ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا


انسانوں کی بڑی آبادی جب ایک کام نہ کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس خلاء کوپر کرنے کو دنیا میں نیا پیشہ وجود میں آتا ہے۔ ایک بڑی آبادی نے جب گھروں میں کھانا نہ پکانے کا فیصلہ کیا تو دنیا میں ہوٹلنگ کا پیشہ وجود میں آیا۔ اسی طرح انسانوں کی ایک آبادی نے اپنی بنیادی استعمال کی چیزوں کی خریداری کے لئے وقت کی کمی کا عذر پیش کیا تو ہوم ڈیلیوری سروس کا آغاز ہوا۔ ہم نے اپنوں کی داد رسی کرنا چھوڑی تو اس خلاء کو ماہرین نفسیات نے پر کیا۔ اسی طرح انسانوں کی بڑی آبادی نے اپنے حقوق ادا کرنے سے ہاتھ اٹھایا تو دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا پیشہ وجود میں آیا۔

10 دسمبر دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پہ منایا جاتا ہے، یوں اس موقع پر ان اداروں کو پیشہ ور کہنے پر شاید آپ اختلاف کریں۔ لیکن عموماً کام نہ کرنے اور بیٹھ کر کھانے والوں کو پیشہ ور ہی کہا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی دن پہ انسانی حقوق کے اداروں کو یاد دہانی کرانا پڑتی کہ ان کے ذمے کچھ کام کرنا باقی ہے۔ یاد دہانی؟ جی یاد دہانی۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک ادارہ جس کام کرنے کو وجود میں آیا اسے وہ کام یاد کرانا پڑتا ہے۔ یعنی ہم استاد کو یاد کروائیں کہ جناب آپ نے بچوں کو پڑھانا ہے اور ڈاکٹر صاحب کو یاد کرانا پڑے کہ جناب مریض آپ کے انتظار میں ہیں۔

عالمی طاقتوں کی سربراہی میں کام کرنے وا لے ان اداروں کی کمزوری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے شاید ہی ان اداروں نے انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ نمٹایا ہو۔ یوں اسی بے بسی کے عالم میں جہاں پہلے حل طلب مسائل کا انبار لگا ہے وہیں آئے روز نئے نئے انسانی بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ ایسے میں یہ فہرست ہے کہ طویل ہوتی جا رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اپنے بنیادی انسانی حقوق کے طلب گار جب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ان اداروں سے صرف تشویش کے اظہار کا جملہ سنتے ہیں تو واپس ان اداروں کو تین لفظ بھیجتے ہیں، ”تم سے نہ ہو گا“ ، ”یہ تمہارے بس کی بات نہیں“ ، ”تم تو خود ملوث ہو“ ۔ ان اداروں کی لغت کو بہرحال سراہنا ہو گا کہ ہر دن انسانی حقوق کی نئی سے نئی تعریف سننے کو ملتی۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حقوق و فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک شخص کا حق دوسرے کا فرض بن جاتا ہے۔ معاشرتی سطح پہ دیکھیں تو ہم بھی انفرادی طور پہ بھی اپنے حقوق ادا کرنے کوتاہی برتے ہوئے ہیں۔ ہم نے مصروفیات کے عوض خود کو ایسا گروی رکھا ہے کہ ہمارے لیے گھر کے افراد کے حقوق ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے، معاشرے کے حقوق تو پھر بہت بعد کی کہانی ہے۔ جس معاشرے میں حقوق نہ ملنے کی شکایات کا انبار ہو وہاں اگر فرائض ادا کرنے والوں کی مردم شماری ہو تو شاید یہ آبادی بہت کم نکلے۔

انسانی حقوق کی اصل تشریح اور عمل دیکھنا ہو تو چودہ سو سال پیچھے چلنا ہو گا۔ حجتہ الوداع ہے، خدا کے حبیب خطبہ فرما رہے ہیں۔ حضرت بلالؓ کو سینے سے لگا کے رکھنے والے حبیب خدا ﷺ نے انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے رنگ و نسل کی تمیز کی دور جہالت کی رسم کو پیروں تلے روند دیا۔ وہ معاشرہ جہاں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا وہاں خواتین کے حقوق کی بنیاد رکھی اور پھر اپنے خطبہ میں فرمایا کہ خواتین کے حقوق بارے اللہ سے ڈرو۔ غلاموں کے حقوق وضع کیے، انہیں اپنے ساتھ بٹھایا، جو خود کھایا وہ انہیں بھی کھلایا، جو خود پہنا انہیں بھی پہنایا پھر اپنے خطبہ میں غلاموں کے حقوق پہ زور دیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے تقریباً نقاط اسی خطبہ سے ماخوذ ہیں لیکن اس پر عمل دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس کی پیچھے بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے پہلے اپنی زندگی میں پہلے عملاً ً کر کے دکھایا اور پھر امت کو تلقین کی۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی کارکردگی اس لیے صفر ہے کہ یہ صرف باتوں تک محدود ہیں، عملی میدان بالکل خالی ہے۔ اگر آج یہ ادارے کام کرنے کو آئیں تو مسائل حل ہونے کو دیر نہ لگے۔ بقول فیض

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments