پرتشدد ہجوم کے واقعات اور تحریک ناموس رسالتﷺ


کوئی بھی شخص جو توہین رسالتﷺ کو ایک ناقابل معافی جرم سمجھتا ہے وہ کسی پر توہین کی جھوٹی تہمت لگانے کو بھی گستاخی ہی سمجھتا ہے اور اسے بھی ناقابل معافی جرم سمجھتا ہے۔ کیونکہ ہمارے بابا جیؒ کی تعلیمات ان کی سوچ اور فکر نے ہمیں یہ ہی درس دیا ہے کہ کائنات کی سب سے مقدس ہستی ﷺ کے متعلق ہلکی سی نازیبا سوچ بھی انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتی ہے تو جو اس ہستیﷺ کے نام کو اپنی کوئی ذاتی دشمنی نکالنے کا ذریعہ بنائے تو اس کے ظالم ہونے میں شک کیسا۔

ہمارے بابا جیؒ نے جو سوچ و فکر ہمیں دی وہ شان رسالتﷺ و سیرت النبیﷺ کا سرچشمہ ہے۔ وہ ایسی سیرت رسول ﷺ ہمیں سمجھا گئے کہ ہم پر یہ راز کھل گیا کہ گستاخی ایک ایسا بدترین جرم ہے کہ اس کا ہو جانا تو بہت دور اگر کسی میں اس کا امکان بھی پایا جاتا ہو تو کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ ایسے عمل سے بچے۔ کیوں کہ ایسا شخص کسی بھی وجہ سے جاہل رہ گیا اور سرکار رحمت اللعالمین ﷺ کی شان یقیناً اس کے سامنے کبھی بیان نہیں ہوئی۔ کیونکہ جس پر سیرت النبیﷺ کی ایک جھلکی بھی آشکار ہو گئی وہ اگر کر سکتا ہے تو صرف عشق کر سکتا ہے۔

ہماری تحریک ناموس رسالتﷺ کو ابھی سمجھا گیا ہی نہیں۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ناموس رسالتﷺ پر حملہ ہو رہا ہے تو یہ حملہ گلی محلوں میں نہیں ہو رہا۔ الحمدللہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور یہاں ناموس رسالتﷺ کے پہریدار رہتے ہیں۔ یہ حملہ مغربی قوتوں کے پروردہ عناصر کرتے ہیں جو کسی بیرونی ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔ یہ عناصر طرح طرح سے اس حساس ترین موضوع پر مختلف حیلے بہانوں سے حملہ آور ہوتے ہیں اور ہماری نئی نسل اور ان لوگوں کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے دین سے دور ہیں۔

بلکہ ان عناصر کا ایجنڈا یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کے اذہان میں شان رسالتﷺ کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں۔ ناموس رسالتﷺ کی پہرے داری کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو بیرونی عناصر ہمارے مقدسات پر حملہ آور ہو رہے ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے کیونکہ وہ عناصر ہمارے سادہ لوح مسلمانوں کی دین سے دوری کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں۔ جس کے مقابلہ کے لیے بابا جیؒ ہم کو سب سے بڑا ہتھیار اپنے سیرت النبیﷺ کے بیانات کی شکل میں دے کر گئے ہیں۔

یہاں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ہماری تحریک اپنے آغاز سے ہی قانون میں موجود ناموس رسالتﷺ کی شقوں پر عملدرآمد پر زور دیتی ہے۔ ایک وقت تھا جب کچھ باطل قوتوں کی جانب سے ان شقوں کو ختم کیے جانے کی بات ہوئی تو بابا جیؒ نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہی تمام سوالوں کا جواب ہے کہ بابا جیؒ کا قانون میں موجود شقوں کو ختم نہ کرنے کا مطالبہ ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی بیرونی آلہ کار گستاخی کا مرتکب ہو تو مسلمان عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں۔

قانون موجود ہو گا تو دادرسی کے لیے کیس دائر کیا جا سکے گا۔ کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں ہو گی، ملک کا امن و امان بھی قائم رہے گا اور اگر کیس درست ہوا تو مجرم کو سزا ملے گی۔ اگر کیس محض ایک تہمت ہو گا تو ایسی تہمت لگانے والے پر الٹا پرچہ دے کر اسے کیفر کردار تک پہنچا کر نشان عبرت بنائے جائے گا۔ تاکہ آئندہ کوئی ناموس رسالتﷺ کے نعرے کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال نہ کر سکے۔

مجمع کے ہاتھوں کسی انسان کے قتل کا سب سے بڑا نقصان تو ہوتا ہی تحریک ناموس رسالتﷺ کو ہے۔ کیونکہ اگر اس شخص کو کٹہرے میں لایا جاتا اس کا احتساب ہوتا تو معلوم ہوتا کہ اس شخص نے اگر واقعی توہین کی ہے تو کیوں کی ہے۔ کیا یہ شخص کسی بیرونی یا اندرونی سازش کی کوئی کڑی تھا؟ یا پس پردہ اس ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے کوئی گروہ سرگرم عمل ہے؟ اگر اس شخص تک تو کوئی لٹریچر پہنچا جس کے بعد اس نے ایسی کوئی بات کہی یا لکھی تو وہ لٹریچر کون بانٹ رہا ہے۔ اگر وہ شخص بے گناہ نکلتا تو جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں ایسے مقدمہ کے مدعیان کے خلاف کارروائی ہوتی۔ کیونکہ بابا جیؒ کی سوچ و فکر میں کسی پر جھوٹا توہین کا الزام لگانا بھی توہین رسالتﷺ ہی ہے۔

یہ پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت کے واقعات تحریک کے آغاز سے پہلے کے ہو رہے ہیں۔ مگر تحریک تاریخ میں پہلی بار قانون میں موجود ناموس رسالتﷺ کی شقوں کی حفاظت کا نعرہ لے کر کھڑی ہوئی تاکہ گستاخوں کو بذریعہ قانون سزا دلوانے کے ساتھ ساتھ اس پورے سازشی گروہ کی بیخ کنی کی جائے۔ اگر تحریک کو ان پر تشدد ہجوموں کی سپورٹ کرنا ہوتی تو ہم الیکشن لڑ کر پاکستان کی تیسری بڑی پارٹی نہ بنتے۔ تحریک کے نہتے کارکنان ڈی چوک کی ٹھنڈ میں شیلنگ نہ برداشت کرتے۔

سڑکوں پر چوراہوں پر ناموس رسالتﷺ کے لیے سینوں پر گولیاں نہ کھاتے۔ تحریک کے قائدین بلا جرم و خطا قید و بند کی صعوبتیں نہ برداشت کرتے بلکہ کوئی اور ہی راستہ چنتے۔ الحمدللہ تحریک کا مقصد رسول اللہﷺ کے دین کو تخت پر لانا ہے اور انشا اللہ یہ کامیابی عوامی سپورٹ سے حاصل ہوگی۔ تحریک ناموس رسالتﷺ ہی پاکستان کو حقیقی اسلامی جمہوریہ بنا کر دم لے گی کیونکہ یہ ہی بابا جیؒ کا دیا ہوا نظریہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments