کیا سیالکوٹ اور فیصل آباد کے واقعات آخری ہیں؟


کوئی بھی معاشرہ نہ تو ایک دن میں یہاں پہنچتا ہے جہاں آج ہم کھڑے ہیں اور نہ اس نہج پر پہنچے ہوئے معاشرے کو ایک دن میں واپس اس سٹیج پر لایا جا سکتا ہے کہ جہاں انسانی زندگی، انسانوں کے درمیان برابری، شخصی آزادیاں اور خوشیاں باقی تمام تصورات پر مقدم ہوں۔ ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ کسی بھی معاشرے کو پرامن یا پر تشدد بنایا جا سکتا ہے۔ یہ حکمرانوں کے فیصلے ہیں جو کسی بھی معاشرے کو ایک پرامن انسان دوست بناتے ہیں یا پر تشدد اور انسان دشمن بنا دیتے ہیں۔

آج ہم جو کچھ بھی ہیں، یعنی پاکستانی معاشرہ جو کچھ بھی یہ ہمارے حکمرانوں کے ان فیصلوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے دہائیوں پہلے کیے تھے اور بھی تک ان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ عذاب ہم پر آسمان سے نہیں اتارا گیا بلکہ زمین پر ہی ہمارے حکمرانوں نے پیدا کیا ہے۔

سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت پر مرد مومن مرد حق جنرل محمد ضیاالحق نے امریکی امداد سے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی پیدا کرنے اور پھیلانے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے پاکستان میں یہ بربریت آج عروج پر ہے۔ دیوار یا کسی مشینری سے سٹکر اتارنے یا پوسٹر پھاڑنے پر سیکڑوں نوجوانوں کا اکٹھا ہو جانا اور ایک بے بس پر دیسی انسان کو اس بے دردی سے قتل کرنا اور پھر اس کو نذر آتش کرنا کوئی ایک دن میں نہیں ہو گیا۔ ایسا ذہن تیار کرنے پر بہت محنت لگی ہے۔

یہ محنت لگائی گئی کیونکہ ایک عام نوجوان تو کلاشنکوف لے کر افغانستان سے سوویت یونین کو نکالنے کے خود کش مشن پر نہیں نکلے گا۔ اس کے لیے ایک خاص ذہن اور موٹیویشن چاہیے تھی۔ اس کا سستا اور مؤثر ترین طریقہ مذہبی جنونیت کا پھیلانا  تھا۔ مسلمانوں میں ابھی اس کی گنجائش بہت تھی۔ یہ آزمودہ نسخہ ہی استعمال کیا گیا۔

سن انیس صد اکہتر میں پاکستان میں وہابی مسلک کے 900 مدرسے تھے جبکہ انیس صد اٹھاسی میں 8000 ہزار ہو گئے تھے۔ یہ آٹھ ہزار والا اندازہ بھی کم از کم کا ہے، ایک اور اندازے کے مطابق ایسے مدرسوں کی کل تعداد 25000 تک جا پہنچی تھی۔ ان مدرسوں کو بھرنے کے لیے پاپولیشن پلاننگ کا ادارہ جو کہ پہلے بھی کچھ بہت اچھا کام نہیں کر رہا تھا اسے ختم کیا گیا۔ فیملی سائز اتنا بڑا تھا کہ والدین بچوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ مدرسے کا آپشن تھا تو استعمال ہوا۔ میڈیا، منبر، تعلیمی نصاب غرضیکہ ہر ذریعہ استعمال کیا گیا۔ عام سکولوں کو بھی مدرسے بنا دیا گیا۔ ڈالر اور ریال کی مدد سے ہر چیز کو اسلامائز کر دیا گیا۔ جنرل ضیاالحق کی ہلاکت تک صورت حال اتنی خراب ہو چکی تھی اور بعد میں آنے والی نیم جمہوری حکومتیں اور مارشل لاء اتنے خوف زدہ تھے کہ کوئی بھی اس پر ہاتھ نہ ڈال سکا۔

صرف یہی نہیں اس مذہبی جنون کو جمہوری حکومتوں کو “سبق سکھانے” کے لیے باقاعدہ استعمال کیا جانے لگا۔ بدترین مثال 2018 میں قائم ہوئی۔ فیض آباد دھرنے کے سامنے اس وقت کی حکومت بالکل بے بس ہو گئی۔ اس کے بعد بھی پے در پے وارداتیں ہوئیں اور ہر حکومت ان کے سامنے جھکتی چلی گئی۔ اس سے شدت پسندوں کے حوصلے بہت بلند ہوئے۔ اب وہ اگر اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں تو اس کی وجوہات ہیں ان کے پاس۔

جنرل ضیاالحق کی اس اسلامائزیشن کا بد ترین شکار عورتیں اور مذہبی اقلیتیں ہوئیں۔ لوگوں کے ہاتھوں میں بلاسفیمی کا ہتھیار آ گیا۔ اس کا شکار عام لوگ، عورتیں حتی کہ بچے بھی ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ لاشیں گھسیٹی گئیں۔ گھر، پولیس سٹیشن اور محلے کے محلے جلا کر راکھ کر دیے گئے اور کسی مجرم کو کبھی کوئی سزا نہیں ہوئی۔ یہ حکومت بھی ایک پیج کی رٹ کے باوجود بالکل بے بس ہے۔ ان دہشت گردوں کے ساتھ ایک ایسا معائدہ کر کے بیٹھی جو عوام کے سامنے لا بھی نہیں سکتی۔

ایسی صورت حال میں سیالکوٹ میں ایک بدیسی شخص کا ایک سٹکر اتارنے پر ہجوم کے ہاتھوں قتل اور پھر لاش کی بے حرمتی یا فیصل آباد میں چھوٹی سی چوری کے الزام میں غریب عورتوں کے کپڑے پھاڑ کر انہیں سرعام بازار میں گھسیٹنا معمولی باتیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ واقعات پہلے تھے نہ آخری ہیں۔ ایسے واقعات کو ختم کرنے کے لیے معاشرتی صورت حال کو بدلنا ہو گا۔ اس کے لیے محنت، لگن اور وسائل کی ضرورت ہے جو کہ ناپید ہیں۔ یہ ایک لمبے عرصے کی جہد مسلسل ہو گی۔ اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھانا ابھی باقی ہے۔ پہلا قدم اس مسئلے کے وجود کا کھلا اعتراف ہو گا۔ یہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ابھی تک ہم صرف حیلے بہانوں سے کام چلا رہے ہیں اور مسئلے کی جڑ کا کوئی بھی ذکر نہیں کرنا چاہتا۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments