد میں زرمبادلہ اپنے فیملیز کو بھیجتے ہیں۔
بیرون ممالک مقیم پاکستانی، خصوصاً امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ اور یورپ کے ممالک میں رہائش پذیر اپنے وطن عزیز آئیں اور یہاں آ کر بیمار نہ ہوں یہ ناممکن سی بات ہے۔ عام بیماریوں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث پیٹ کا خراب ہو جانا، گلہ خراب، بخار اور نزلہ زکام عام سی بات ہے۔ ہمارے ایک محبوب دوست ایسے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ”برائلر مرغے“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ جو نہ زیادہ سردی اور نہ ہی زیادہ گرمی برداشت کر سکتے ہیں۔
مغربی ممالک میں میڈیکل کی زیادہ تر سہولیات وہاں کی حکومتیں مفت فراہم کرتی ہیں۔ یا پھر مریض کو بہت کم ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ ڈینٹل یعنی دانتوں کا علاج پوری دنیا میں تاہم ان ممالک میں خصوصاً بہت مہنگا ہے۔
پرائیویٹ میڈیکل انشورنس کمپنیاں یا حکومتیں دانتوں کے روٹین کے علاج معالجے کے علاوہ اکثر روٹ کنال، ڈینٹل سرجری، دانتوں کے اوپر برجز لگانا، کر اؤن چڑھانا اور ٹوتھ ایمپلانٹ و دیگر کے اخراجات برداشت نہیں کرتیں۔ یہ ٹریٹمننٹ مریض کو اپنی جیب سے کرانا پڑتا ہے۔ جو ظاہر ہے بہت ہی مہنگا پڑتا ہے۔
دانتوں کے ایسے ایشوز کے علاج کے لیے زیادہ تر اوورسیز پاکستانی پاکستان جا کر علاج کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں یقیناً کافی سستا پڑتا ہے۔
پاکستان میں قیام کے آخری تین ہفتوں میں بیماری نے ہمیں بھی خوب لتاڑا۔ بخار اور کان میں ہوا کے پریشر کے مسئلے نے کافی پریشان کیے رکھا۔ اسی وجہ سے بہت سے دوست احباب سے ملاقات بھی نہ ہو سکی۔
پاکستان جانے سے پہلے کانوں میں بعض اوقات ہلکی ہلکی خارش سی محسوس ہوتی تھی۔ سوچا کہ اس کا علاج بھی پاکستان جا کر کروائیں گے۔ 90 ء کی دہائی میں گجرات میں غالباً واحد ای این ٹی سپیشلسٹ ڈاکٹر سرفراز اختر بھٹہ صاحب عزیز بھٹی شہید ہسپتال میں ہوتے تھے۔ جب بھی کبھی کانوں کا مسئلہ ہوا انہی کے پاس گئے۔
اب پاکستان جانا ہوا تو پتہ چلا کہ 74 سالہ ڈاکٹر بھٹہ صاحب اب بھی فعال ہیں۔ ان کی رہائش تو لاہور میں ہے تاہم وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد گجرات ہسپتال میں ہفتے میں تین دن بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے چیک کر کے بتایا کہ کانوں میں کافی میل (ویکس) ہے۔ تین چار دن روغن بادام یا میڈیکل سٹور سے میل کو پگھلانے والے قطرے ڈال کر آ جائیں، آپ کا کام کر دیں گے۔ لطیف حس مزاح رکھنے والے ڈاکٹر بھٹہ صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کے کانوں سے امریکہ کی ”مٹی“ میں ہی نکالوں گا۔
مقررہ دن آپریشن تھیٹر میں لے جا کر انہوں نے سن کرنے والی Gel ڈال کر مشین کے ذریعے دونوں کانوں سے ویکس نکال دی۔
ایک دو دن تو ٹھیک گزرے، پھر بخار نے آن گھیرا۔ جو اترنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ اکثر دن میں معاملہ ٹھیک رہتا، تاہم شام ہوتے ہی پھر سردی کے ساتھ بخار ہو جاتا۔
معلوم ہوا کہ گجرات میں ایک نوجوان میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر سلمان بشیر تشخیص کرنے میں کافی اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ان سے رجوع کیا تو وہ متاثر کیے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں ساری کیفیت سننے کے بعد کہا کہ فوری طور پر بلڈ ورک کروا کر آئیں۔ جو اگلے دو گھنٹے کے اندر اندر ہو گیا۔
رپورٹ دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ نہ کرونا ہے نہ ڈینگی اور نہ ہی ٹائیفائیڈ۔ ایسا بخار ہونا آج کل عام ہے۔ جو کسی چیز کے کاٹنے خصوصاً مچھر یا پھر شادی کی تقریب میں کسی سے یہ وائرس آپ کو لگا ہے۔
استفسار پر انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ضروری نہیں کہ ہر مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی یا ملیریا بخار ہو جائے۔ کچھ انٹی بایوٹک ادویات اور ساتھ پینا ڈال کھانے سے بخار ایک ہفتے بعد اتر گیا۔ تاہم ہمیں واپسی کی سیٹیں دو ہفتے مزید آگے کروانی پڑیں۔ کیونکہ بخار کی حالت میں سفر کرنا دشوار تھا۔
بخار ٹھیک ہوا تو کان کے مسئلے نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر بھٹہ سے دوبارہ رجوع کیا تو انہوں انٹی بایوٹک آگمنٹن اور نوزل ڈراپس تجویز کیے۔ ایک ہفتہ استعمال کرنے کے باوجود مسئلہ جوں کا توں رہا۔ ایک کان ہر وقت بند محسوس ہوتا۔ سوچا سیکنڈ رائے لے لی جائے۔
گجرات میں نواز شریف میڈیکل کالج کے موجودہ پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر چوہدری ظفر اقبال گل جو اتفاق سے کالج کے ہیڈ آف ای این ٹی ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں سے رابطہ کیا جنہوں نے چیک کرنے کے بعد بتایا کہ کان سے جو باریک نالیاں گلے کی طرف جاتی ہیں ان میں سوزش اور بلکیج محسوس ہو رہی ہے۔ انہوں نے نوزل سپرے اور دوائی بدلی اور ساتھ کہا انٹی بایوٹک آپ نے پہلے ہی کافی استعمال کر لی ہے۔ وہ مزید نہ کھائیں۔ اور تین دن کے بعد دوبارہ دکھا دیں۔
تین کی بجائے چار دن بعد دوبارہ گئے تو ان کی سٹاف نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب تو آج ایک میٹنگ میں شرکت کے لاہور گئے ہوئے ہیں۔ ان کی جگہ ان کے اسسٹنٹ ایک دوسرے ای این ٹی سپیشلسٹ ڈاکٹر اسامہ بیٹھے ہوئے ہیں، آپ انہیں دکھا دیں۔ انہوں نے بھی کان کے اندر کیمرا ڈال کر چیک تو ڈاکٹر گل صاحب کی تشخیص ہی اتفاق کیا۔ اور ساتھ ہی تجویز کیا کہ ہیئرنگ ٹسٹ سمیت کان کے دو ٹسٹ کروا لیں۔
جمعہ کی وجہ سے ٹسٹ کی ایک لیب تو بند تھی۔ دوسری کھلی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی سٹاف نے کافی تعاون کیا۔ اور اس ڈر سے کہ لیب بند نہ ہو جائے انہیں میری ممکنہ آمد سے متعلق آگاہ کر دیا۔ ٹسٹ ہوئے۔ بائیں کان میں پانچ فیصد کم سنائی دے رہا تھا۔ واپس ڈاکٹر کے پاس گئے تو ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ ڈاکٹر پانچ بجے اٹھ چکے تھے۔ سٹاف نے میری رپورٹس ڈاکٹر صاحب کے واٹس ایپ پر سنڈ کیں۔ انہوں نے چیک کر کے دوائی میں تھوڑی تبدیلی کی۔
تاہم اگلے روز امریکہ روانہ ہونے سے دو دن پہلے میں اپنی تسلی کے لیے ڈاکٹر ظفر گل صاحب کو دکھانے پھر پہنچ گیا۔ انہوں نے رپورٹس دیکھ کر تفصیلی نسخہ لکھ دیا۔ اور اچھی بات یہ ہوئی کہ امریکہ آنے سے ایک دن پہلے کان کا پریشر ختم ہو گیا۔ میں نے ڈاکٹر کی فیس ہزار روپے نکال کر سٹاف کو دی تو انہوں فیس واپس کرتے ہوئے کہا کہ کل بھی آپ نے فیس دی تھی اس لیے ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے ان سے آج فیس نہ لی جائے۔ یہ بات بھی میرے لیے حیرانی کا باعث تھی۔
میں نے گزشتہ کئی روز سے سٹاف کے اپنے ساتھ اور دیگر مریضوں کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے فیس کے پیسے اسے دینے کی کوشش کی کہ ”یہ آپ کے لیے میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں“ ۔ سٹاف نرس نے خوش دلی سے بغیر مائنڈ کیے ہوئے کہا کہ ”وہ یہ پیسے نہیں لے گی۔ انہوں نے جو رویہ میرے ساتھ اختیار کیا وہ اس کے پیشہ وارانہ فرائض کا تقاضا تھا۔ اس کے پیچھے کوئی لالچ نہیں تھا“ ۔ سٹاف کا ردعمل میرے لیے واقعی حیران کن تھا کہ ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ گجرات کی اس سٹاف کا بے لوث رویہ ہمیشہ کے لیے میرے دل میں گھر کر گیا۔
یوں تو پاکستان سمیت پنجاب اور کے پی کے صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ مگر گجرات میں اصل حکومت (ق) لیگ یعنی ”چوہدریوں“ کی ہے۔ تحریک انصاف ہمیں گجرات میں کوئی خاص نظر نہیں آئی۔
چوہدری برادران کے دو جانشینوں، گجرات سے نوجوان ایم این ایز وفاقی وزیر چوہدری مونس الٰہی اور چوہدری حسین الٰہی کا اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کروانے کے حوالے سے خوب شہرہ ہے۔ مونس الٰہی نے اپنے حلقے میں اربوں روپے کے میگا پراجیکٹس سمیت ریکارڈ ترقیاتی منصوبے منظور کروائے ہیں۔ جن پر تیزی سے کام جاری ہے۔ گجرات شہر کی نسبت دیہی علاقوں میں جس طرف بھی جائیں ترقیاتی کام ہوتے نظر آتے ہیں۔ تاہم گجرات شہر کا برا حال ہے۔ اس کا سیوریج سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے۔
عام علاقوں کے علاوہ گجرات کے پوش ایریاز میں بھی گندگی کے ڈھیر جابجا نظر آتے ہیں۔ شہر کے بعض علاقوں خصوصاً شادمان کالونی میں ڈکیتی کی وارداتیں عام ہیں۔ نالیاں گندا پانی باہر ابلتی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں کی سڑکیں گندے پانی کے جوہڑ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ایسے علاقوں میں علی پور روڈ، رحمان شہید روڈ، شادمان کالونی اور جیل روڈ چوک نمایاں ہیں۔
گجرات میں ہر سو بے ہنگم ٹریفک نظر آتی ہے۔ ٹریفک سگنلز کا کوئی نظام نہیں ہے۔
اس سب کے باوجود کچھ اچھی اور مثبت چیزیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ شاپنگ میں اب ورائٹی کافی مل جاتی ہے۔ اب وہ چیزیں گجرات میں آسانی سے مل جاتی ہیں جنھیں لینے کے لیے پہلے لاہور یا دیگر شہروں میں جانا پڑتا تھا۔
گجرات میں جم خانہ کلب فعال ہونے کی وجہ سے اب کھانے پینے اور تقریبات کی سہولیات کی فراہمی کے باعث ایک اچھی جگہ بن گیا ہے۔ فیملی گیدرنگز کے لیے یہ بہت مناسب مقام ہے۔ گجرات میں بھی اب میکڈونلڈ، کے ایف سی، سب وے، گلوریا جینز سمیت کھانے پینے کے کافی معیاری ریستوران اور کیفے کھل گئے ہیں۔ گجرات میں یہ تبدیلی بڑی بھلی لگی۔ ورنہ ماضی میں فیملی کے ہمراہ بیٹھنے کی کوئی مناسب اور واحد جگہ فیصل ہوٹل ہی ہوتا تھا۔
یونیورسٹی آف گجرات اور نواز شریف میڈیکل کھلنے کے باعث تعلیم خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کافی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ والدین میں بچیوں کو تعلیم دلوانے کا رجحان اور شعور پہلے کی نسبت کہیں زیادہ نظر آیا۔ گجرات میں پرائیویٹ کالجوں اور سکولوں کا ”ہڑ“ آیا ہوا ہے۔ جگہ جگہ ان کی پبلسٹی کے بل بورڈز لگے نظر آئے۔ خصوصاً جی ٹی روڈ اور بھمبر روڈ ایسے تعلیمی اداروں کا گڑھ ہیں۔
چوہدری مونس الٰہی کی جانب سے خستہ حال جی ٹی روڈ گجرات کی تعمیر و ترقی اور ریلوے پھاٹک پر فلائی اور بہت اچھے اقدام ہیں۔ تاہم انہیں دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ گجرات شہر کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
مذکورہ دونوں نوجوان سیاست دانوں نے بڑے کم وقت میں اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا ہے۔ اب اگلے انتخابات ان کی صلاحیتوں کا کڑا امتحان ہوں گے۔
گجرات کا آج کل ایک اہم مسئلہ گھروں میں صفائی اور کام کاج کرنے والی خواتین کی عدم دستیابی کا بھی ہے۔ پوش علاقوں میں قائم ہر بڑے گھر کا یہ مسئلہ نظر آیا۔ گجرات کے اکثر گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی اکثریت مقامی ہونے کی بجائے ساؤتھ پنجاب، خصوصاً ملتان اور اس کے مضافاتی علاقوں سے آئی ہوئی ہے۔
فیملیوں کی صورت میں آئے ہوئے یہ لوگ گجرات شہر کے کئی حصوں میں جھگیوں میں رہتے ہیں۔ ان کی خواتین لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ان کے مرد یا تو گھر میں بچے سنبھالتے ہیں یا پھر کوئی چھوٹی موٹی مزدوری کر لیتے ہیں۔
ایسی کام کرنے والی اکثر خواتین روزانہ تین سے چار گھروں میں کام کرتی ہیں۔ صرف صفائی اور جھاڑو پوچا کا فی گھر اوسطاً معاوضہ پانچ سے سات ہزار روپے کے درمیان ماہانہ ہے۔ اگر ساتھ کپڑے بھی دھوئیں تو یہی معاوضہ ڈبل ہو جاتا ہے۔
شنید ہے کہ گجرات میں چوہدری خاندان سے پہلی بار کوئی خاتون عملی سیاست میں قدم رکھ رہی ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کی ہمشیرہ اور چوہدری پرویز الٰہی کی اہلیہ، بیگم سمیرا الٰہی آئندہ بلدیاتی انتخابات سے اپنی سیاسی زندگی کا سفر شروع کرنے جا رہی ہیں۔ وہ جس حیثیت میں بھی چاہیں گی آسانی سے منتخب ہو جائیں گی۔ کیونکہ اس کے لیے عملی کام وہ گزشتہ کئی ماہ سے کرتی آ رہی ہیں۔
وہ یقیناً گجرات شہر کی لارڈ میئر شپ سے زیادہ ضلع کونسل کی ڈسٹرکٹ مئیر بننا پسند کریں گی۔ کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی 1985 میں اپنی سیاست کا آغاز بطور چیئرمین ضلع کونسل گجرات ہی کیا تھا۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح ضلع گجرات میں بھی رئیل اسٹیٹ اور رہائشی کالونیوں کی تعمیر کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ وہاں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کئی کالونیوں میں فی مرلہ دس سے پندرہ لاکھ کے درمیان ہے۔
پاکستان میں قیام کے دوران ایک روز کے لیے راولپنڈی بھی جانا ہوا۔ جہاں بچپن کے دوست اور کلاس فیلو ادریس سے تقریباً تیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ ادریس ایم ای ایس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔
وہیں قریب ہی رہائش پذیر پاکستان کے تاریخی کردار اور سپیشل برانچ سمیت پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس پی، 86 سالہ راجہ انار خاں صاحب سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ راجہ صاحب سے ملاقات الگ مضمون کی متقاضی ہے۔
انگلینڈ میں مقیم ایک محلے دار دوست طاہر رضوی سے بھی گجرات میں ملاقات کوئی ستائیس سال بعد ہوئی۔ وہ بھی انہی پاکستان آئے ہوئے تھے۔
اسی طرح امریکہ میں 25 سال مقیم رہنے والے دوست ایوب سے بھی ملاقات ہوئی جو امریکہ چھوڑ کر گزشتہ سات سال سے گجرات میں رہائش پذیر ہیں۔
بعض پرانے دوستوں جن میں حاجی ریاض، چوہدری افضل چیمہ، عمران چیمہ، سید خاور شاہ، سیٹھ شبیر، سید صابر شاہ، ٹھیکیدار محمد حسین، پنجاب کالج میں ایڈمن افسر محمد اسلم اور میری لینڈ، امریکہ سے اپنے والد کی اچانک وفات پر آئے پرانے دوست امجد اقبال سے بھی کئی سال بعد ملاقات کا موقع میسر آیا۔
لاہور میں مقیم اپنے کزن کرنل (ر) منیر احمد سے بھی کئی سال بعد ملاقات ہوئی۔ کرنل صاحب بھرپور حس مزاح رکھنے والے ایک دلچسپ اور دیندار آدمی ہیں۔
پاکستان سے امریکہ واپس آنے کے لیے روانگی ٹائم سے بہتر گھنٹے پہلے ( پی سی آر کوڈ۔ 19 ) ٹسٹ کروانا لازمی ہوتا ہے۔ پہلے یہ شرط بہتر گھنٹے تھی۔ ہمارے آنے سے تین چار روز پہلے یہ شرط 48 گھنٹے کی ہو گئی۔ گزشتہ روز سے امریکی سی ڈی سی ڈیپارٹمنٹ نے اب یہ پابندی 24 گھنٹے پہلے کر دی ہے۔
یہ چیز بھی مشاہدے میں آئی کہ بعض منظور شدہ کلینکل لیبارٹریاں اور کچھ ٹریول ایجنسیاں باہمی ملی بھگت سے جعلی (پی سی آر کوڈ۔ 19 ) رزلٹ تیار کرنے میں ملوث ہیں۔
چھ ساڑھے چھ ہزار فیس لے لی جاتی ہے اور ٹریول کرنے والے شخص سے اس کا پاسپورٹ نمبر اور دیگر معلومات لے کر اس کا اپنا سیمپل لینے کی بجائے کسی دوسرے کرونا فری (نیگیٹو) شخص کا سیمپل لے کر (پی سی آر کوڈ۔ 19 نہیں پایا گیا) کا رزلٹ تیار کر کے کیو آر/بار کوڈ کے ساتھ سفر کرنے والے شخص کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ دھندا گجرات سمیت پاکستان میں تقریباً ہر جگہ اب ایک عام سی بات ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اکثر لوگ اس خوف سے کہ اگر کرونا ٹسٹ پوزیٹو نکل آیا تو وہ دو ہفتے ٹریول نہیں کر سکیں گے۔ اور بکنگ میں رد و بدل کروانا بھی مشکل ہو گا، ایسا رزلٹ بنوانے کے لیے آسانی سے رضامند ہو جاتے ہیں۔
یہ عمل یقیناً انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ متعلقہ اداروں کو اس جانب توجہ کرنی چاہیے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو وہ وقت دور نہیں جب کرونا رپورٹ کے ساتھ ڈی این اے بھی لازمی قرار دے دیا جائے گا۔
تاہم بعض اچھی شہرت کی حامل لیبز بھی ہیں جو گھر سے سیمپل لینے کی سہولت کے ساتھ جنوئن رزلٹ تیار کر کے دیتی ہیں۔
پاکستان میں یادگار پچاس روز گزارنے کے بعد بڑی خوشگوار اور حسین یادوں کے ساتھ سیالکوٹ انٹرنیشنل ائرپورٹ سے بذریعہ امارات ائر لائنز گزشتہ ہفتے ہماری نیویارک واپسی ہو گئی ہے۔
- ایک باپ بیٹے، حکیم سید ارشاد اور سید مسعود کی یاد میں - 24/03/2024
- میں نے نواز شریف کو موت سے کیسے بچایا؟ - 28/05/2023
- سنہ 1973 کا آئین ایک جج نے دھوتی باندھ کر لکھا تھا - 29/04/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).